|
|
آخر سوشل میڈیا کا استعمال امریکہ میں اتنی اہمیت کیوں
اختیار کر رہا ہے جبکہ یہاں آف لائن زندگی کے کئی پہلو میسر ہیں. اور کیا
کسی پوسٹ پر ردعمل محض کسی صارف کی پسند یا نا پسند کے اظہار کا ایک ذریعہ
ہے یاکسی پلیٹ فارم کےخود صارف کی زندگی یا شخصیت پر بھی گہرے اثرات ہو
سکتے ہیں؟
یہ چند سوالات ان بہت سے نکات میں شامل تھے جنہوں نے دو پاکستانی امریکی
پروفیسروں کو امریکہ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال، اس کی اہمیت
اور اس کے زندگی پر اثرات پر ایک تحقیق کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
کمیونییکیشن کے شعبے سے وابستہ ریاست میری لینڈ کی ٹاؤسن یونیورسٹی کے
اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر روف عارف، ریاست ورجینیا کی جیمز میڈیسن یونیورسٹی کے
اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد اتفاق اور ریاست ٹیکساس کی ٹیک یونیورسٹی سے
فارغ التحصیل ٹیکنالوجی کی ماہر لارا ریگسڈیل کی مشترکہ ریسرچ حال ہی میں
امریکہ کے اہم جریدے "دی جرنل آف سوشل میڈیا ان سوسائٹی" میں شائع ہوئی جو
اس مسابقت کے دور میں ایک بڑی کامیابی تصور کی جاتی ہے۔
تحقیق کا عنوان " واٹ ڈز اے لائیک آن سوشل میڈیا مین؟" رکھا گیا اور اس کے
لیے محققین نے دو ارب سے زائد صارفین رکھنے والے انسٹاگرام پلیٹ فارم کا
انتخاب کیا۔ان کے مطابق اس انتخاب کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ فیس بک کے
مقابلے میں انسٹاگرام پراس سے قبل کوئی جامع اسٹڈی اس حوالے سے کم ہی نظر
آتی تھی کہ آخر انسٹاگرام پر لگائی گئی پوسٹ پر ردعمل کے لیے صرف ایک ہی
دل کی شکل کے بٹن یا آئیکون سے ردعمل افراد، معاشرے اور کمپنیوں کے لیے
کیا مختلف معنی رکھتا ہے۔
ڈاکٹر رؤف عارف نے 18 اور 35 سال کے درمیان کی عمر کے درجنوں امریکی شہریوں
کے انٹرویوز میں بیان کیے گئے تجربات کی بنیاد پر بات کرتے ہوئے وائس آف
امریکہ کو بتایا،
"ہم نے دیکھا کہ انسٹاگرام کے صارفین مختلف پوسٹس پر اپنا ردعمل ذاتی سطح
پر تعلقات بنانے، کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مشترکہ طور پر حمایت یا
پسندیدگی کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ لوگ کسی چیز یا شخصیت سے اپنے
جذباتی لگاؤ، اور کمپنیاں اپنے بزنس کو آگے بڑھانے کے ایک معیار کے طور پر
استعمال کرتے ہیں۔" |
|
|
انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے شاید یہ تاثر ملتا ہے کہ
لوگ صرف عادتاً کسی پوسٹ کو دیکھتے ہوئے اسکرول کرتے جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت
میں ہمیشہ ایسا نہیں ہے۔
"سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جب بھی کوئی پوسٹ شیئر کی جاتی ہے تو اس کا مطلب
کمیونیکیشن یا بات کرنے کا آغاز ہوتا ہے اور یہ کسی خاص ضمن یا کسی خاص
ماحول اور سوچ کے ساتھ ہورہی ہوتی ہے۔ اسی طرح جب صارف اس پوسٹ سے انٹر
ایکٹ کر رہا ہوتا ہے تو اس کے پیچھے اکثر کوئی شعوری اور کبھی لاشعوری محرک
کار فرما ہوتا ہے۔"
لہذا، وہ کہتے ہیں، کہ ایک بٹن دبانے سے یا ایک کلک سے لوگ اپنی آرا کا
اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل ایک بڑی امریکی ٹیکنالوجی
کمپنی نے ایک خاتون کے نام پر اکاونٹ کھولا جس میں لوگوں کو کامیابی کے
مشورے دیے جاتے تھے لیکن پھر ایک دن اس اکاونٹ نے اعلان کیا کہ وہ کوئی
اصلی عورت نہیں بلکہ ایک بوٹ ہے۔ اس کے ردعمل میں اس اکاونٹ کو کئی لاکھ
مزید لوگوں نے صرف اس ایماندارانہ اعلان کی وجہ سے فالو کرنا شروع کردیا۔
پروفیسر رؤف کے مطابق امریکہ میں اس وقت انسٹاگرام کے 17 کروڑ کے قریب
صارفین ہیں جوکہ بھارت کے بعد کسی بھی ملک میں اس پلیٹ فارم کے صارفین کی
دوسری بڑی تعداد ہے۔
ان کے مطابق تحقیق میں دیکھا گیا ہے کہ لوگوں اور افراد کے آپس کے تعلقات
کے علاوہ انفلوینسرز یعنی کہ کسی شعبہ میں رائےکو متاثر کرنے والی شخصیات
کے کام یا مقبولیت کے لیے، کاروبار کی ترقی اور سیاسی مقاصد کے لیے اس کا
استعمال بہت موثر رہا ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے کہا کہ امریکہ میں ری
پبلیکن پارٹی نے انسٹاگرام کو بہت موثر طریقے سے استعمال کیا ہے۔؎
ڈاکٹر محمد اتفاق کہتے ہیں کہ ان کی تحقیق نے ظاہر کیا کہ امریکہ میں
نوجوان لوگ انسٹاگرام کو ایک ایسے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرتے ہیں
جہاں وہ "انٹر پرسنل" یعنی افراد کے درمیان آپس کے تعلقات کو بڑھا سکیں۔
انسٹاگرام پر ایک بٹن کے ذریعہ کسی پوسٹ، تصویر یا اس کے متن کو پسند کرنا
ایک علامتی کمیونیکیشن ہے۔ یہ انٹر پرسنل تعلقات کا آغاز ہے۔
اس کا دوسرا مرحلہ لوگوں کو پرکھنا ہوتا ہے، تیسرے مرحلے میں افراد کے
تعلقات میں پوسٹس کو مسلسل پسند کرنے یا اس پر اپنی رائے کا اظہار کرنے سے
شدت آتی ہے جبکہ چوتھے مرحلے میں لوگ خیالات کے حوالے سے ہم آہنگ ہوتے
ہیں اور پھر آن لائن زندگی آف لائن تعلق میں بدل سکتی ہے۔"
|
|
ڈاکٹر اتفاق کہتے ہیں کہ چونکہ سوشل میڈیا کا استعمال "فیٹک کمیونیکیشن"
یعنی ٹیکنالوجی کے سہل استعمال سے معاشرے میں لوگوں کے بات چیت کرنے سے
ہوتا ہے اس لیے اسے ایک بہت مفید پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے۔
ان کے بقول سوشل میڈیا کا استعمال بعض اوقات خاندانوں اور دوستوں کے درمیان
تعلق مضبوط کرنے اور کمزور کرنے کا دہرا سبب بھی بنتا ہے۔
انہوں نے اپنی ریسرچ میں دیکھا کہ جب کوئی فرد دوسرے فرد سے تعلقات میں
دوری اختیار کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کی پوسٹس کو پسند کرنا کم، یا ختم کر
دیتا ہے۔ اسی طرح خاندان کے افراد اگر ایک دوسرے کی پوسٹس کو پسند کرنا کم
کردیں تو وہ کسی مسئلے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔
ریسرچ میں دیکھے گئے رجحانات بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا صارفین کی زندگیوں پر
یقینی طور پر اثر انداز ہوتا ہے اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مستقبل میں یہ
پلیٹ فارمز معاشرے پر مزید گہرے اثرات ترتیب دیں گے۔
معاشرتی اور خاندانی سطح پر بات کرتے ہوئے روف عارف کہتے ہیں کہ ان کے علم
میں آیا کہ بعض امریکی والدین اور ان کے بچوں میں بات چیت اور تعلقات کے
حوالے سے ایک خلیج آتی جارہی تھی ۔
"دلچسب بات یہ ہے کہ اس کا حل بھی انہیں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہی ملا،
وہ ایسے کہ والدین نے نوٹ کیا کہ نئی نسل فیس بک کی بجائے انسٹاگرام پر
روابط رکھنے کو ترجیح دیتی ہے تو والدین نے بھی انسٹا گرام پر اپنے اکاونٹ
بنا لیے اور یوں انہوں نے اپنے بچوں سے رابطے بڑھا لیے۔"
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ صنف بھی دوسرے پلیٹ فارمز کی طرح
انسٹاگرام پر کمیونیکیشن یا بات چیت اور روابط میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ایک طرف تو دیکھا گیا کہ لڑکے یا نوجوان مرد خواتین کی پوسٹس پر زیادہ
ردعمل کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی دیکھا گیا کہ خواتین بھی اس
پلیٹ فارم پر بٹن کلک کرنے سے اپنی آرا کا زیادہ اظہار کرتی ہیں۔
"اس طرح بہت سے ان کہی باتیں بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کہہ دی جاتی ہیں۔"
محققین نے بتایا کہ ان کی ریسرچ کو مختلف یونیورسٹیوں میں شیئر کیا جارہا
ہے اور اس پر ماہرین اپنی آرا کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ رؤف عارف کہتے ہیں
کہ یہ بات ان کے لیے باعث اطمینان ہے کہ ان کی کوشش کو امریکہ کے علمی
حلقوں میں پزیرائی مل رہی ہے۔
ڈاکٹرمحمد اتفاق نے یہ بھی بتایا کہ ساتھ ہی انسٹاگرام پر پوسٹ کیا گیا کچھ
مواد جس میں امرا اور رئیس لوگو ں کی طرف سے لگائی گئی قیمتی اشیا کی
تصویریں یا ایسی جگہوں کے ویڈیوز یا تصویریں جہاں وہ سیر کے لیے گئے ہوں
اور ان کی سیر عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہو تو ایسی پوسٹس صارفین پر منفی
اثرات بھی چھوڑتے ہیں۔
"مثال کے طور پر ہم نے دیکھا کہ لوگوں نے کہا کہ ایسی خوشحالی اور امارت کی
تصویریں دیکھ کر کبھی کبھی انہیں ڈپریشن اور ذہنی کوفت بھی ہوتی ہے۔ ماضی
میں ہم نے دیکھا کہ ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب انسٹاگرام نے پوسٹس پر
پسند کے شمار کو چھپانا شروع کردیا تھا۔
تاہم، زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پلیٹ فارم افراد اور کمپنیوں کے لیے
اپنی مہارت، اپنے کام اور پروڈکٹس کو مارکیٹ کرنے کا ایک مفید ذریعہ ہے۔
پروفیسر روف عارف کہتے ہیں، زندگی کی طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی پیچیدہ
ہیں۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ سوشل میڈیا ہماری آف لائن یعنی روایتی یا
حقیقی زندگی میں کمیونیکشن کے فن پر بڑے انداز میں اثر انداز ہورہا ہے
کیونکہ دنیا اب ایک میٹا دور میں رہ رہی ہے۔
"یہاں تک کہ ڈیجیٹل کمیونیکشن کی سرحدیں روابط اور بات چیت کرنے کے انداز
کی از سر نو تشکیل کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اور ہماری تحقیق سے پائے جانے
والے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں سوشل میڈیا انسانی زندگی کو
کئی طریقوں سے مزید متاثر کرے گا۔" |
Partner Content:VOA Urdu |