رات کو دیپ کی لو کم نہیں رکھی جاتی۔

علم وادب قوموں کی میراث بھی ہوتے ہیں، معاشرتی سدھار کا آئینہ اور ترقی کا زینہ بھی۔ ایک مشہور قول ہے کہ ہر انسان اپنی زندگی جیتا ہے مگر کتابوں کا مطالعہ کرنے والا کئی زندگیاں جی لیتا ہے۔عصر حاضر میں کتب بینی کا شوق نوجوانوں سے زیادہ پختہ عمر کے افراد میں نظر آتا ہے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر لاہور کتاب میلہ میں لکھاریوں اور ادیبوں کے جھرمٹ دیکھ کے بہت خوشی ہوئی کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔ گزشتہ کئی برس ہم بھی کتابوں کے سٹال لگاتے رہے ہیں۔ اس سال بوجوہ سٹال نہیں لگا سکے۔ بچوں کے اسکول کے سالانہ امتحانات ہیں تو انھیں پڑھانا بھی ہوتا ہے ۔گھرداری کی مصروفیات اپنی جگہ ہیں۔ کل چھوٹی بیٹی نے کہیں سے سن لیا کہ کتاب میلہ کا آخری دن ہے تو اس نے جانے کی ضد پکڑ لی ( وہ ہر سال میرے ساتھ کتاب میلہ میں جایا کرتی تھی). مجھے کچن سے فرصت نہیں تھی تو وہ اپنے بابا کے ساتھ چلی گئی۔میں اپنے کام نمٹانے لگی۔ واپسی پر میں نے پوچھا کہ کیا کیا دیکھا تو اس نے بڑی عجیب بات بتائی کہ وہاں بہت سی کتابیں دیکھیں اور پسند کیں مگر سب سے انوکھی بات یہ تھی کہ ایکسپو سنٹر میں کتاب میلے کے ساتھ " ویپ میلہ" بھی لگا ہوا تھا۔ کئی لوگ کتابوں کی طرف سے نکلتے تھے تو ویپ میلے میں چلے جاتے تھے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کہ پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا تھا اور فیس بک پر بھی کسی نے اس کے بارے میں نہیں لکھا۔ یہ تو دو متضاد راستے ہیں۔ایک علم کی روشنی کا ،دوسرا آگ اور تباہی کاـ میاں صاحب سے پوچھا تو انھوں نے بھی تصدیق کی۔ “

نشہ آور اشیاء کسی نام سے بھی ہوں ،ان کا استعمال انسان کی جان اور ایمان دونوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ ای سیگریٹ یا ویپ کے بارے میں یہ غلط فہمی جان بوجھ کر پھیلائی جاتی ہے کہ اس کا کوئی نقصان نہیں ہے جب کہ حقیقت اس سے مختلف ہےـ انڈس ہاسپٹل کراچی کی پلمونولوجسٹ ڈاکٹر صائمہ کا کہنا ہے کہ ویپ میں لیکوئڈ نکوٹین ہوتی ہے جو اسی طرح نقصان دہ ہے جس طرح عام سیگریٹ بلکہ ویپ ایک ایسا ذریعہ بن گیا ہے جو دوسری مہلک منشیات لگانے کا سبب بھی بنتا ہے۔اس سے منہ اور سانس کی بیماریاں لگ جاتی ہیں بلکہ پھیپھڑوں کا سارا نظام متاثر ہوتا ہے۔ کمسن
بچے اسے فیشن یا ٹرینڈ سمجھ کے استعمال کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔امریکہ سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں ایسے والدین کی جانب سے عدالتوں میں باقاعدہ مقدمات دائر کئے گئے ہیں جن کے بچے ویپ نشے سے بیمار ہوۓ ہیں ۔لمحہء فکریہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں میں اس نشے کا خطرناک پھیلاؤ دیکھنے میں آرہا ہے جو زہر قاتل سے کم نہیں۔ویپ کا استعمال کرنے والے دوسروں کو بھی یہ نشہ لگا رہے ہیں۔جگہ جگہ ویپ شاپس کھل گئی ہیں۔ یہ ویپ نہیں بلکہ "ویمپائر" ہے،موجودہ دور میں اسکول ،کالجز اور یونیورسٹیوں میں بھی طالب علموں میں اس نشے کا استعمال عام ہوگیا ہے۔ نوجوانوں میں نشہ آور اشیاء کے استعمال کی مختلف وجوہات ہیں جن میں پڑھائی کا سٹریس ، والدین کی بے جا سختی ،اساتذہ کی مارپیٹ یا نفسیاتی دباؤ ڈالنا، بےروزگاری یا معاش کی پریشانی، پروفیشنل جیلسی یا حکام کا ناروا رویہ، بچوں کے سامنے والدین کے لڑائی جھگڑے ،کسی مقصد کے حصول میں ناکامی اور اس طرح کی دیگر وجوہات شامل ہیں۔جب انسان کسی پریشانی کو بھولنا چاہتا ہے تو وہ سکون یا فرار حاصل کرنے کے لئے ان چیزوں میں پڑ جاتا ہے۔ایک بار جو انسان کسی نشے کا عادی بن جاتا ہے وہ روز بروز ایک دلدل میں قدم رکھتا جاتا ہے ۔ برے دوستوں کی صحبت بھی اس کا ایک ذریعہ ہے۔والدین سے گذارش ہے کہ اپنے بیٹوں کی خصوصی نگرانی کریں اور انھیں رات دیر تک باہر پھرنے کی اجازت نہ دیں۔ایک نشہ مذید منشیات کا دروازہ کھولتا ہے اور انسان اسی زعم میں مارا جاتا ہے کہ ایک سگریٹ سے یا کبھی کبھار ویپ سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔جب انسان کی آنکھ کھلتی ہے تو اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔اچھا بھلا انسان نہ پڑھنے کے قابل رہتا ہے نہ جاب کرنے کے۔متمول لوگ علاج گاہوں یا ریہیبلیٹیشن سنٹرز سے اپنا علاج کروا لیتے ہیں مگر سب یہ علاج افورڈ نہیں کر پاتےـ نادار عوام کی اکثریت موت کے گھاٹ اتر جاتی ہے۔جو لوگ کسی بھی نشے کے کاروبار میں ملوث ہیں ،انھیں انسانیت کی تباہی سے خبردار کرنا چاہئیے ورنہ یہ آگ تو کسی کے بھی گھر تک پہنچ کے اسے جلا سکتی ہے۔

میری سب لکھاریوں سے گزارش ہے کہ اس موضوع کو ہلکا نہ سمجھیں،یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کا معاملہ ہے،اسے اجاگر کریں۔میں نے جو محسوس کیا وہ لکھ دیا مگر جن گھرانوں میں کوئی نشے کا مریض موجود ہے شاید وہ مذید بہتر انداز سے لکھ سکتے ہیں ۔اس موضوع پر اہل علم ودانش سے توجہ دینے کی خصوصی درخواست ہے۔
~ رات کو دیپ کی لو کم نہیں رکھی جاتی
دھندھ میں روشنی مدھم نہیں رکھی جاتی!
#

 

Ismat Usama.
About the Author: Ismat Usama. Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.