علامہ اقبال کا خادم خاص علی بخش تھا۔ ضلع ہوشیار پور کے
موضع اٹل کا رہنے والا علی بخش جب علامہ صاحب کے پاس آیا وہ چودہ برس کا
نوعمر لڑکا تھا۔اس نے چالیس سال علامہ کی خدمت میں گزارے۔علی بخش لکھنا
پڑھنا نہیں جانتا تھا لیکن علامہ کی صحبت نے اسے ایسا پختہ اور فکر رسا بنا
دیا کہ زمانہ اقبال کو علی بخش کی یادوں سے سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ اگر
یہ کہا جائے علی بخش مفسر اقبال تھا تو بے جا نہ ہو گا۔ وہ بہت سی باتیں
سنتا تھا اور اقبال سے پوچھتا تھا اور بعض اوقات علامہ اسے بعض گرہ کشا
نقطے خود بتا دیا کرتے تھے۔
علی بخش کے مطابق علامہ قرآن مجید بلند آواز سے پڑھتے تھے ان کی آواز اس
قدر شیریں تھی کہ تلاوت کرتے وقت ان کی قرأت سے پتھروں کے دل پانی ہوتے
ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ علی بخش کے بقول ’’میرا جی چاہتا تھا کہ ان کے پاس
بیٹھا رہوں اور ان کی شیریں آواز میں کلام الٰہی سنتا رہوں۔‘‘
علامہ اقبال کے بارے میں علی بخش بتاتے ہیں کہ علامہ زیادہ تر وقت پڑھنے
لکھنے میں گزارتے تھے۔ لکھتے کم تھے پڑھتے زیادہ تھے۔ جس کمرے میں سوتے
تھے، اس میں ایک بڑی سی میز پر کتابیں پڑی رہتی تھیں۔ میں جب بھی ان کتابوں
کو الماری میں ترتیب سے رکھنے کا ارادہ کرتا تو فرماتے انہیں یہیں پڑا رہنے
دو۔علامہ نے کبھی پینٹ کوٹ نہیں پہنا۔ بعد میں بھی سوٹ کبھی کبھار پہنا
کرتے تھے زیادہ تر دیسی لباس ہی پہنا کرتے تھے، ان کے کپڑے قلعہ گجر سنگھ
کا ایک بوڑھا درزی نظام الدین سیتا تھا۔ اس درزی کو ڈاکٹر صاحب سے بہت محبت
تھی۔ وہ بڑی محنت اور دھیان سے ڈاکٹر صاحب کے کپڑے سیتا تھا۔ ایک روز مجھے
کہنے لگا، علی بخش! میں علامہ صاحب سے بہت ڈرتا ہوں۔ بھئی آخر شاعر ہیں
کبھی غصے میں آ کر میرے خلاف کوئی شعر ہی نہ لکھ دیں۔
علی بخش کے مطابق ڈاکٹر اقبال دنیادار نہیں تھے۔ دنیا والوںکی طرح کبھی
پیسہ اپنے پاس نہیں رکھتے تھے۔ منشی طاہر الدین ان کے خزانچی تھے۔ ان کے
ہاتھوںسے ہی روپیہ خرچ ہوتا تھا۔ جب سفر میں ہوتے صرف ریلوے کا ٹکٹ ہی میرے
پاس ہوتا باقی روپیہ پیسہ خزانچی کے پاس ہوتا تھا۔
علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جسٹس (ریٹائرڈ)جاوید اقبال اپنی خودنوشت میں
لکھتے ہیں کہ ’علی بخش نے ساری عمر شادی نہ کی‘ ۔
علی بخش فرماتے ہیں کہ اگر میں شادی کر لیتا تو علامہ صاحب کی خدمت کون
کرتا۔علامہ اقبال مذاق میں علی بخش کو کہا کرتے تھے کہ علی بخش! تمھارے لیے
ولایت سے میم لاؤں گا۔علی بخش یہ سن کر بہت خوش ہوا کرتے تھے۔
علی بخش ،علامہ اقبال کی صحبت میں کندن بن گیا۔ علامہ اقبال آج دنیا بھر کی
دانش گاہوں کے نصاب میں شامل ہیں اور جہاں جہاں اقبال کا تذکرہ ہوتا ہے
وہاں علی بخش کا ذکر بھی ناگزیر ہوتا ہے۔ فیاض کی فیاضی جیسے فراز کو
سرفراز کرتی ہے ایسے ہی نشیب میں بھی جلوہ گر ہوتی ہے۔
علی بخش ، علامہ اقبال کے یورپ جانے سے قبل ہی خدمت میں حاضر ہو گیا تھا۔
علامہ اقبال کو اپنے اس ملازم سے بے حد محبت تھی جسے اُس نے بھی خوب
نبھایا۔ علی بخش نے اپنی ساری زندگی علامہ اقبال کی خدمت میں کچھ ایسی
گزاری کہ جب تک علامہ اقبال کا نام روشن رہے گا علی بخش کا نام بھی عزت و
تکریم سے لیا جاتا رہے گا۔ علامہ اقبال کی روح نے جب پرواز کیا تھا تب آپ
کا سر علی بخش کی ہی گود میں تھا۔ علامہ کی وفات کے بعد بھی تقریباً دو
دہائیوں تک علی بخش جاوید منزل میں ہی علامہ اقبال کے بچوں کے ساتھ رہا۔
پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل چک جھمرہ سے لگ بھگ دو کلومیٹر کے فاصلے
پر کھرڑیانوالہ روڈ پر چک نمبر 188 ’رب نَلے والا‘ واقع ہے۔ علامہ اقبال
کے’خادمِ خاص‘ علی بخش اسی گاؤں کے قبرستان میں دفن ہیں۔ انھوں نے اپنی
زندگی کے آخری ایام یہاں پر گزارے اور یہیں دو جنوری 1969 کو اُن کی وفات
ہوئی۔
|