بلوچستان! پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو44فیصد رقبے پر
مشتمل ہے اور بے پناہ قدرتی وسائل،اسٹریٹجک محل وقوع اور وسیع اقتصادی
مواقعوں سے مالا مال ہے۔گوادر پورٹ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)کی
وجہ سے یہ عالمی تجارتی مرکزکا روپ دھار چکا ہے۔بلوچستان کے قدرتی وسائل جن
میں ریکوڈک کاپر گولڈ مائن،کرومائیٹ،سنگ مرمر اور قدرتی گیس کے وسیع ذخائز
شامل ہیں جو عالمی سرمایہ کاروں کے لیے بے مثال مواقع فراہم کرتے ہیں۔زراعت
اور ماہی گیری کے شعبے بھی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش ہیں،یہاں اعلیٰ معیار
کی کجھور،سیب،انار اور انگور کی پیداوار ہوتی ہے جبکہ ساحلی علاقوں میں
ماہی گیری اور آبی زراعت کے شعبے سرمایہ کاروں کے لیے وسیع روشن امکانات
ہیں۔اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگلے 10سے 12سال میں بلوچستان پاکستان
کا سب سے امیر صوبہ ہوگا۔بلوچستان میں اس وقت تابنے کے ذخائر نکالنے پر کام
جاری ہے۔چینی کمپنیاں یہاں مزید سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں جبکہ
متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے بھی قدرتی ذخائر (ریکوڈک)پر سرمایہ کاری
میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے،جو کہ نہایت خوش آئند بات ہے۔ریکوڈک میں
کاپر اور گولڈ کے ذخائر کھربوں ڈالر میں ہیں جو پورے پاکستان خصوصاً
بلوچستان کے لیے گیم چینجرثابت ہونگے اور انٹرنیشنل پارٹنرز کی وجہ سے یہاں
مہارت پیدا ہوگی اور بلوچستان خود مائننگ کے قابل ہوجائے گا۔ریکوڈک منصوبہ
پر کام کرنے والی کمپنی بیرک گولڈ کارپوریشن کے سی ای او مارک برسٹو
پاکستان میں سو فیصد خوش ہیں،ریکوڈک جیسی بڑی مائنز ترقی کے حوالے سے
بلوچستان کا چہرہ بدل دیں گی۔ابتدائی فزیبلٹی اسٹڈی کے مطابق مائن کی لائف
36سا ل ہے اور تخمینہ یہ ہے کہ اس سے70سے80ارب ڈالر حاصل ہونگے۔بلاشبہ یہ
منصوبہ پاکستان کو قرضوں سے نجات دلائے گا۔اس سے پاکستان کا سرمایہ کاری
امیج مزید بہتر ہوگا،ریکوڈک ممکنہ طور پر دنیا کی سب سے بڑی سونے اور تانبے
کی کان ہوگی۔بلوچستان کی ترقی کے لیے ویژن بلوچستان 2030کے تحت صوبے میں
ترقی کا سفر تیزی سے جاری ہے۔خوشحال بلوچستان کے اس پروگرام کے تحت صوبہ
بھر میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھایا گیا ہے جس کا مقصد مستحکم بلوچستان
ہے۔صوبے میں جاری منصوبوں کے تحت کمیونیکیشن،انفراسٹرکچر،ڈیموں کی
تعمیر،پانی کی قلت دور کرنے سمیت دیگر منصوبوں پر کام جاری ہے۔خضدار
تاکچلاک قومی شاہراہ کے دورویہ منصوبے پر کام جاری ہے،اسی طرح خطے میں
مستقل تجارتی مرکز کے طور پر جاننے کے حوالے سے گوادر کا اہم کردار ہے۔جہاں
برآمدات اور درآمدات سے دیگر ملکوں میں تجارتی تعلق کو فروغ حاصل ہوگا۔آنے
والے وقتوں میں سینٹرل ایشیائی ممالک کے باہمی روابط گوادرپورٹ تجارت سے
مزید مستحکم ہوں گے۔سی پیک کا پہلامرحلہ مکمل ہونے کے بعد دوسرے مرحلے پر
کام جاری ہے،وسیع وعریض رقبے پر قائم صوبہ بلوچستان میں بہت سے منصوبہ جات
کے قیام اور ان کی تکمیل کے لیے گنجائش ہے،جیساکہ گوادر ائیر پورٹ کا
ورچوئل افتتاح کیا گیا ہے،یہ بین الاقوامی معیار کی تمام تر سہولیات سے
آراستہ انٹرنیشنل ائیر پورٹ ہے۔جہاں پہلی فلائیٹ لینڈ ہوئی جو بہت بڑا سنگ
میل ہے۔واضح رہے کہ گوادر انٹر نیشنل ائیر پورٹ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا
سب سے بڑا صوبہ ہے جو430ایکڑپر مشتمل ہے،یہ چار لاکھ مسافروں کی سالانہ
گنجائش رکھتا ہے،جسے آئندہ برسوں میں 16لاکھ مسافروں تک پہنچایا جائے
گا۔نیوگوادر ائیر پورٹ کا ایک ہی رن وے 3658میٹر طویل اور 75میٹر چوڑا
ہے،اس ائیر پورٹ پر ائیر بس اے 380اور بوئنگ 747جیسے بڑے طیارے لینڈ کرسکیں
گے۔گوادر انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے فعال ہونے سے تجارت اور سیاحت کی نئی
راہیں کھلیں گی جو ملکی معیشت کے لیے خوش آئند ہے۔ائیر پورٹ کی تکمیل سے
گوادر بندرگاہ کی فعالیت بھی موثر ہوجائے گی۔محل وقوع کے لحاظ سے گوادر
پورٹ خاصا اہم ہے کیونکہ یہ گرم سمندری پانی کے علاقے میں واقع ہے،دنیا کی
بہت کم بندر گاہوں کو یہ سہولت حاصل ہوتی ہے۔گرم پانی والی بندر گاہ سارا
سال تجارتی جہازوں کی آمد ورفت کے لیے فعال رہ سکتی ہے،ٹھنڈے پانی کی بندر
گاہوں کے برعکس گرم پانی کی بندر گاہ پر سمندری ترسیل میں کوئی رکاوٹ نہیں
آتی۔جدید تجارت میں سمندری راستوں کی ضرورت میں اضافہ ہوا ہے،ایسے میں
گوادر کی اہمیت ایک ”بحری گیٹ وے“کی مانند ہے۔پاکستان گوادر پورٹ کی وجہ سے
خطے میں سمندری ترسیل کے حوالے سے سب سے زیادہ جیو سٹرٹیجک پوزیشن کا حامل
ہے۔جنوب ایشیائی،مغربی ایشیاء اور وسط ایشیائی ریاستوں کے مابین ٹرانزٹ
ٹریڈ میں گوادر پورٹ کو مرکزی حیثیت حاصل
ہوگی،ترکمانستان،قازقستان،عمان،ایران،قطر سعودی عرب اور چین کے ساتھ معاشی
رابطوں کے نئے دور کے آغاز سے پاکستان میں معاشی ترقی اور خوشحالی کی راہ
گامزن ہوگا۔اس کے خلاف محاذ آرائی پاکستان دشمنی ہے۔گوادر بندرگاہ کو
پاکستان کی اقتصادی ترقی کا مرکز اور سی پیک (چین پاکستان اقتصادی
راہداری)کا محور سمجھا جاتا ہے۔گوادر کے خلاف بڑھتی ہوئی محاذ آرائی دراصل
سی پیک کے خلاف بین الاقوامی سازشوں کا حصہ ہے جس میں کچھ اندرونی عناصر
بھی شامل ہیں۔بھارت اور چند دیگر ممالک کھل کر یا خفیہ طور پر اس منصوبے
کوناکام بنانے کی سازشیں کرتے رہے ہیں،کیونکہ یہ منصوبہ نہ صرف خطے میں
طاقت کا توازن بدل سکتا ہے بلکہ پاکستان کو اقتصادی لحاظ سے ایک مضبوط
پوزیشن میں لے کر آسکتا ہے۔سی پیک صرف ایک اقتصادی منصوبہ نہیں بلکہ
پاکستان اور چین کے اسٹریٹجک تعلقات کی علامت ہے۔گوادر بندر گاہ اور سی پیک
کے دیگر منصوبوں سے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں تیزی آئے گی۔گوادر کے خلاف
سازشیں دراصل پاکستان کی ترقی کے خلاف ہیں۔بھارت اور دوسرے سی پیک مخالف
ممالک دہشت گرد تنظیموں کو مالی مدد فراہم کررہے ہیں جو گوادر سی پیک
منصوبوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کو شہ دی
جارہی ہے اور عالمی سطح پر سی پیک کو متنازعہ بنانے کے لیے پراپیگنڈا کیا
جارہا ہے،مگر اس کے باوجو د بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کا سفر تیزی سے
جاری ہے جس میں پاک فوج کا اہم کردار ہے۔پاکستان کا چین کے ون بیلٹ ون روڈ
اقدام سے بھی بلوچستان کی تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا،یہ امر بھی باعث
خوشی ہے کہ روس،تاجکستان اور ازبکستان نے بھی چین کے ون بیلٹ ون روڈ اقدام
کی حمایت کرتے ہوئے رابطے کے فروغ اور موثرٹرانسپورٹ کی ریڈور کی ترقی پر
زور دیا ہے۔اس سے خطے میں پائیدار امن،ترقی اور خوشحالی کے لیے راستے نکلیں
گے۔یاد رہے کہ اس وقت بلوچستان عالمی برادری کے لیے مثالی اقتصادی مرکز کا
روپ دھار چکا ہے۔
|