یہ شاید ہمارا آخری کالم ہو جس کہ بعد بیکار باتوں کا
کرنا تھم کر ہی رہ جائے۔ اور پھر اگر ایسی باتیں ہم سے نہ ہوسکیں تو کالم
بھی بند ہو جائے گا اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی گرد چڑھ جائے گی کہ اب
تک تو یہی سب کچھ تھا جو دے پائے ہیں۔ آسمانوں سے خوب دعائیں ہیں کہ اب جب
بھی دوبارہ کالم لکھیں گے تو وہ واقعی کالم لگے اور پڑھنے والوں کو کچھ نفع
بھی دے سکے۔ اپنے جذبات بیان کروں تو سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر جانے سے تو اب
گھن سی آنے لگی ہے کہ کام کی چیزوں کا حصہ وہاں اتنا ہی ہے جتنا نمک کا آٹے
میں ہوتا ہے۔ عجیب تماشا ہے جو وہاں ہورہا ہوتا ہے اور ہم اسکے تماشائی
ہوتے ہیں جنہیں اب (Consumer) کے لفظ سے بھی تعبیر کیا جانے لگا ہے۔ عجیب
بات نہیں ہے کہ وقت بھی ہمارا ضائع ہورہا ہے اور صارفین بھی ہم ہی ہیں یعنی
اپنے دشمن آپ! یقین جانیں اگر ہم 'مضبوط' ہوتے تو زندگی میں مقصد یہی
معروضی حالات کے نت نئے چیلنجر کے بارے جاننا، سمجھنا، ان پر تحقیق کرنا
ہوتا۔ لیکن کیسے چیلنجز؟ سوشل میڈیا کا استعمال اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے
انسان کو ڈیجیٹل سطح پر جکڑے رکھنا، موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ،
دنیا کی بڑھتی آبادی اور وسائل کی کمی، پاپولزم کا نام نہاد ٹرینڈ، انسانی
نفسیات کی باریکیاں وغیرہ وغیرہ! یہ اور بہت کچھ اب آگے دیکھیے کرتے کیا
ہیں ہمارے ساتھ! ویسے لکھا ہے کہ مضبوط ہوتے یعنی شعور و عقل کے زینے بھی
چڑھ پاتے تو کچن کیسے چلے گا جیسے سوال سے بھی نجات پائی ہوتی لیکن سچ عرض
کریں مگر نہیں کرتے کہ اسے عرض کرتے کرتے جو اکثر دل میں ہمیں 'درد' اٹھتے
ہیں اور دماغ بھی انکے فوراً ابلاغ کا مشورہ دیتا ہے کسی بھلے انسان کی
بدولت ہم اب یہ بیکار عادت بڑی حد تک ختم کرنے جارہے ہیں کہ جو کچھ بھی
اپنے بارے انٹ شنٹ سمجھ آئے کالم میں لکھ دیا جائے یا پھر سوشل میڈیا پر
چڑھا دیا جائے۔ اس لایعنی روایت کو توڑنے کی تلقین کے پیچھے شاید حکمت کا
فلسفہ کارفرما ہو البتہ ویسے اس بھلے انسان نے ہمیں اور بھی بہت کچھ بتایا
اور سکھایا ہے جسے اب واقعتاً ہماری عملی زندگی کا حصہ بننا چاہیے کہ ان
نقائص کے ساتھ آگے سرائیت نہیں ہوسکتی۔ ہم نے اپنی پریکٹیکل لائف میں اس
حکمت کے بنیادی فلسفے کو کامیابی حاصل کرنے کا واحد ایک نسخہ جانا ہے۔ مگر
سچ بتائیں تو کامیابی کے حصول کے لئے ہمارے اندر کبھی بھی فطری رجحان سرے
سے پیدا ہی نہیں ہوتا جو کے ہمارے لئے خود ایک عجب تجربہ ہے۔ پچھلے کچھ
برسوں میں ایسی بیشتر مثالیں ہیں جس سے ٹھیک طرح پتا چل سکتا ہے کہ جب
ہمارے ارد گرد بشر آسودگی و کامرانی کا جام پینے کے لئے انتہاء درجے کا
متحرک ہوتا تھا اور اب بھی ہوتا ہے تو ہم اسوقت سارے سسٹم سے دور کھڑے
تماشہ دیکھ رہے ہوتے تھے۔ سنجیدگی جو کچھ ہوتی بھی ہے چہرے سے چھلکے تو کچھ
خبر نہیں مگر اندر سے بے پرواہ ہوئے بیٹھے ہوتے ہیں۔ احساسِ ذمہ داری ناپید
ہے اور موقع کی نزاکت کو سمجھنے کو ہم یوں ٹالتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں
کہ اب اسکی یہاں کیا ہی مثالیں دیں؟ یہ دنیا کی ساری کاہش کسی سطح پر بھی
کوئی منفی پہلو نہیں رکھتی مگر اپنا ہم کیا بتائیں کہ کبھی کبھار ہمیں خود
سمجھ نہیں آتا کہ آخر صحیح وقت آنے پر ہمارا حوصلہ کس کال کوٹھری میں جاکر
خود کو بند کرلیتا ہے کہ ہم بس پھر یوں ہی بہاؤ میں بہہ جاتے ہیں۔ حماقتیں
جو ہم سے ہوئی ہیں وہ یہاں لکھنا تو اب اس چالیس دنوں سے اوپر کے (Thought
Process) کے بعد ایک چھوٹی سطح کی فضول سی حرکت لگتی ہے۔ اور تو اور اس
ساری غیر یقینی کی صورتحال میں خود کو فرط جذبات میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں
کہ واحد شخص ہونگے جو یہ بھی جانتا ہو کہ آخر کیا ایسی 'خصوصیات' ہیں جن کے
باعث ایسی خطائیں ہم سے سرزد ہوکر ہی رہتی ہیں لیکن سچ عرض کریں تو انہی
خصوصیات کی بدولت ہم یہاں پہنچے ہیں۔ اب ان سے دوری ہی ہمارے لئے "دنیا و
آخرت" دونوں میں کچھ آسانی کا باعث بن سکتی ہے۔ ویسے یہ البتہ ایک لمبا باب
ہے جس پر بات کرنا اب سرے سے مقصود ہی نہیں رہا تو یہاں کیا اس کے تار
چھیڑے جائیں۔ اب جو بھی ہے، جیسا بھی ہے اور جس طرح کا بھی ہے ہمیں سامنا
کرنا ہے اور ڈٹ کے سامنا کرنا ہے ورنہ تو پھر جو حالات ہم دیکھ رہے ہیں وہ
ہماری آرزؤں سے کسی درجے میں مطابقت نہیں رکھتے!
اس مسافت کے بعد تو اب ہم یہی جان پائے ہیں کہ اس قلیل عمر کا ایک فیز اب
مکمل ہوا چاہتا ہے جس کو مختصراً اگر کچھ لفظوں میں سمائیں تو بس اتنا کہ
اس سارے عرصے میں ہمارے لئے بے پناہ بیداری کا سامان لدا ہوا تھا۔ یہ کالم
تو اپنی جگہ مگر کوئی درجن کے قریب کالموں کا پیٹ انہی سوالوں کے جوابات
دیتے دیتے بھرا جاسکتا ہے کہ اس سارے وقت میں کیا کیا ہوا؟ کیوں ہوا اور کب
ہوا؟ کیسے ہوا یا کیسے ہوگیا؟ لیکن جیسے ابتدائیے میں عرض کیا کہ یہ اب
لایعنی ایکسرسائز ہے لہذا ان سب سوالوں کے جوابات تحریر کرنا ضروری نہیں!
نہ ہمارے لئے اور نہ ہمارے پڑھنے والوں کے لئے! جب وقت کے بہاؤ میں بہہ رہے
تھے تو انہی صفحات پر ہم نے ان کے بارے لکھا تھا مگر اب وہ سب دل کو کسی
طور نہیں بھاتا۔ ساتھ ہم اب نہ پرانے وقتوں میں سامنے آنے والے مسائل،
شخصیات اور معاملات کو یہاں لکھنے کے متمنی ٹھرے ہیں نہ انکے بارے کوئی سوچ
یا خدشہ پالنے کے! خواہش ہے کہ کالم اب کچھ جاندار ہونا چاہیے لہذا یہ
بیجان ماضی کو یہاں بیان کیوں ہی کیا جائے اور تجربات کو اب کیوں نہ صحیح
معنوں میں زندگی کا حصہ بنائیں اور ان سے سیکھتے ہوئے ہم کچھ اپنے اندر
حرکت پیدا کرلیں۔ یہ شاید اب سب کچھ ہم اسی طرح ہی دیکھ سکتے ہیں کہ جب
تھامس ایڈیسن کئی دفعہ روشنی کے آلے کی ایجاد میں ناکام ہوتے رہے تو
معاملاتِ دل کو آگے لاکر جذباتی نہ ہوئے بلکہ یہ بہترین بات کہی کہ اتنی
دفعہ ناکامی کے بعد کم از کم یہ تو پتا چل چکا ہے کہ ان سارے رستوں سے تو
کامیابی کا حصول نہیں ہونا لہذا چلتے رہنا چاہیے کہ شاید کسی مرتبہ میں
روشنی کا دیا جل ہی اٹھے اور چونکہ انکے ہاں کامل یقین تھا تو پھر ایسا
ہوکر بھی رہا جس کا نتیجہ آج روشن دنیا کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ یوں ہم
کو بھی یقیں کی راہ پر چلتے ہی رہنا چاہیے کہ شاید کسی دن منزلیں ہمیں پناہ
دینے پر آمادہ ہو ہی جائیں۔
|