جب بھڑکتی ہے تو بھڑکے ہی چلی جاتی ہے آگ

شاعر اسلام حفیظ میرٹھی اگر حیات ہوتے تو اپنے اس شعر کاعملی مظہردیدۂ بینا سے دیکھ لیتے ۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے مشرق میں سب بڑی ریاست نیویارک آباد ہے اور مغربی کنارے پر دوسرے نمبر کا صوبہ کیلیفورنیا بسا ہوا ہے۔ نیویارک کی شہرت تجارت و حرفت کے سبب ہے تو کیلیفورنیا کا شہر لاس اینجلس ہالی ووڈ کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس لیے وہاں کی خبر یں آگ کی مانند چہار دانگ عالم میں پھیل جاتی ہیں ۔ وہاں کی آگ سے متعلق لاس اینجلس کاؤئنٹی کے شیرف رابرٹ لونا نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ایسے لگ رہا ہے جیسے ان علاقوں پر کسی نے ایٹم بم گرایا ہو‘۔ اتفاق سے جوہری اسلحہ کا پہلا اور آخری استعمال امریکہ بہادر نے ہی جاپان کے ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں کیا تھالیکن آگے چل کر کوئی اس کے انتقام کی بات سوچ بھی نہیں سکا۔ امریکہ کے بغل بچہ اسرائیل کے وزیر ثقافت نے نومبر2023 میں غزہ پر ایٹم بم برسانے کی تجویز پیش کی تھی ۔ صہیونی تہذیب و ثقافت کے وزیر امیچائی الیاہو نےاخباری انٹرویومیں کہا تھا کہ اسرائیلی فوج کے پاس غزہ کی جنگ کا ایک حل یہ آپشن بھی ہے۔ الیاہو کے ارمانوں کا منظر اس کے آقا امریکہ میں رونما ہوگیا ۔ وہاں۴؍ مختلف مقامات پربے قابو آگ ۶؍ دن بعد بھی پھیلتے ہوئے حفیظ میرٹھی کا یہ شعر یاد دلا رہی ہے ؎
ایسی آسانی سے قابو میں کہاں آتی ہے آگ
جب بھڑکتی ہے تو بھڑکے ہی چلی جاتی ہے آگ

لاس اینجلس کی آگ لگ بھگ 40 ہزار ایکڑرقبہ کومتاثرکرنے کے بعد بھی پھیل رہی ہے۔حکام تادمِ تحریر اس آگ سے انتہائی پر تعیش اور مہنگے گھروں سمیت لگ بھگ 12 ہزار املاک کے نذرِ آتش ہونے کی تصدیق کرچکےہیں لیکن 60 ہزار سےزیادہ عمارتوں کو پرخطر قرار دے دیا گیا ہے۔ متاثرہ علاقوں کی ڈیڑھ لاکھ آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے احکامات جاری کرنے پڑے ہیں۔ نو مقامات پر بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہیں بھی قائم کی گئی ہیں یعنی کل تک جو لوگ کروڈوں کے مکانات میں تھے اب ان پر ریلیف کیمپ میں رہنے کی نوبت آگئی ہے۔ ان لوگوں میں اسرائیل کے درندہ صفت وزیر الیاہو کا ہم خیال معروف ہالی ووڈ اداکار جیمز ووڈ بھی شامل ہے ۔ اس کو 2 مرتبہ آسکر کے لیے نامزد کیاگیا اور وہ 3 مرتبہ ایمی اعزاز سے نوازہ گیا ۔ جیمز ووڈ جب امریکی میڈیا میں گھرکے جل جانےپر روتا ہوا نظر آیا تو سوشل میڈیا کے صارفین اسے اس کی اپنی سفاکی یاد دلائی ۔ اُنہوں نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ظلم کا نشانہ بننے والے فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت کے اسکرین شاٹ شیئر کیےاور نیچے قرآن مجید کی یہ آیت لکھ دی ’کافروں نے ایک تدبیر کی، لیکن اللّٰہ نے بھی ایک تدبیرفرمائی اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے‘۔ جیمز ووڈ جیسے بے حس لوگوں سے زیادہ حساس تووہ آگے کے شعلے ہیں جن سے متعلق حفیظ فرماتے ہیں؎
وہ بھی اک حساس دل رکھتی ہے پہلو میں ضرور
گد گدا تا ہے کوئی جھونکا تو بل کھاتی ہے آگ

سرکاری حکام کے شانہ بشانہ خدمتِ خلق کے جذبے سے آگ بجھانے والے بے غرض رضا کار بھی وہاں کام کررہےہیں ۔ ان کی تین ترجیحات میں سب سے پہلے لوگوں کو بچانا ، ان کی املاک کے نقصان کو روکنا اور آگ پر مکمل قابو پانے کی کوشش کرنا۔ اس کام میں لگ بھگ 15 ہزار رضا کار مصروف عمل ہیں جن کو 1300 سے زائد فائر انجن کی مدد حاصل ہے۔اس کے علاوہ فضا سے آگ پر قابو پانے کے لیے ، 84 ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹرز کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجودامریکی حکام کو لگتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ’پانی کا نظام‘ لاس اینجلس کی آگ بجھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔اس لیے کہ 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والی طوفانی ہواؤں کے سامنے سارا ہوائی تام جھام بے بس ہوجاتا ہے اور پینٹا گون سے بھیجی جانے والی امدادی رسد منہ تکتی رہ جاتی ہے۔ خالق ِ کائنات کے سوا تیز رفتار ہوا پر کسی کا اختیار نہیں ہے۔ وہ آگ کو بجھانے کی خاطر ہوا سے برسائے جانےوالے پاوڈر کو اڑا کر لے جاتی ہے نیز ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر کی اڑان میں بھی رکاوٹ بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی لاکھ کوشش کے باوجود 13؍ فیصد سے زیادہ قابو نہیں پایا جاسکا ۔ اس صورتحال کی منظر نگاری حفیظ نےکیا خوب کی ہے؎
پاسباں آنکھیں ملے ،انگڑائی لے ،آوازدے
اتنے عرصے میں تو اپنا کام کر جاتی ہے آگ

اس قدرتی آفت نے جہاں سیکڑوں لوگوں کوانسانی ہمدردی کے جذبات سے سرشار کیا وہیں چور لٹیروں کو بھی نادر موقع فراہم کردیا اور وہ سرگرم ہو گئے۔ یہ لوگ آگ سے متاثرہ خالی گھروں کو نشانہ بنا کر ان میں لوٹ مار میں لگ گئے کیونکہ مکین اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں ۔لٹیروں اس کا فائدہ اٹھا کر سامان چوری کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ مقامی حکام نے اس پریشانی نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متحرک کیا تاکہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جا سکے اور متاثرہ علاقوں میں امن و امان قائم رکھا جا سکے۔ امریکی معاشرے کایہ اخلاقی انحطاط کی انتہا ہے کہ وہاں کرفیو بھی لگانا پڑا۔ اس معاملے میں عوام کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے والے ٹرمپ بھی پیچھے نہیں ہیں۔ انہوں نے اس آفت میں موقع تلاش کرکے بائیڈن انتظامیہ کی نااہلی کو تمام تباہی کا ذمہ دار ٹھہرا دیااور اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے لگے۔ ٹرمپ اور بائیڈن کے درمیان یہ فکری اختلاف ہے کہ اولذکر ماحولیاتی تبدیلیوں کو بکواس مانتے ہیں جبکہ بائیڈن کے نزدیک وہی آگ کی بنیادی وجہ ہے۔ یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ملک کی سب سے بڑی آگ بھی الزام تراشی کی لعنت کو خاکستر کرنے میں ناکام ہوگئی۔ مگر مچھ کے آنسو بہانے والے امریکی سیاستدانوں پرتو یہ شعر صادق آتا ہے؎
آنسوؤں سے کیا بجھے گی دوستودل کی لگی
اور بھی پانی کے چھینٹوں سے بھڑک جاتی ہے آگ

ایرانی صدر کے معاون جواد ظریف نے کیلیفورنیا کی آگ پر لب کشائی کرتے ہوئے ایکس پر لکھا کہ وہ قدرت کے قہرسے اپنا سب کچھ کھونے والے لوگوں کے تئیں ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں ۔ ان کے مطابق یہ ایک انسانی جذبہ ہے خاص طور پر اس لئے بھی کہ وہاں کے بہت سے لوگوں نے غزہ کےان مظلومین کی حمایت کی ہے ، جنہوں نے اسرائیل کی بربریت سے اپنا سب کچھ کھو دیا ۔ اس بیان میں بین السطور یہ پیغام دیا گیا کہ سارے انسانوں کی تباہی و بربادی پر ہمدردانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے نیز قدرتی آفات پر تو انسانوں کے آگے تو انسان بے بس ہوتا ہے لیکن اسرائیل جیسی سفاک حکومت جب ظلم کے پہاڑ تو ڑتی ہے تو اس کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے۔ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ دنیا بھر میں حقوق انسانی کا ڈھول پیٹنے والی سُپر پاور اپنے علاقائی مفاد کی خاطر ظالم کی حمایت میں کھڑی ہوجاتی ہے اور مظلومین کے خلاف اس کی ہر طرح سے مدد کرتی ہے۔ اس کے جواب میں جب قہر الٰہی نازل ہوتا ہے تو اس کی لپیٹ میں غیر متعلق لوگ بھی آجاتے ہیں دنیوی آگ پر حفیظ کا یہ شعر دیکھیں ؎؎
جب کوئی آغوش کھلتا ہی نہیں اس کے لیے
ڈھانپ کر منہ راکھ کے بستر پہ سوجاتی ہے آگ

دنیا کی بڑی سے بڑی آگ جلد یا بدیر بجھ جاتی ہے لیکن جہنم کے کبھی نہ بجھنے والے شعلوں سے انسان غافل ہے۔ اس قدر سائنسی ترقی کے باوجودلاس اینجلس کی آگ سے متعلق کوئی بھی وثوق کے ساتھ یہ بتانے کی حالت میں نہیں ہے کہ اب تک 16 لاکھ کروڈ پھونک دینے والی آگ کیوں لگی؟ تمام قیاس آرائیاں تحقیق و تفتیش کی محتاج ہیں ۔ انتظامی امور کے حوالے سےکیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے پانی کی قلت کے باعث آگ بجھانے کے عمل میں مشکلات کی اطلاعات کے بعد اس حوالے سے بھی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔نقل مکانی کرنے والوں میں کلائمیٹ رپورٹر لوسی شیرف اپنا حالِ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’لاس اینجلس کو ایک دوزخ نما مقام میں تبدیل ہوئے چار روز گزر چکے ہیں لیکن میرا گھر اب بھی دہکتے انگاروں کا ڈھیر ہے۔‘آگ کو بجھانے کی کوششوں میں صرف امریکی سرکاری ادارے ہی نہیں بلکہ غیر ملکی فائر فائٹرز اور ہزاروں مرد اور خواتین قیدی بھی حصہ لے رہے ہیں مگر کامیابی ہاتھ نہیں آرہی ہے ۔ اس دنیا کو جنت سمجھ لینے والوں کو یہ آگ دنیا کی بے ثباتی کا درس دے رہی ہے۔ آفاق و انفس میں پھیلی ہوئی بے شمار نشانیاں بنی نوع انسان کو مقصد حیات کی جانب متوجہ کرتی ہیں مگر اس غفلت کی نیند توڑنے کےلیے کبھی کبھارعالمِ انسانیت کو ایسے سخت قہر سےبھی دوچار کردیا جاتا ہے۔حفیظ اپنی غزل کے مقطع میں یہی کہتے ہیں کہ؎
حل ہوئے ہیں مسئلے شبنم مزاجی سے مگر
گتھیاں ایسی بھی ہیں کچھ جن کو سلجھاتی ہے آگ


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2132 Articles with 1509845 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.