میرے بچپن میں میرے والدِ محترم بھٹہ خشت (اینٹوں کے بھٹے) پر مزدوری کرتے
تھے۔ ہمارے گھر کے اندر اینٹ بنانے والا سانچہ رکھا ہوا تھا۔ اُس سانچہ کے
اندر گندھی مٹی یعنی گارا (Mud) ڈالا جاتا ہے اور پھر اچھی طرح سانچہ کے
مطابق گارے کی تراش خراش کی جاتی ہے۔ اضافی گارے کو اطراف سے اُتار دیا
جاتا ہے تاکہ ایک بہترین اینٹ تیار ہو سکے۔ بعد ازاں اس سانچہ کو زمین پر
اُلٹا پلٹ دیا جاتا ہے جس سے وہ ایک مکمل اینٹ کی صورت اختیار کر لے اور اس
کے سوکھ جانے پر اسے بھٹے کے اندر ایک خاص در جہ حرارت پر پکایا جاتا ہے
یوں اینٹ بنانے کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کے اینٹ
بنانے کے اس عمل کے بعد اینٹوں کا معیار چیک کیا جاتا ہے اگر اینٹ درست شکل
کے بجائے ٹھیڑی یا اپنے سانچہ کے مطابق تیار نہ ہو سکی تو اس صورت میں بننے
والی اینٹ کو مسترد کردیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے تعمیر کردہ مکان کی
خوبصورتی میں بگاڑ پیدا نہ کر دے۔ اینٹ کی شکل خراب ہونے کا ذمہ دار سانچہ
نہی بلکہ وہ شخص ہے جو گارا سانچہ کے اندر اُس کے مطابق نہی ڈالتا بلکہ کم
یا زیادہ ڈال دیتا ہے۔ اگر گارا کم ڈال دیا تب بھی اینٹ درست نہی بنے گی
اور اگر زیادہ ڈال کر اطراف سے نہی تراشا تب بھی اینٹ خراب ہی بنے گی اور
نتیجتاً مسترد کر دی جائے گی۔
اگر ہم لفظ سانچہ کو ہم معنی الفاظ دیکھیں تو ہم سانچہ کو نمونہ، پیمانہ،
ماڈل یا اسوہ کہہ سکتے ہیں۔
اللہ رب العزت نے گندھی مٹی سے بنے آدمی کے لیے ایک نمونہ بنایا اور فرمایا
کہ یہ بہترین نمونہ ہے تاکہ اس آدم زاد کو انسانیت کے مرتبے پر فائز کیا جا
سکے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ،
ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہو ، اور کثرت سے
اللہ کا ذکر کرتا ہو ۔" (احزاب 21)
جو شخص بھی خود کو اللہ کی رحمت کا امیدوار ٹھہرائے اور یومِ آخرت پر ایمان
رکھتا ہو اسے چاہیے کہ خود کو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سنتِ مطہرہ کے عین
مطابق ڈھالنے کو کوشش کرے تب وہ ایک اچھا مسلمان اور اللہ کی رحمت کا
امیدوار ہو سکتا ہے بصورتِ دیگر وہ مَن پسند رسومات کی پیروی کرتے ہوئے
بدعات سے گزر کر شرک کے دروازے تک پہنچ جاتا ہے جسکا اسے احساس تک نہی ہوتا
اور اللہ کی ناراضگی کا باعث بنتا ہے کیونکہ شرک ظلمِ عظیم ہے۔ جن لوگوں نے
خود سے نئی رسومات گھڑ لی ہیں اور ان رسومات کو فرائض سے زیادہ اہمیت دے
رکھی ہیں وہ لوگ ہی حد سے گزر جانے والے ہیں۔ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جِن سے
سنتِ رسول ﷺ کی اتباع میں کچھ کمی رہ گئی ہے تو بحثیت بشر اللہ سے معافی کے
طلبگار ہوتے ہیں اور عاجزانہ اللہ سے اپنی کمی کوتاہی سے درگزر کی درخواست
کرتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو نبی پاک ﷺ سے معاذاللہ آگے نکلنے
کو کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ہر وہ کام جو نبی پاک ﷺ نے نہ ہی خود کیا اور
نہ ہی کرنے کا حکم دیا اس پر نا صرف عمل پیرا ہیں بلکہ جو اُن رسومات کو نا
مانے تو دین سے خارج کرنے کا سرٹیفیکیٹ دے بھی دیتے ہیں۔
دینِ اسلام نبی پاک ﷺ پر مکمل ہو گیا ہے اس کے اندر کسی بھی قسم کی تبدیلی"
چاہے وہ اضافی ہو یا کسی اور صورت میں" قابل قبول نہی اور نہ اس کی گنجایش
باقی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
'' ( اے پیغمبر ! لوگوں سے ) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو
میری اتباع کرو ، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف
کردے گا ۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا ، بڑا مہربان ہے" ۔ البقرہ
پس ثابت ہو گیا ہے کہ اللہ کی رضا اور حقیقی کامیابی نبی پاک حضرت محمد
مصطفی ﷺ کی سنتِ مطہرہ کی پیروی کرنے میں ہی ہے اور یہی صراطِ مستقیم ہے۔
اس کے علاوہ کوئی راستہ گمراہی ہے چناچہ ارشاد نبی پاک ﷺ ہے:
سب سے اچھی بات کتاب اللہ ہے اور سب سے اچھا طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے اور
سب سے بری نئی بات ( بدعت ) پیدا کرنا ہے ( دین میں ) اور بلاشبہ جس کا تم
سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ آ کر رہے گی اور تم پروردگار سے بچ کر کہیں نہیں جا
سکتے ۔(بخاری-7277)
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت سے صراطِ مستقیم پر چلنے اور
غلو و بدعات سے بچنے کو توفیق عطا فرمائے۔آمین #اسوہ_رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم
|