پھر ان ننھے شریروں کے ساتھ کیا کیاجائے؟
ایک پریشان شخص میرے پاس آیا اورکہنے لگا ’’ آپ تو کہتے ہیں کہ بچوں کو
پراعتماد ہوناچاہیے۔ انھیں شرمانا نہیں چاہیے۔بے خوفی سے کسی کاسامنا کرنا
چاہیے۔
میں نے کہا’’ ہاں،بالکل درست کہا ‘‘۔’اس نے کہا’’لیکن ایک مسئلہ ہے‘‘۔میر
ایک پانچ سال کا بیٹا ہے۔وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔وہ جہا ں جاتا ہے پانچ منٹ کے
اندر اندر وہاں کی ہر چیز پر اپنا تسلط قائم کردیتا ہے۔ہم اس کی اسی فطرت
کی وجہ سے کسی سے بھی ملاقات کے لیے جانے سے کتراتے ہیں۔میری بیوی اسے ایک
سالگرہ کی تقریب میں لے گئی۔وہاں صرف وہ آدھے گھنٹے تک رہا۔لیکن اس آدھے
گھنٹے میں اس نے ہال میں موجود تمام افراد کی توجہ اپنی جانب مبذول
کروالی۔وہ کسی سے نہیں ڈرتا ۔وہ جو چاہتا ہے لے لیتا ہے۔وہ رونا نہیں جانتا
لیکن دوسروں کو رلانا اسے اچھے سے آتا ہے۔وہ بچوں کو مارے گا، انھیں دھکے
دے گا اور جہاں جانا چاہے چلاجائے گا۔ وہ ایک منٹ بھی خاموش نہیں رہتا۔
ہمیشہ پرزور اور پر جوش رہتا ہے۔ہم نہیں جانتے کہ اس کے ساتھ کیسے پیش
آئیں؟وہ گلوگیر آواز میں بات کررہاتھا اور گہر ے افسوس میں ڈوبا ہواتھا۔
پرمغموم لہجے میں کہنے لگا ’’اگر گھر میں اس کی مرضی کے خلاف کچھ ہوجائے تو
جو بھی چیز اس کے ہاتھ آئے اٹھاکر پھینک دیتاہے۔ہماری اورپڑوس کی عمارت کی
مشترکہ کمپاؤنڈ وال ہے۔دیکھ ریکھ کے لیے ایک چوکیدار بھی ہے ۔ اس کا اب ایک
ہی کام ہے کہ ہمارے بیٹے کی پھینکی ہوئی چیزوں کو واپس لاکر دیتا رہے۔ایک
بار تو اس نے حد ہی کردی، ایک وزنی گملہ اٹھا کر پھینک دیا جو پڑوسی کے کار
کے شیشے پر گرا جس سے شیشہ پورا ٹو ٹ گیا۔ مجھے اس کی قیمت چکانی پڑی۔اب آپ
ہی بتائیے میں کیا کرو؟ اس پریشان شخص کے سوال کا جواب اگر آپ کے پاس ہے
تویقینا آپ بچوں کی نفسیات سے واقف ہیں۔
بچوں کی توانائی کو والدین درست سمت فراہم کریں
توانائی کو سمت دینا
مذکورہ بچے کا مسئلہ درحقیقت اس کے پاس موجود وہ وافر توانائی ہے جس کا
استعمال نہیں ہوتا۔ اس توانائی کو درست سمت دینا بہت ضروری ہے۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا وہ کہنے لگے’’ وہ رات گیارہ بجے سے پہلے نہیں
سوتا۔ تب تک ہماری عمارت میں اودھم مچا رہتاہے۔ ہمارے نیچی کی منزل پر رہنے
والے لوگ اس کی اچھل کود سے پریشان رہتے ہیں، اور ہمارا بیٹاایسا ہے کہ
اچھل کود سے باز نہیں آتا۔ جب وہ سوتا ہے تو ہماری پوری بلڈنگ سکون کا سانس
لیتی ہے۔ میرے خیال میں یہ بہت ذہین ہے اور اس کی ذہانتہی ہماری پریشانی کا
باعث ہے۔ اس پر قابو پانے کا کوئی حل ہو تو بتائیے‘‘۔ وہ بڑبڑا نے لگے’’
ذہانت بہتربنانے کو چھوڑیئے اسے بعد میں دیکھ لیں گے‘‘۔ ان کی بڑبڑاہٹ کو
میں نے سن لیا۔
جب وہ کسی قدر بحال ہوئے تو میں نے انہیں ایک ایکشن پلان دیا اور کہا کہ اس
پر سختی سے نافذ کریں۔ ایسے بچوں کے لیے سب سے پہلا ایکشن پلان انہیں اپنی
توانائی کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔منصوبے
کو نافذ کرنے کی ذمہ داری بچے کے دادا نے اپنے ذمے لی۔ داداجی اسکول سے
واپس آنے کے بعدروزانہ اپنے پوتے کوپارک لے جانے لگے۔ دادا نے بچے کے لیے
ایک خاص سائیکل ،بلہ (کرکٹ بیاٹ)،گیند(بال) خریدی جسے وہ روزانہ بچے کو باغ
لے جاتے وقت ساتھ لے جاتے تھے۔
اب دادا کا روزانہ شام ساڑھے پانچ سے ساڑھے آٹھ بجے تک ایک ہی کام تھا کہ
بچے کو تین گھنٹے تک باغ سے باہر نہ جانے دیں۔بہرحال لڑکا باغ میں مصروف
ہوگیا۔ وہ بھاگتا دوڑتا اور سائیکل چلاتا ۔جھولا جھولتا،اچھل کود کرتا
رہتا۔ دو تین دن تک اس نے باغ میں موجود دوسرے بچوں کو تنگ کیا۔ لیکن اس کے
بعد سب ٹھیک ہونے لگا ۔
دادا پوتے کوتھکا دینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ بہت بھاگ دوڑ ،کھیل کود اور
سائیکل چلانے کے بعد بچہ آٹھ بجے گھر واپسی کا انتظار کرنے لگتا۔ وہ تھک
ہوا ہوتا پھر بھی بھی دادا کہتے تھے ایک چکر اور لگاؤپھر گھر چلیں گے۔ مزید
چار چکر لگاؤ، پھر ہم گھر جائیں گے۔
لڑکا گھر آتا ، کھانا کھاتا اور ر کھانا کھاتے ہی فوراًسو جاتا۔اب روزانہ
بچہ رات کے کھانے کے بعد فوری سو جانے لگا۔ چند دن بعد بچے کے والد نے مجھے
ان کے گھر پر بلایا اور کہا کہ اب ہماری شامیں پہلے سے بہت بہتر ہوگئی ہیں۔
لیکن بچہ بہت زیادہ تھک جارہا ہے اور زیادہ سورہا ہے۔اب ہمیں کیا کرنا
چاہیے؟۔
میں نے کہا’’اس معمول کومزید چند دن جاری رکھیں‘‘۔بچوں میں بہت زیادہ
توانائی ہوتی ہے جو استعمال نہیں ہوتی۔ اس توانائی کو ہمیں ایک صحیح رخ(
سمت )دینے کی ضرورت ہے۔
ہیری (Harry)میرا ہیرو
اب ماں نے بچے کی ذہن سازی کا پروگرام شروع کیا۔ والدین ،دادا، دادی اب
عاجزی ، انکساری ،اوردیگر عمدہ اخلاق واعلیٰ اقدار کو بچے کے ذہن میں
بٹھانے میں لگ گئے ۔ وہ بچے کو عاجزی ،شائستگی اور تمیز و تہذیب سے پیش آنے
کے فائدے بتاتے ۔
ہیری پوٹر بچے کا پسندیدہ ہیرو تھا۔
ماں بچے کو ہیری پوٹر فلم کے ایسے منتخب مناظر دکھاتی جس میں ہیری پوٹر
شائستہ برتاؤکرتا ہے۔ ماں بچے سے کہتی کہ’’ تم ہیری پوٹر ہو یا پھر مال
فوائے(Malfoy) کی طرح ایک برے لڑکے ؟
پھرماں اور بیٹے نے کچھ اصول بنائے تاکہ بچے میں ہیری پوٹر کی طرح عاجزی
پیدا ہو جائے۔ بڑوں کو سلام کرنا، انہیں بیٹھنے جگہ دینا، جب وہ جانے لگیں
توخدا حافظ کہنا، نرمی سے بات کرنا، کسی پر نہ گرنا،کودنا وغیرہ۔ اصول آسان
اور سادہ تھے۔ لیکن بچہ تقریباً ہر روزکوئی نہ کوئی اصول توڑدیتا۔
ماں بچے سے پوچھتی ہے کہ بتاؤ آج تم نے کون سا اصول توڑا؟ بیٹا مسکراتا اور
بتاتا کہ اس نے کون سے اصول توڑے ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ اس بچے کو آہستہ
آہستہ اب سب پسند کرنے لگے تھے اور وہ سب کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔
جوبچے ہائپر ایکٹیو ہوتے ہیں ان میں زبردست توانائی ہوتی ہے لیکن والدین
درست سمت دینے کے بجائے ان کی پٹائی کرتے ہیں یا گھر سے باہر نہیں نکالتے
یا پھر انھیں ایک ہی جگہ پر رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
مجھے یاد ہے، جب میں چھوٹا تھا، ہمارے پاس خرگوش تھے۔جنہیں اکثر بند کرکے
رکھا جاتاتھا۔ جب کبھی انہیں چند منٹوں کے لیے چھوڑا جاتا وہ گھر میں تیزی
سے اچھلتے ،کودتے ، بھاگتے اور ایسے کرنے سے وہ خود کو روک نہیں پاتے تھے۔
وہ کبھی دیوار سے تو کبھی کسی چیزسے ٹکراتے رہتے تھے۔ کئی بار ہمارے بچے
بھی اسی کیفیت سے گزرتے ہیں۔ہمیں غور کرنا چاہیے۔
اگر بچے پورا دن ایک جگہ پر بندھے رہیں اور پھر انھیں اپنے اردگردکھلی جگہ
اور بہت سے لوگ نظر آئیں اور وہ اپنی توانائی کو ظاہر کرنے لگیں تو بھلا اس
میں کیا حرج ہے؟
ہمیں ان کی توانائی کو صحیح سمت (رخ)دینا چاہیے۔ مذکورہ صورت حال اور
تبدیلی میں سب سے اہم جو بات تھی وہ ماں کی جانب سے اپنے پانچ سالہ بیٹے کی
برین ٹیوننگ(ذہن سازی) تھی۔بچے کی ماں بھی اب خوش تھی کہ اس کا بچہ تبدیل
ہوچکا تھا اور وہ پرورش و تربیت اولاد کا کا صحیح طریقہ جان چکی تھی۔
محرکہ(Motivation) کیا ہے؟
ہر بچے کسی نہ کسی شئے سے تحریک ا ور حوصلہ پاتا ہے۔ بچے چاہتے ہیں کہ
ہرکوئی ان سے اچھا برتاؤ کریں۔ بچے اپنے تجربات سے سیکھتے ہیں جب لوگ ان کی
تعریف کرتے ہیں یا نہیں کرتے تب وہ اپنی توانائی کو تحریک کے مطابق سمت
دینا شروع کر دیتے ہیں۔
کئی بار، جنہیں ہم ہائپر ایکٹیو بچے کہتے ہیں، وہ دوسروں کو اپنی صلاحیتیں
دکھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن ہم ان کی سرگرمیوں کی تعریف و توصیف
کرنے کے بجائے انھیں ڈانٹتے ہیں، چپ کرادیتے ہیں یا پھر انہیں نظر انداز
کردیتے ہیں۔بچوں کی توانائی کو درست سمت پر لگانا والدین ،اساتذہ و دیگر
افراد خانہ کی ذمہ داری ہے۔ بچوں کو مختلف جگہوں پر لے جائیں انھیں مثبت
انداز میں مصروف رکھیں۔ بچے اپنی توانائی کو درست کیسے استعمال کریں اس کے
بارے میں تربیت اطفال سے جڑے تمام افراد بالخصوص والدین کو سنجیدگی سے غور
کرنا چاہیے۔
’’ہائی پر ایکٹیو ‘‘ بچوں کی توانائی کو کیسے درست سمت دی جائے
ہائپر ایکٹیو (Hyper Active)بچوں کا ٹائم ٹیبل
احقر یہاں ایک ٹائم ٹیبل (نظام الاوقات) آپ کے سامنے پیش کررہاہے جو ہائپر
ایکٹو بچوں کے برتاؤ کو بہتر بنانے میں ان شاء اﷲ معاون ثابت ہوگا۔
یہ منظم نظام العمل ہائی پر ایکٹیو بچے کی تبدیلی میں بہت سود مند ثابت
ہواہے۔بچے کے دادعلی الصبح 4 بجے بیدار ہوجا تے۔ 5:30بجے چہل قدمی کے لیے
باہر نکلتے اوراکثر اپنے پوتے کو بھی ساتھ لے جاتے۔ باہر جاتے وقت اپنے
پالتو کتے کو بھی ساتھ رکھتے۔ کتے کا پٹا بچے کے ہاتھ میں تھاما دیتے۔کتے
کی دیکھ بھال کرنا اب بچے کی ذمہ داری تھی۔ بچہ کتے کو بہت مشکلوں سے
سنبھال پاتا۔اسے سنبھالتے ہوئے بچہ جب تھک جاتا تو دادا پوتے سے کہتے ہیں
’’ دیکھو تم کتے کی وجہ سے تھک گئے ہو، اسی طرح تم بھی اپنی شرارتوں سے
دوسروں کو تھکا دیتے ہوـ‘‘۔
دادا پھر اسے پیراکی کے لیے لے جاتے ۔بچہ پیراکی کرتا اور دیڑھ گھنٹے تک
سوئمنگ پول سے باہر نہیں آتا۔ لگاتار اصرار کرنے پر سوئمنگ پول سے باہر
نکلتا۔ وہ اپنی سائیکل پر سوئمنگ پول تک جاتا۔ گھر میں اصول بنایا گیا کہ
گھر کا کوئی بھی فردبچے کے ذاتی کاموں میں اس کی مددنہیں کرئے گا۔ اپنے
اسکول کا بستہ(Bag)اسے خود ترتیب دینا تھا۔ کئی بار، وہ اسکول بیاگ میں
ضروری اشیاء نہ رکھ کر چلا جاتا جس کی وجہ سے اسکول سے بارہا شکایتیں موصول
ہوئیں۔اس کے باوجود والدین اسکول کی کتابیں اور نوٹ بکس بیاگ میں رکھنے میں
اس کی مدد نہیں کرتے ۔ آخرکار ایک دن بچہ خود ا سکول جانے سے پہلے اپنے
بستے کو ترتیب دینے لگا اور اس کے بعدسے وہ لگاتار اس عادت پر کاربند ہے۔
بچہ اب اسکول جانے کے جوش میں اپنے سب کام خوشی خوشی کرنے لگاہے۔ سائیکل
چلانے، پیراکی اور صبح کی سیر اور دیگر سرگرمیوں کی وجہ سے لڑکے کی انتہائی
سرگرمی(ہائی پر ایکیٹویٹی) چند دنوں میں ختم ہو گئی۔
اگراساتذہ طلبہ کو پڑھاناچاہتے ہیں تو پہلے انھیں سمجھناچاہیے۔ والدین بھی
اگر اپنے بچوں کی پرورش کرنا چاہتے ہیں تو پہلے انہیں اپنے بچوں کو سمجھنا
ضروری ہے۔ ایک جملہ میرے ذہن پر بچپن میں ہی نقش ہوگیا تھا ۔''اگر آپ عمران
کو ریاضی پڑھانا چاہتے ہیں تو آپ کو تین باتوں کا علم ہونا ضروری ہے‘‘۔
1. سب سے پہلے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ عمران کیسا ہے۔
2. اس کے بعد ریاضی پڑھانے کے لیے آپ کو ریاضی کا علم ہونا چاہیے اورپھر
3. آپ کو ریاضی پڑھانے کے طریقے بھی آنا چاہیے۔
سب سے پہلی اوراہم بات عمران کو سمجھنا ہے۔کسی بھی بچے کو سمجھنے کے لیے دو
چیزیں ضروری ہیں۔ پہلے یہ معلوم کریں کہ اس کا دماغ کیسے کام کرتا ہے
اوردوسرا، اس کاذہن ۔
یہ اصول بچوں کے ساتھ ہی نہیں جب آپ بڑوں کے ساتھ کام کررہے ہوں اس وقت بھی
یہ اصول کارگر ثابت ہوتا ہے۔ہمیں مندرجہ ذیل تین چیزوں پر توجہ مرکوز کرنی
چاہیے۔
1۔معلوم کریں کہ شخص کی پسند اور ناپسند کیا ہے۔
2 ۔جب کوئی شخص کچھ کام کررہاہو تو اس کے پیچھے کارفرما محرکے کو معلوم
کریں۔
3 ۔ کام کے ساتھ فرد کے جذباتی لگاؤکابھی پتہ لگائیں۔
جذباتی لگاؤ سے مراد جب ہم کوئی کام انجام دیتے ہیں تو اس سے ہمیں خوشی
حاصل ہوتی ہے یا پھر مایوسی۔
ہم ان چیزوں سے دور رہنا پسند کرتے ہیں جن سے ہمیں خوشی نہیں ملتی جو ہمیں
پریشان کرتی ہیں اور تکلیف دیتی ہیں۔ ہم ان چیزوں کو بار بار کرتے ہیں جن
سے ہمیں خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اگر ہر ہم اس سادہ سی ترغیب کو سمجھ لے تو بہت
سے کام بچے خود ہی کرنا شروع کر دیں گے۔
اگرہم یہ سمجھ لیں کہ بچہ کسی خاص کام میں خوشی کیوں محسوس کررہا ہے تو یہ
نکتہ ہمیں عمران کو سمجھنے میں مدد فراہم کرے گا۔
یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہمارا دماغ کیسے کام کرتا ہے۔ بچے کو سمجھنے کا
مطلب یہ سمجھنا ہے کہ بچے کا دماغ کیسے کام کرتا ہے۔ دماغ دو طریقوں سے کام
کرتا ہے۔ بایاں دماغ مختلف طریقے سے کام کرتا ہے اور دایاں دماغ مختلف
طریقے سے ۔
بچوں کو وقت دیں
بچوں کی ذہنی نشوونما کے لیے سب سے پہلے ہمیں انہیں معیاری وقت دینا چاہیے۔
جب ہم بچوں کو وقت دیتے ہیں تب ہی ہم ان کو سمجھ پائیں گے۔ اکثر والدین
اپنے بچوں کو وقت دینے کے حقیقی مفہوم سے بھی واقف نہیں ہیں۔
ایک پروگرام میں مجھ سے ایک ماں نے سوال کیا ’’ ہم اپنے بچوں کو وقت تودیتے
ہیں، ہم ہر وقت ان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ کیایہ وقت دینا نہیں ہے؟
لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ صرف بچوں کے ساتھ رہنا انہیں وقت دینا نہیں
ہے؟
میں نے ماں سے سوال کیا بتاؤ ’’دنیائیں‘‘کتنی ہیں؟
خاتون کو سوال سمجھ میں نہیں آیا۔ اس نے کہا ’’کتنی دنیاؤں سے آپ کا کیا
مطلب ہے؟‘‘
’’جی ہاں میرا یہی مطلب ہے کہ کتنی دنیائیں ہیں؟ یعنی ایک دنیا ہے، دو
ہے،تین چار،پانچ ،چھ۔۔۔۔‘‘ میں نے جواب دیا
’’دنیا ایک ہی ہے‘‘۔خاتون نے فوراًجواب دیا۔
ہال میں باقی تمام افراد کا بھی یہی جواب تھا۔
میں نے خاتون سے پھرپوچھا ذرا سوچ کر بتائیے کہ ، کیا دنیاایک ہی ہے؟ کیا
آپ کے ذہن میں وہی دنیا ہے جو دوسری خاتون کے ذہن میں موجود ہے؟
اس کا کیا مطلب ہے؟
یہ سوال غور طلب ہے۔ اس دنیا میں ہر ایک کے سوچنے کا طریقہ الگ الگ ہے۔ ہر
کوئی اپنی دنیا اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے اور جس لمحے آپ کو اپنی دنیا میں
داخل ہونے کا موقع ملتا ہے آپ فوراً اس میں داخل ہو جاتے ہیں۔
بچوں کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان کی دنیا میں داخل ہونا ضروری ہے
اگر ایک ہال میں چار سو پانچ سو افراد بیٹھے ہیں تو یہاں چار سو پانچ سو
دنیائیں بھی موجود ہیں۔
میں نے والدین سے پوچھا، فرض کیجیے، اس ہال میں پانچ سو لوگ ہیں۔ کیا آپ
کہہ سکتے ہیں کہ اس ہال میں ہماری پانچ سو دنیائیں ہیں؟ کیونکہ ہر ایک کی
اپنی ایک الگ دنیاہے۔ اگرمیں چند لمحوں کے لیے توقف کروں تو ہر ایک اپنی
دنیا میں داخل ہو جائے گا۔ ایک عورت سوچنے لگے گی کہ ''جب میں گھر جاؤں گی
تو مجھے کھانا پکانا ہے'' کوئی سوچے گا کہ مجھے آفس جانا ہے، مجھے کسی کو
بلانا ہے وغیرہ وغیرہ موقع ملتے ہی ہم اپنی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔
اتنی ہی دنیائیں آباد ہیں جتنی تعداد میں اس دنیا میں لوگوں موجود ہیں۔ کیا
آپ اس بیان سے اتفاق کرتے ہیں؟ وہاں پر موجود سبھی افراد نے مجھ سے اتفاق
کیا۔
جس طرح ہم اپنی دنیا اپنے ذہن میں لیے پھرتے ہیں اسی طرح بچوں کی بھی اپنی
دنیا ہوتی ہے، کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں؟ سب نے فوراً اس پر بھی
اتفاق کیا۔ اور جب ہم بچوں سے بات کرتے ہیں تو کیا ہم اپنی دنیا میں رہ کر
ان سے بات کرتے ہیں یا پھر ان کی دنیا میں جاکر ان سے مخاطب ہوتے ہیں؟
ننانوے(99) فیصد موقعوں پر ہم بچوں سے اپنی دنیا میں رہ کر ہی بات کرتے
ہیں۔ جب ہم اپنے نقطہ نظر سے بات کر رہے ہوں تو پھر بچوں سے ان کی دنیا کے
بارے میں سوالات پوچھنے کے امکانات بہت کم پائے جائیں گے۔ اگر آپ بچوں کو
وقت دینا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کو ان کی دنیا میں داخل ہونا پڑے گا
اور پھرجب آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ انہیں وقت دے رہے ہیں۔
ہم نے پرورش و تربیت اولادکے بارے میں بہت کچھ پڑھا ہے ۔ بچوں کو وقت دینے
کا مطلب ہے کہ بچوں کے جوتوں میں اپنا پاؤں ڈالنا۔چیزوں کو بچوں کے نقطہ
نظر سے دیکھنا تربیت و پرورش اطفال کا سنہرا اصول ہے۔ |