وائٹ ہاؤس کے حسین باغات جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں

image
 
وائٹ ہاؤس کے سبزہ زار اور ان کے اطراف میں خوش رنگ اور خوش نما پھولوں کی کیاریاں اپنی مثال آپ ہیں اور ہر سال اپریل اور اکتوبر میں عام لوگوں کے لیے وائٹ ہاؤس کے گیٹ کھول دیے جاتے ہیں تاکہ وہ ان باغات میں چہل قدمی کا لطف اٹھا سکیں۔

19 ویں صدی تک، جب سیکیورٹی کے زیادہ مسائل نہیں تھے،لوگ سال بھر جب چاہتے وائٹ ہاؤس کے باغات میں کچھ وقت گزار سکتے تھے۔ لیکن اب سیکرٹ سروس کے اہل کار پھولوں کے ان باغات کی نگرانی کرتےہیں اور وہاں تک عام لوگوں کی رسائی محدود ہے۔

وائٹ ہاؤس کے سبزہ زاروں کا شمار واشنگٹن کے قدیم ترین پھولوں کے باغات میں ہوتا ہے۔پارک سروس کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ کا وہ قدیم ترین لینڈ اسکیپ (پھولوں ، درختوں اور سبزہ زار کا منظر) ہے جس کی مسلسل دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔
 
image

مارتھا مک ڈوول نے وائٹ ہاؤس کے پھولوں کے باغات پر ایک کتاب لکھی ہے، جس کا نام ہے’ تمام صدور کے باغات‘ (All the Presidents’ Gardens) ۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ روایات سے بھرپور ہیں۔ یہ بہت خوبصورت ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ انہیں اتنا محفوظ کیا گیا ہے، لیکن یہ جدید زندگی کی ایک ضرورت ہے۔

جب سال میں دو بار عام لوگوں کو وائٹ ہاؤس کے باغات دیکھنے کی اجازت دی جاتی ہے تو وہ گیٹ کے باہر قطار بنا کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔
 
image

وائٹ ہاؤس میں آنے والے مہمانوں کو اوول آفس کے باہر گلاب کے باغ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اوول آفس وہ کمرہ ہے جہاں صدر اپنے دفتری امور سرانجام دیتے ہیں۔ یہ باغ مستطیل شکل کا ایک خوبصورت سبزہ زار ہے جس کے چاروں طرف مختلف رنگوں کے گلاب کے پودے ہیں اور خوشنما پھول اپنی بہار دکھاتے نظر آتے ہیں۔ یہ باغ اہم تقاریب کے لیے استعمال ہوتا ہے مثال کے طور پر کسی بل پر دستخطوں کی تقریب یا کوئی اہم پریس کانفرنس وغیرہ۔

اس باغ کی تعمیر کا سہرا صدر جان ایف کینیڈی کو جاتا ہے۔ انہوں نے 1962 میں روز گارڈن بنوایا تھا۔
 
image


مک ڈوول کہتی ہیں کہ صدر کینیڈی کو روز گارڈن بنوانے کی تحریک اس وقت ملی تھی جب انہوں نے بکنگھم پیلس کا دورہ کیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ وائٹ ہاؤس کے مغربی حصے میں واقع اوول آفس کے باہر بھی ایک ایسا ہی باغ ہو۔جو پھولوں اور پودوں سے بہت زیادہ بھرا ہوا ہو۔

موجودہ دور میں لوگ جس روز گارڈن کا نظارہ کرتے ہیں، وہ ایک تبدیل شدہ باغ ہے۔ اسے 2020 میں خاتون اول ملانیا ٹرمپ نے نیا روپ دیا تھا۔انہیں اس پر بہت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا کیونکہ انہوں نے وہاں موجود سیب کے 10 درخت کٹوا دیے تھے۔
 

image

مک ڈوول کہتی ہیں کہ روزگارڈن کے حوالے سے ملانیا پر تنقید غیر منصفانہ تھی کیونکہ اس کی تزئین و آرائش کے لیے بڑے لوگوں کے ایک گروپ نے تحقیق کی تھی۔اس باغ کو نئی بنیاد کی ضرورت تھی۔ اس پر کام کے آغاز سے ہی مسائل تھے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ کیا مجھے سیب کے درختوں کی کمی محسوس ہوگی۔ ہاں ہوگی۔ لیکن کیا ہم ان درختوں کے نیچے گلاب اگا سکتے ہیں؟ اس کا جواب نہیں میں ہے۔ بلکہ یہ تقریباً ناممکن ہے۔

باغ کی سیر پر آنے والے وائٹ ہاؤس کے جنوبی لان کی ایک دائرہ نما راہداری پر چلتے ہیں، وہاں ان کی نظر وائٹ ہاؤس کی شہد کی مکھیوں اور ان کے چھتوں پر بھی پڑتی ہے۔ اور اس کے بعد ایک کچن گارڈن ہے جسے 2009 میں خاتون اول مشیل اوباما نے بنوا تھا۔ خاتون اول جل بائیڈن نے اس میں پھولوں کے تختے کا اضافہ کیا۔
 
image


وائٹ ہاؤس کے باغ کی یہ سیر جیکولن کینیڈی گارڈن پر آ کر ختم ہوتی ہے۔اسے خاتون اول کا باغ (First Lady’s Garden) بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اس جگہ 1903 سے ہی ایک باغ موجود تھا لیکن اسے نئی شکل و شباہت 1965 میں ملی۔ اسے ریچل لیمبرٹ میلن نے ڈیزائن کیا تھا۔ انہوں نے کینیڈی فیملی کے لیے روزگارڈن کی بھی تزئین و آرائش کی تھی۔اس باغ میں اب سال کے زیادہ تر حصے میں پھول کھلے رہتے ہیں کیونکہ یہاں موسم کی مناسبت سے پھول لگائے جاتے ہیں۔

باغ کی سیر پر آنے والے وائٹ ہاؤس کا بھی شاندار نظارہ کرتے ہیں۔مک ڈدول کہتی ہیں کہ یہ ہماری مشترکہ دلچسپی کی چیز ہے اور ہمیں اس کا لطف اٹھانا چاہیے۔

 

Partner Content:VOA Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: