عرب کاچاند

بے سایہ کردیا رب نے سایہ دار کو-:رسول اکرمﷺ کی ولادت باسعادت سے تقریباً چھ ماہ قبل اکتوبر570ھ میں آپ کے والد ماجد حضرت عبد اللہ ایک تجارتی سفر میں انتقال کرگئے۔ جس کو تمام بے سہاروں کا سہارا، بے سایوں کا سایہ، یتیموں غریبوں مسکینوں کا ملجا وماویٰ بنتا تھا، رب نے خود اسے بے سایہ پیدا کیا ، تاکہ بعد مےں تبلیغ،دعوت ورسالت کے اظہار اور دین کے احیاءکی راہ میں محبت پدری غالب نہ آئے، کائنات کی افضل ترین ہستی کو کسی اور کے سامنے سر اطاعت خم نہ کرنا پڑے۔
ولادت با سعادت-:واقعہ اصحاب الفیل کے 50یا 55روز بعد 9،ربیع الاول ۱۰ھ بروز پیر، بوقت صبح صادق، قبل ازطلوع آفتاب موسم بہار میں 20یا 22اپریل 571ءمیں قبیلہ قریش کی شاخ بنو ہاشم کی بیوہ خاتون آمنہؓ بنت وھب کے ہاں سید کائناتﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی والدہ شفائؓ نے دایہ کے فرائض انجام دیئے۔
حضورﷺ کا اسم گرامی ”احمد“-:ایام حمل میں والدہ ماجدہ نے خواب دیکھا، جس میں انہیں ہائف غیب سے امر ربی ہوا اپنے ہونے والے بچے کا نام احمد(بہت زیادہ تعریف کرنے والا)رکھدو۔ چنانچہ حضرت آمنہؓ نے آپﷺ کا نام ”احمد“ تجویز کیا
اللہ نے اپنے رحمت سے اک چاند عرب میں چمکایا .... اس چاند کا نام احمد ہے کتنا اچھا کتنا پیارا
حضورﷺ کا اسم گرامی ”محمد“-:ولادت کے بعد دادا عبدالمطلب یتیم پوتے کو گود میں لئے خانہءکعبہ میں داخل ہوئے تو دیھکا کہ تمام ستون سر سجود ہیں۔ انہوں نے آپﷺ کا نام ” محمد“ تجویز فرمایا۔ آپﷺ اسم باسمی تھے کینکہ لغت عرب میں لفظ محمد(صیغہ اسم مفعول) کے دو معنی ملتے ہیں:
(۱) الذی یحمد مرتہ بعد احزیٰ(جسکی ہمیشہ تعریف کی جاتی رہے)
(۲) الذی جمع فیہ خصال محمودتہ (جس میں تمام اچھی خوبیاں جمع کردی گئی ہوں)
عرب کا دستور-:اہل عرب کا دستور تھا کہ ولادت کے ہفتہ بھر بعد ہی بچوں کو صحرائی عورتوں کے سپرد کردئیے تھے،جو ان کی پرورش کرتیں اور انہیں صحرائی کھیل مثلاً گھڑ دوڑ اور تیر اندازی بھی سکھادیتیں۔ ولادت کا آٹھواں دن ہے ....صحرائی عورتیں گھر گھر دریافت کرتی ہیں کہ کسی کے بچہ ہوا ہے تو ہمارے سپرد کردو.... عبداللہ کی بیوہ آمنہؓ نے اس خیال سے کہ میرے یتیم بچے کو کون گود لے گا۔ اپنے لخت جگر کو چھپا رکھا ہے۔ عورتیں بھی صرف نظر کرکے گزر رہی ہیں بنو سعد کی ایک خاتون حلیمہ سعدیہؓ سوچتی ہیں.... یہ بھی غریب، میں بھی غریب، میں بھی غریب کیوں نہ میں یتیم بچے کا سہارا بن جاﺅ، چنانچہ آمنہؓ کے چاند سے بچے کو گود لے لیتی ہیں۔
چاند کی تابانیاں-:آمنہ ؓ کے چاند، عبداللہ کے در یتیم کی تابانیاں ولادت کے وقت سے ہی حلوے دکھانا شروع کردیتی ہیں،کچھ جھلکیاں ملاحظہ ہوں:
٭ وہی گھر جو تنگ و تاریک تھا اس چاندﷺ کی آمد پر رشک شمس و قمر بن جاتا ہے۔
٭ حلیمہ سعدیہؓ کی مریل اونٹنی پر جب چاندﷺ قدم رکھتے ہیں تو تمام اونٹنیوں سے آگے نکل جاتی ہے۔ اور اس کرشمے کو دیکھ کر تمام عورتیں کف افسوس ملتی ہیں کہ کاش وہ گود لیتیں!
٭ حلیمہ سعدیہؓ کے گھر میں جوں ہی یہ چاند اترتا ہے یوں لگتا ہے ایک نہیں کئی سورج اس تاریک گھر میں اتر آئے ہیں۔تاریک گھر میں روشنیوں کا راج نظر آنے لگتا ہے۔
٭بکری کا دودھ جو حلیمہؓ کی اپنی ضروریات کو کافی نہ ہوتا تھا، اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ بچوں کو پلانے اور اپنی ضروریات میں استعمال کرنے کے بعد بھی اتنا بچ جاتا ہے جو اہل محلہ کو کافی ہو
٭ جس روز کائنات کا سردارﷺ اپنے چرواہئے بھائی کے ساتھ بکریاں چرانے جاتا ہے بکریوں کی نگرانی کی ضرورت نہیں پڑتی، خود شام ڈھلے بھرے پیٹوں آحاضر ہوتی ہیں۔
حضورﷺ کی پرورش-:ابھی آقائے دوجہاں کی عمر کا چھٹا سال ہی شروع ہوا چاہتا ہے کہ والدہ حضرت آمنہؓ بھی سفر آخرت پر روانہ ہوجاتی ہیں۔ یتیم پوتے کو سردار قریش عبدالمطلب گودلے لیتے ہیں، مگر دوہی سال میں وہ بھی داع مفارقت لے جاتے ہیں۔آپﷺ کو آپﷺ کے چچا ابوطالب گودلے لیتے ہیں۔ وہی ابوطالب جس کے افلاس و کسمپر سی کا یہ عالم تھا کہ ہفتوں روکھی سوکھی میسر نہ ہوتی، بچوں کی پرورش کا بار اوروں پر ڈال رکھا تھا۔ محمدﷺ کی کفالت کی ذمہ داری لینے پر ان کی حالات کی کایا یکسر پلٹ جاتی ہے۔
بچپن کے کھیل-: اگر چہ محمد کریمﷺ عام بچوں سے یکسر مختلف تھے اور ان کے ساتھ لہو لعب میں بھی شریک نہ ہوتے تھے، تاہم صمتمند سرگرمیوں مثلاً تیراکی، گھڑ دوڑاور تیر اندازی میں نہ صرف حصہ لیتے، بلکہ سب سے سبقت لے جاتے تھے اس کے علاوہ بچپن ہی سے آپکو بکریاں چرانا اور بتوں کو توڑنا بہت محبوب مرغوب تھا۔
تجارتی سفر اور بحیرہ راہب کی پیشینگوئی -:بارہ برس کی عمر میں بصندواصرار حضرت ابوطالب کے ساتھ شام کے تجارتی سفر پر گئے۔ایک عیسائی راہب ”بحیرہ“ نامی نے جوں ہی رخ جامل آرائے محمدﷺ کو دیکھا، ابوطالب کو مخاطب کرکے پکاراٹھا:” اے سردار قریش! یہ آئندہ ہونے والا نبی ہے“ کیونکہ اس نے دیکھ لیا تھا کہ تمام شجر و حجر محمد عربیﷺ کو سجدہ کررہے ہیں۔
خدیجتہ الکبریٰ ؓ سے نکاح-: مکہ میں ایک نہایت متمول بیوہ عورت خدیجہ نامی رہا کرتی تھی، جس کا بڑا مال تجارت تھا وہ ایک صادق و امین تاجرکی تلاش میں تھی، جو اس کا مال فروخت کرسکے۔ محمدﷺعربی کا شہرہ سن ہی رکھا تھا۔ آپﷺ کو اس نے پیغام بھیجا اور آپﷺ نے قبول کرلیا، اس نے اپنا غلام میسرہؓ بھی ساتھ کردیا کہ تمام احوال کی خبر رکھے اور آکر بتلا دے۔ میسرہؓ نے آکر تمام احوال اور آپﷺ کی دیانت و صداقت کا ماجرا کہ سنایا40سالہ خدیجہؓ نے پیغام نکاح بھیجا اور محمدﷺعربی نے قبول کرلیا، اس وقت آپﷺ کی عمر مبارک تقریباً 25برس تھی۔
عطائے نبوت سے پہلے آپﷺ کے معمولات-: محمدﷺعربی عموماً دنیاوی لین دین سے کنارہ کشی اختیار کرکے تنہائی میں اللہ کی عبادت کے خوگر تھے۔ ستو اور پانی پر ہفتے ہفتے گزارہ چلتا آپﷺ دن رات غار حرا میں مصروف عبادت و ریا صنت رہاکرتے تھے۔ نبوت ملنے سے چھ ماہ قبل سے ہی آپﷺ عجیب عجیب خواب دیکھنے لگے جو کچھ خواب میں نظر آتا، وہی کچھ ظہور پذیر ہوجاتا تھا۔
پہلی وحی،حضورﷺ کی حالت اور حضرت خدیجہؓ کی تسلی-:
ایک روز آپﷺ منہمک عبادت تھے کہ اچانک جبرئیل ؑغار میں اترے اور آپﷺ سے کہا:اقرائ(پڑھ) آپ نے فرمایا :ماانا بقاریئ(میں پڑھاہوا نہیں ہوں) انھوں نے آپﷺ کو گلے لگایا اور زور سے بھینچا،گویا انوار الہیہ قلب محمدﷺ میں منتقل کردیئے، جس کی وجہ سے آپﷺ پڑھنے لگے اور سورئہ خلق کی ابتدائی پانچ آیتیں اتریں۔ آپﷺ کی حالت عجیب سی ہورہی تھی، آپﷺ کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کوئی خواب ہے یا حقیقت آپﷺ کے جسم اطہر سے پسینہ جاری تھا اور آپﷺ سردی کی وجہ سے کانپ رہے تھے، اسی حال میں گھر تشریف لائے اور زوجہ محترمہؓ سے فرمایا:” مجھے کمبل اوڑھا دو“ مگر حالت دستور برقرار رہی زوجئہ محترمہؓ نے آپﷺ کو تسلی دی:” آپ غریبوں کے غم خوار، یتیموںمسکینوں کے سرپرست اور صادق وامین ہیں، اللہ آپﷺ کو مایوس نہیں کرینگے“ اور آپﷺ اپنے ماوں ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو توریت کے بڑے عالم تھے، انہوں نے آپﷺ کو تسلی دی اور فرمایاقرائن سے ثابت ہوتا ہے کہ اینجیل میں جس نبیﷺ کی رسالت کی حضرت عیسیٰؑ نے بشارت دی ہے وہ آپ ہی ہیں۔اس وقت حضورﷺ کی عمر40برس تھی اور ماہ ربیع الاول اور دن سوموار کا تھا، محقیقین نے عیسوی سن 610ءبتایا ہے۔
٭٭٭٭
معلوماتِ سیرت
ابوسعدیعقوب
٭....حضورِاکرم ﷺکو 40برس کی عمر میں نبوت ورسالت سے سرفراز کیا گیا۔
٭....حضورِاکرم ﷺ نے 60برس کی عمر میں دنیا سے رحلت فرمائی۔
٭....حضورِاکرم ﷺ کے ننھیالی قبائل بنونجار اور بنوزہرہ تھے۔
٭....حضورِاکرم ﷺ کے رضائی والد کا نام حارث بن عبدالعزیٰ تھا جو حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا کے شوہر تھے۔
٭....حضورِاکرم ﷺ کی ازواج مطہرات کی تعداد 13ہے۔
٭....حضورِاکرم ﷺ نے 27غزوات میں حصہ لیا۔
٭....حضورِاکرم ﷺ نے 9غزوات میں بنفسِ نفیس قتال فرمایا۔
٭....حضورِاکرم ﷺ کے گھوڑوں کے نام سکب، مرتجز، لزاز، طرب اور لحیف تھے۔
٭....حضورِاکرم ﷺ کو ایک یہودی عورت زینب بنت حارث نے زہر دیا تھا۔
٭....حضورِاکرم ﷺ کی ازواج میں سے ماریہ قبطیہ اور ریحانہ بنت زید رضی ا ﷲ عنہما باندیاں تھیں۔
٭....حضورِاکرم ﷺ کی تلواروں کے نام بتار، حیف، رسوب اور مخذم تھے۔
٭....حضورِاکرم ﷺ کے دامادوں کے نام حضرت عثمان غنی (دہرے داماد) حضرت علی حیدر، حضرت عاص بن ربیع رضی اﷲ عنہم ہیں۔
٭....ابولہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ نے آپ ﷺ کی صاحبزادیوں کو جو ان کے نکاح میں تھیں، طلاق دی تھی۔
٭....حضورِاکرم ﷺ کے جسدِاطہر کا دیدار کرنے والے آخری شخص آپ ﷺ کے چچازاد بھائی قثم بن عباس رضی اﷲ عنہ تھے۔
٭....حضورِاکرم ﷺ کی رضائی ماؤں کے نام حلیمہ سعدیہ اور ثوبیہ رضی اﷲ عنہما ہیں، آخرالذکر ابولہب کی باندی تھی۔ جسے ابولہب نے ولادتِ رسول ﷺ کی خوشی میں آزاد کردیا تھا۔
٭....حضورِاکرم ﷺ نے جب دنیا سے پردہ فرمایا تو 9ازواج مطہرات بقیدحیات تھیں۔
٭....حضورِاکرم ﷺ کی ازواج مطہرات میں سب سے آخر میں حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کا انتقال ہوا۔
٭....حضورِاکرم ﷺ کی آخری زوجہ مطہرہ حضرت میمونہ بنت حارث رضی اﷲ عنہا ہیں۔
٭....حضورِاکرم ﷺ کی بیٹیوں میں سب سے پہلے حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا کا انتقال ہوا۔
٭....حضورِاکرم ﷺ کے ہاتھوں قتل ہونے والا پہلا اور آخری شخص اُبیّ بن خلف ہے۔
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 307947 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More