ایک وقت تھا جب لوگ کم پڑھے لکھے تھے، مگر دل کے امیر تھے۔
ان کے الفاظ میں مٹھاس اور اعمال میں خلوص تھا۔ رشتے ناطے محبت اور سچائی
کی بنیاد پر قائم تھے۔ لوگ دوسروں کے دکھ درد کو اپنا سمجھتے تھے۔ محلے دار
ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے تھے۔ کسی کے گھر خوشی ہو تو سب شریک ہوتے، کوئی
غمزدہ ہوتا تو سب اس کا سہارا بن جاتے۔ انا، بغض اور خود غرضی جیسے الفاظ
کم ہی سننے کو ملتے تھے۔ زندگی سادہ تھی مگر دل سکون سے بھرے ہوتے تھے۔
آج کا زمانہ ترقی یافتہ ہے۔ تعلیم عام ہوچکی ہے۔ لوگوں کے پاس جدید سہولیات
اور دنیا بھر کا علم ہے، مگر خالص پن ختم ہوتا جارہا ہے۔ رشتے اب محبت کے
بجائے مطلب اور مفاد کے گرد گھومتے ہیں۔ دوستی بھی غرض سے مشروط ہوچکی ہے۔
لوگ بظاہر ہنستے مسکراتے نظر آتے ہیں، مگر دل میں خود غرضی اور حسد کے
کانٹے چھپے ہوتے ہیں۔ پڑوسی بھی اجنبی لگتے ہیں۔ مصروف زندگی نے دلوں کے
فاصلے بڑھا دیے ہیں۔
اس مادہ پرستی کے دور میں انسان نے سکون کھو دیا ہے۔ ذہنی دباؤ بڑھ گیا ہے،
مگر دل کی خوشی کہیں کھو گئی ہے۔ وہ رشتوں کی مٹھاس، وہ بے غرض محبت، وہ
سادگی کا حسن—سب ماضی کی کہانی بن گئے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں دوبارہ سادگی اور خلوص کو جگہ
دیں۔ رشتوں میں مطلب پرستی کے بجائے سچائی اور محبت کو فوقیت دیں۔ زندگی کی
تیز رفتاری میں کچھ لمحے رک کر اپنوں کے لیے جینا سیکھیں۔ شاید تبھی ہم
دوبارہ اس سنہرے دور کی جھلک پا سکیں گے، جہاں رشتے خالص اور دل مخلص تھے۔
|