شاتم ِ رسول کی توبہ کے احکام

اللہ تعالیٰ توبہ سے اُن گناہوں کو معاف فرماتا ہے جو خالصتاً اُس کی ذات سے متعلق ہوتے ہیں ۔ جنہیں اصطلاح میں حقوق اللہ کہا جاتا ہے لیکن وہ گناہ جن کا تعلق بندوں سے ہوتا ہے انہیں معاف کرنے کا حق بھی اس نے بندوں کو ہی دے رکھا ہے۔ گو یا حقوق العباد توبہ سے معاف نہیں ہوتے۔ مثلاًاگر کوئی کسی کو گالی دیتا ہے تو جب تک جسے گالی دی گئی ہے وہ اسے معاف نہ کرے۔ گالی دینے والا اگر لاکھ مرتبہ توبہ کرتا رہے اس کی دنیاوی سز اسے ضرور ملے گی۔

پھر آپ خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ جب ایک عام آدمی کو دی گئی گالی کی سز اتوبہ سے معاف نہیں ہو سکتی تو وہ ذاتِ اقدس ﷺ جو باعث ِ تخلیق کائنات ہیں۔ جن کی توہین سے نہ صرف کروڑوں انسانوں کے دل شدت جذبات سے بھڑک اٹھتے ہیں بلکہ ملاءاعلیٰ کے باسی بھی غیض و غضب سے چلا اٹھتے ہوں گے تو کیا اس ذات اقدس ﷺ کو گالی دینے والے کی سزا صرف توبہ کر لینے سے معاف ہو جائے گئی؟ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔

مومنین کو اذیت پہچاناصرف کُھلا گناہ ہے جبکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو اذیت پہچانے کی سزا دنیاوآخرت میں لعنت اور ذلت کا عذاب ہے۔جب بھی کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ نے کسی توہین رسالت کے مرتکب کو قتل کرنے کی خبر دی تو حضورﷺ نے اس کی تحسین فرمائی اور یہ نہ فرمایا کہ تم نے اسے توبہ کا موقع کیوں نہ دیا۔

علماءنے لکھا ہے کہ حضور ﷺ کو یہ حق حاصل تھا کہ آپ ﷺ اپنے شاتم کی سزا دیں یا معاف فرمائیں ۔ اُن کے وصال کے بعد کسی کو شاتم رسول کو معاف کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ وہ ہر حال میں واجب القتل ہے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق اگر کوئی بندہ مرتد ہو جائے تو اس پر اسلام پیش کیا جائے گا اگر وہ اسلام قبول کر لے تو اسے معاف کر دیا جائے گا ورنہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔ لیکن توہین رسالت کے سبب جو ارتداد پیدا ہوتا ہے وہ مطلق ارتداد سے بہت بڑا جرم ہے۔ چونکہ اس نے کائنات کی سب سے معزز ذات ﷺ کو گالی دی ہے اور کروڑوں انسانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے اس لئے وہ ہر حال میں قتل کا مستحق ہے اور توبہ کر لینے سے اس کا قتل معاف نہ ہو گا۔

ظاہر ہے اگر ایک آدمی بالفرض اسلام چھوڑ کر کوئی دوسرا الہامی مذہب اختیار کرتا ہے اور دوسرا آدمی حضور ﷺ کو گالی دیتا ہے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگرچہ اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا الہامی مذہبی اختیار کرنا بھی جرم ہے کیونکہ اس طرح وہ آدمی تکذیب رسالت کا مرتکب ہوتا ہے لیکن جو شخص نبیﷺ کو گالی دیتا ہے وہ تکذیب رسالت سے بڑھ کر ”شتم رسالت“ کا مجرم بن جاتا ہے ۔ اس لئے اس کی سزا بھی عام ارتداد سے بڑی ہو گی۔

علامہ شامی اپنی کتاب تنقیح حامدیہ جلد نمبر ایک کے صفحہ 4پر رقطراظ ہیں:
” شاتم رسول ﷺ کا ارتداد دوسرے ارتداد کی طرح نہیں ہے کیونکہ دوسرا ارتداد انفرادی عمل ہوتا ہے۔ اس میں کسی دوسرے کا حق متعلق نہیں ہوتا۔ اس لئے اس کی توبہ قبول ہوتی ہے مگر جس نے حضورﷺ یا دیگر انبیائے کرام علیہ السلام میں سے کسی کو گالی دی وہ کفار میں شامل ہو جائے گا اور اس کو قتل کرنا واجب ہے۔ اگر وہ توبہ نہ کرے پھر تو بلا اختلاف اسے کفر کی وجہ سے قتل کریا جائے گا اور اگر توبہ کرے تومشہور مذہب کے مطابق اسے بطورحد قتل کیا جائے گا۔“

اپنی ایک اور کتاب رد المختار جلد تین کے صفحہ 290پرعلامہ شامی لکھتے ہیں:۔
”اگر کوئی بھی مسلمان مرتد ہو جائے تو اس کی توبہ قبول کی جائے مگر دو آدمیوں کی توبہ قبول نہ ہو گئی (اور وہ واجب القتل ہی ٹھہریں گے) جو بار بار مرتد ہو اور جو نبی ﷺ کو گالی دے۔

علامہ ابنِ تیمیہ حنبلی لکھتے ہیں”رسول کریم ﷺ کو گالی دینا کفر و قتال کی جنس میں سے ہونے کے باوجود تنہا ارتداد سے بھی عظیم جرم ہے۔ اس لئے ایک مسلمان کا رسول اللہ ﷺ کو گالی دینا ارتداد بھی ہے اور اس سے بڑھ کر جرم بھی، جب دین میں داخل ہو کر اس سے نکل جانے کی وجہ سے مرتد کا کفر دوبالا ہو گیا ہے تو اس کا قتل کرنا عین واجب ہے بنا بریں رسول ﷺ کی توہین کرنے وا لاجس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور تمام مومن بندوں کو اذیت دی۔ اس کے کفر کا شدید تر ہونا اولیٰ ہے۔ اس لئے وہ یقیناقتل کا مستحق ہے اس لئے کہ کفرکی انواع میں گالی کا فساد ارتداد سے بھی عظیم تر ہے۔“

اب ہم اس کی تائید میں صحابہ کرام کا رد عمل دیکھتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے اس نام نہاد مسلمان کوتوبہ کا مطالبہ کئے بغیر قتل کر دیا تھا جس نے حضور ﷺ کے فیصلے کو تسلیم نہ کیا اور بارگاہ نبوت سے ”فاروق “ کا لقب پایا تھا۔ اس کے علاوہ اس بندے کو بھی قتل کر دیا گھا جو حضور ﷺ کی توہین کی نیت سے سورة عبس کی تلاوت کرتا تھا۔ لیکن مطلق ارتداد کے متعلق ان کا نقطہ نظر بتانے کے لئے ایک روایت ملاحظہ ہو۔

”محمد بن عبدللہ بن عبدالقاری سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس ایک آدمی ابو موسیٰ اشعری ؓ کی جانب سے آیا۔ حضرت عمر ؓ نے وہاں کے حالات دریافت کئے ۔ا س نے ایک آدمی کے متعلق بتایا کہ وہ مرتد ہو گیا ۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا: تم نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔اس نے کہا ہم نے اس کی گردن اڑادی۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم نے اسے تین دن کے لئے قید و بند میں نہ رکھا کہ ہر روز اسے روٹی کھلاتے اور توبہ کا مطالبہ کرتے ممکن تھا کہ وہ توبہ کر لیتا ۔ پھر فرمایا: اے اللہ ! میں ا س وقت حاضر نہ تھا اور نہ ہی میں نے اس بات کا حکم دیا اور نہ ہی یہ بات سن کر راضی ہوا۔“اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر ؓ کے نزدیک وہ آدمی جو حضورﷺ کی گستاخی کا مرتکب ہو وہ تو فوراََ ہی واجب القتل ہے لیکن مرتد پر اسلام پیش کرنا لازمی ہے۔

امام ابو حنیفہ ، ان کے اصحاب سفیان اور اوزاعی کے متفقہ قول کے مطابق شاتمِ رسول کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔امام خیر الدین الحنفی فرماتے ہیں:”ہم کہتے ہیں جب کسی نے نشہ کی حالت میں حضورﷺ کو گالی دی تو اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ اسے بطور حد قتل کر دیا جائے گا۔ حضرت ابوبکر ؓ، امامِ اعظم ،البدری اور اہل کوفہ کا یہی مذہب ہے ۔ امام مالک اور ان کے اصحاب کا بھی مشہور قول کے مطابق یہی مذہب ہے۔ اشباہ میں ہے کہ جب بھی کوئی کافر توبہ کرے گاتو اس کی توبہ دنیا اور آخرت میں مقبول ہو گئی۔ مگر ایک جماعت کی توبہ قبول نہ ہو گی جو کسی نبی کو گالی دینے کی وجہ سے کافر ہوا ہو۔“ (فتاوی ٰ خیریہ ج ص102-103)

قاضی ثناءللہ مظہری الحنفی اپنی کتاب خیر مظہری جلد نمبر چار کے صفحہ نمبر 131پر لکھتے ہیں:”جوبھی نبی ﷺ کو گالی دے اسے قتل کر دیاجائے اور اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی ۔برابرہے کہ وہ مومن ہو یا کافر۔“اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی ؒ اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”سید عالم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی توبہ ہزار ہا آئمہ دین کے نزدیک اصلاح قبول نہیں اور ہمارے علمائے حنفیہ میں سے امام بزازی و امام محقق علی الاطلاق ابن الہمام و علامہ مولی خسرو صاحب درر و علامہ ذین و ابن نجیم صاحب بحر الرائق و علامہ عمر بن نجیم و علامہ ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ و علامہ خیر الدین رملی صاحب و علامہ شیخ زادہ مدقق علی صاحب ؒ نے اختیار فرمایاہے۔ بداں تحقیق المسئلہ فی الفتاویٰ الرضویہ اس لئے کہ عدم قبول توبہ صرف حاکم اسلام کے یہاں ہے کہ وہ اس معاملہ میں بعد توبہ بھی سزائے موت دے ورنہ اگر تو بہ صدق دل سے ہے تو عندللہ مقبول ہے کہیں یہ بد گو اس مسئلہ کو دستاویز نہ بنا لیں کہ آخر توبہ قبول نہیں پھر کیوں تائب ہوں؟ نہیں نہیں توبہ سے کفرمٹ جائے گا۔ مسلمان ہو جاﺅ گے اور جہنم ابدی سے نجات پاﺅ گے۔(تمیدالایمان ص41-42مطبوعہ سکھر)

مکتبہ دیو بند کے مقتدر عالم دین علامہ شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:”بے شک حضور ﷺ کو اذیت دینا کفر ہے ۔ہمارے آئمہ نے اسے وضاحت سے بیان کیا ہے اور ایسے کافر کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیا ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گئی۔“

اگر کوئی توبہ کر لیتا ہے تو اس سے اس کا قتل تو ساقط نہ ہو گا البتہ اس پر مسلمان میت کے احکام نافذ ہوں گے جیسا کہ علامہ حقی حنفی اپنی کتاب فسیر روح البیان ، جلد 3کے صفحہ نمبر 394پر لکھتے ہیں:” اور مختار قول یہ ہے کہ اگر مسلمانوں میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسی با ت کہے جو حضورﷺ کی شان میں گستاخی پر دلالت کرے تو اس کو قتل کرنا واجب ہے اور اس کی توبہ سے اس کا قتل معاف نہیں ہو گا۔ اگرچہ وہ کلمہ شہادت پڑھے اوراپنے قول سے رجوع کرے یا تو بہ کرے لیکن اگر وہ توبہ کے بعد مر گیا یا اسے بطور حد قتل کیا گیا تو اس پر مسلمان میت کے احکام نافذ ہوں گے۔ اس کو غسل دیا جائے گا۔ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اسے دفن کر دیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ اپنی گستاخی پر ڈٹا رہے اور توبہ سے انکار کر دے تو اس طریقے سے اس کی موت کفر پر سمجھی جائے گی اس کی وراثت مسلمانوں کے لئے ہو گی اوراس کو غسل نہیں دیا جائے گا۔ نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گئی اور اسے کفن نہیں پہنایا جائے گابلکہ اس کی شر مگاہ ڈھانپ دی جائے گی اور اس پر مٹی ڈال کر اسے چھپا دیا جائے گا جیسا کہ کافروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔“
Syed Mumtaz Ali Bukhari
About the Author: Syed Mumtaz Ali Bukhari Read More Articles by Syed Mumtaz Ali Bukhari: 9 Articles with 10642 views I wrote a book on " Namoos e Risalat ( Cruceed Cartoons)"
I also managed Children magazine Quaterly Sahar in 2010 and now publishing another childre
.. View More