نہ جب تک کٹ مروں میں
خواجہء بطحٰی کی عزت پر
خدا شاہد کہ کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
قارئین کرام !
تقریبا چودہ سو سال سے کل امت کا متفق علیہ فیصلہ یہی ہے کہ اہانت انبیاء و
رسل علیھم السلام ایک نا قابل معافی جرم اور گناہ کبیرہ کی حد سے بھی آگے
کا ایک ایسا فعل قبیح ہے جس پر صریح سرکشی اور کفر جلی کی حد لازم آتی ہے-
یعنی اہانت انبیاء و رسل علیھم السلام بشمول حضور سید عالم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا مرتکب کوئی بھی شخص نہ صرف مرتد اور خارج از دین ہے بلکہ ایک
واضح سرکش اور باغی ء خدائے لم یزل ہے - لہٰذا اس پر تعزیری حد بھی بقدر
جرم ہی عائد ہو گی یعنی جیسا منہ ویسی چپیڑ-
آج سے ہم انشاءاللہ ( حسب توفیق گاہے بگاہے ) ناموس ختم رسالت صلی اللہ
علیہ وآلی وسلم کے حوالے سے باقاعدہ طور پر قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی
میں دلائل و براہین کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں جس میں قرآن و سنت کی صریح
تعلیمات کے ساتھ ساتھ جہاں اکابرین امت کے اقوال و افعال اور ان کے اجتہادی
فیصلے ہوں گے وہاں اس فقیر کے چند ذاتی نکات اور دلائل بھی صاحبان علم و
دانش اور نکتہ سنج و نکتہ رس حضرات کے ذوق سلیم کو یقینا سیراب کریں گے-
فی الوقت ہم عامتہ الناس کے افہام و تفہیم کے پیش نظر عامیانہ اور سطحی بحث
سے اپنی بات بتدریج رفیع الفکرمضامین کی جانب بڑھائیں گے تاکہ تعلیم یافتہ
طبقہ کے ساتھ ساتھ ہر کس و نا کس بھی ( عظمت و رفعت مقام نبوت کے) اس
دریائے فیض سے مستفید و مستیفض ہو سکے-
دلیل ١ :
قارئین کرام ! ایک بار پھر واضح کرتے چلیں کہ ہم ابھی عامیانہ و سطحی انداز
کی وہ عقلی بحث کرنے لگے ہیں جس کا تعلق معمولات زندگی سے ہونے کے باعث ہر
انسان کی بنیادی شخصیت سے متصل ہے- اور جسے ہر انسان باآسانی سمجھ سکتا ہے-
کوئی بالغ نظر اور پختہ فکر انسان اس سے ہر گز یہ نتیجہ نہیں کر سکتا کہ ہم
(معاذاللہ) شان الوہیت یا شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کسی
نوع کی تنقیص کی قبیح جسارت کر رہے ہیں بلکہ اس کا مقصود تفہیم عامہ ہے
جیسا کہ خود حضور سرور عالم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تھا کہ لوگوں کی
عقلی سطح کے موافق و مطابق بات کرو-
قارئین !
اگر ایک انسان اپنے کسی عزیز ترین رشتہ دار یا اپنی اولاد کو کوئی کام یا
پیغام ، کسی دوسرے کے لیے دے کر، اور نہایت سختی یعنی شدت تاکید سے اسے
تنبیہہ کرے کہ اے عزیز یا میرے برخوردار ! تم نے بہر صورت اس کام کو کر کے
ہی گھر آنا ہے جب کہ آپ یہ بھی نہ جانتے ہوں کہ وہ شخص جس کی طرف آپ اپنا
رقعہ ارسال کر رہے ہیں ، بہت دور دراز کے دیہات میں رہتا ہے اور پرلے درجے
کا اجڈ اور گنوار شخص ہے-تپتی دھوپ یے، تیز گرمی ہے یا شدید آندھی و طوفان
ہے، موسلادھار بارش ہے اور راستہ بھی خراب ہے- اس پر طرفہ یہ کہ اگلا شخص
آپکے بیٹے کو چائے پانی پوچھنے کے بجائے یعنی خاطر مدارت کرنے کے بجائے،
گھر سے دھکے دے کے بھی نکال دے اور اسے بیچ بازار کے رسوا کرے ، تھپڑ رسید
کرے تو میں اپنے ذی شعور ، بالغ نظراور صاحب اولاد قارئین سے سوال کرتا ہوں
کیا ایسے سنگین حالات میں اپنے بیٹے کو وہاں اس دیہی علاقہ میں اس شخص کی
خدمت( پیغام رسانی اور اصلاح) کے لئے جانے دیں گے؟
اول تو آپ خود ہی ایسی مہم پہ اسے روانہ نہ کریں گے اور اگر آپ کو ہونہار ،
سعادت مند بیٹا آپ کی خوشی کے لئے اس مہم کو سر کرنے کی ٹھان لے اور آپ اسے
وہاں ارسال کر بھی دیں تو پھر سارا دن آپ کا پورا دھیان اپنے بیٹے کی سمت
ہی لگا رہے گا کہ خدا خیر کرے پتہ نہیں کس حال میں ہو گا ؟
اور اگر آپ کا جواں مرد، با ہمت اور بہادر بیٹا متذکرہ بالا ساری مہم بکمال
وخوبی احسن طریق پر سر کر کے سرخروئی کا تمغہ اپنے سینے پہ سجائے خوشی خوشی
گھر کو لوٹ آئے تو پھر ذرا میرے ذہین اور صاحب اولاد قارئین، جو درد دل
رکھنے والے ہیں ، وہ مجھے بتائیں کہ آپ ایسے لائق اور قبل بیٹے کے ساتھ کیا
سلوک کریں گے ؟
یقینا آپ اپنے بیٹے کو خوشی سے گلے لگائیں گے، اس کا منہ چومیں گے، اس کا
ماتھا چومیں گے اور اسے مبارک بادیاں دیں گے ، فتح و نصرت کا جشن منائیں گے
، اپنے اس بیٹے کا صدقہ اتارتے پھریں گے، اس پر تمام عمر فخر کریں گے اور
نہ صرف آپ اکیلے بلکہ وہ بیٹا پورے کنبہ کی آنکھ کا تارا بن جائے گا، آپ
اسکا کارنامہ اپنے دوستوں ، جملہ رشتہ داروں اور اہل محلہ کو سنائیں گے
بلکہ ساری زندگی سناتے رہیں گے -
اگر آپکے اس لائق اور قابل بیٹے کو ذرا سا زکام بھی لاحق ہو جائے تو آپ اس
وقت چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک کہ آپکا وہ بیٹا اپنی (کوفت) بیماری سے
چھٹکارہ پا کے آرام حاصل نہ کر لے- اگر کوئی بد نصیب ، شومئی قسمت کا مارا
آپ کے سامنے یا آپ کے خاندان کے کسی فرد کے سامنے اس ہونہار کے لئے کوئی
سست و نا زیبا بات کہہ دے اگرچہ وہ کجی اس میں موجود ہی کیوں نہ ہو تو آپ
یا آپکا کوئی قریبی عزیز اسے برداشت نہیں کر سکے گا اور فورا سیخ پا ہو
جائے گا اور عین ممکن ہے کہ بات اس مخاطب شخص سے دست و گریباں کشی کے مرحلے
تک جا پہنچے-
میرے با شعور قارئین ! اگر ایک عام اور سطحی انسان اپنی اولاد کے بارے میں
اتنا حریص فی الحب ہے تو وہ خالق اکبر اور مالک کل ، جو اپنی جملہ مخلوق سے
ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا اور نہایت ہی مہربان و مشفق اعلٰی ہے، وہ
اپنے مقبول و برگزیدہ بندوں ( جنھوں نے اس کے نام کے جھنڈے کفرستان عالم
میں لہرانے کے لئے زمانے کی تند و تیز آندھیوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا
اور منزل سرخروئی تک پہنچ کے رضا و خوشنودی مولٰی کا تمغہ حاصل کیا) کو بے
یارو مددگار اور لاوارث کیسے چھوڑ سکتا ہے جبکہ جملہ کائنات کا تنہا والی و
وارث اسی کی ذات لا شریک ہے-
مالک الملک کے ایسے مقبول بارگاہ بندوں میں طبقہ ء انبیا و رسل علیھم
السلام سر فہرست ہے اور اس طبقہ ء عالیہ میں بھی جو شخصیت ، ہر حوالے اور
ہر نوعیت سے ، سب سے زیادہ مقدم و مکرم و محترم ہے وہ حضور سرور عالم علیہ
التحیتہ و الثناء کی ذات عالیہ ہے-
اس لئے جس کمال و خوبی سے اور جس احسن طریق سے ابلاغ توحید کا فریضہ آنجناب
علیہ السلام نے ادا کیا ، گزشتہ انبیاء و رسل علیھم السلام بھی اس انداز سے
یہ فریضہ ادا نہ کر سکے اور یہ کام جس طریقہ پر آپ کے ہاتھوں پایہ ء تکمیل
پر پہنچا ، اس کے بعد آپ کے مقام عند اللہ اور زیادہ بلند و بالا ہو گیا-
اس لئے آنجناب کی سرکار طبقہ ء انبیا و رسل کی بھی پیشوا بن کر محبوبیت
باری کی مسندپہ متمکن ہوئی-
لہٰذا اب اگر کوئی شقی القلب ، بد بخت زماں اپنی زبان درازی کے سبب حضور
سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہرزہ سرائی یا اہانت کی نا پاک اور
مکروہ جسارت کرے گا تو وہ دراصل آنجناب علیہ السلام کی نہیں، خود خدا وند
ذوالجلال کی ذات عالی کی توہین کا مرتکب ہو گا کیونکہ بقول مولوی بریلوی
رحمتہ اللہ علیہ
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا ، تیرا
مالک کی توہین کرنے والا نوکر اسکے گھر میں ایک لمحہ بھی مزید نہیں رہ سکتا
تو اس خدا وند دو عالم کی توہیں کرنے والا اس کی دنیا میں کیسے زندہ
دندناتا پھر سکتا ہے؟
یہ فطری قانون ہے کہ انسان اپنا مخالف اور دشمن ، اپنا سرکش و باغی برداشت
نہیں کر سکتا تو وہ مالک الملک ، جو قادر مطلق ہے وہ اپنا باغی و سرکش کیسے
برداشت کر سکتا ہے؟
قارئیں ! اگر کتا باؤلا یعنی پاگل ہو جائے اور آپ پر حملہ کر دے تو پھر اس
کے مارنے کے لئے آپکو اپنے کسی بزرگ یا محلے کے چیرمین سے اجازت نامہ نہیں
لینا پڑتا- یا کسی محکمے سے پرمیشن اور اپروول نہیں لی جاتی بلکہ انسان اس
پاگل کتے سے چھٹکارا پانے کے لئے اسے فورا ہلاک کرے گا- بس یہی حال شاتمان
نبوت و گستاخان رسول کا ہے-
آج کے لئے اتنا کافی ہے- باقی آئندہ جاری رہے گا- انشاء اللہ ! |