باغِ ہم بستگی

انسان اور فطرت کی باہمی وابستگی پر ایک فکرانگیز تحریر، جو تباہی سے ہم آہنگی کی طرف سفر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔

ہم ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں، جہاں نخلستان کے پانی میں ہمارا عکس امید اور خطرے، دونوں کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے سامنے صحرا پھیلا ہوا ہے، ایک ایسی تشبیہ جو ہم نے اپنی زمین پر بربادی کی شکل میں تخلیق کی ہے۔ مگر اسی بے رحم منظرنامے میں ایک نخلستان بھی ہے—استقامت، باہمی ربط، اور تجدید کی امید کی علامت۔ مگر یہ نخلستان محض ایک زمینی حقیقت نہیں، بلکہ ایک ذہنی کیفیت ہے، ایک سوچ کا زاویہ، جو ہمیں اپنے ماحول اور ایک دوسرے سے تعلقات کی نئی تفہیم عطا کرتا ہے۔

مدتوں سے انسان ایک غلط فہمی میں مبتلا رہا ہے—یہ کہ وہ فطرت سے الگ ہے، ایک آزاد قوت جو زمین کو صرف ایک ذریعہ، ایک شے کی طرح استعمال کر سکتی ہے۔ یہی سوچ ہمیں اس نہج پر لے آئی جہاں جنگلات اجڑ رہے ہیں، دریا زہر آلود ہو رہے ہیں، آب و ہوا بدل رہی ہے، اور بے شمار ماحولیاتی بحران ہمارے وجود کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ہم نے ترقی کی بلند و بالا عمارتیں تو کھڑی کر لی ہیں، مگر ان کی بنیادیں فطرت کی بربادی پر رکھی ہیں، عارضی فائدے کی دوڑ میں ہم زمین کی فریاد سننے سے قاصر رہے ہیں۔

نخلستان ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم فطرت سے جدا نہیں، بلکہ اسی کا ایک حصہ ہیں۔ جیسے کھجور کے درخت پانی پر انحصار کرتے ہیں، پانی پتھروں پر، پتھر ریت پر، اور ریت ہوا پر، ویسے ہی ہمارا وجود بھی زمین کے ہر ذرے سے جڑا ہوا ہے۔ ہمارے اعمال کی بازگشت پوری کائنات میں سنائی دیتی ہے، یہ ہمارے حال پر ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی تقدیر پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔

پانی کے کنارے کھڑی عورت درحقیقت بنی نوع انسان کی علامت ہے، جو ایک چوراہے پر کھڑی ہے۔ وہ چاہے تو تباہی کے اسی راستے پر چلتی رہے، نخلستان کے وسائل کو اس حد تک نچوڑ لے کہ آخرکار وہ بھی ایک بے جان ریت کے ٹکڑے میں بدل جائے۔ یا پھر وہ ایک نئے نظریے کو اپنا سکتی ہے—ایسا نظریہ جو حفاظت، پائیداری، اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی پر مبنی ہو۔ مگر یہ ایک بنیادی تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے، ایک ایسی تبدیلی جس میں منافع کو نہیں بلکہ انسانیت اور زمین کو اولین ترجیح دی جائے، جہاں ہر جاندار کی اپنی اہمیت ہو، اس کی اپنی قدر ہو۔

اس عورت کے ساتھ کھڑا سیاہ بلی کا بچہ جنگل اور وحشت کی علامت ہے، وہ فطرت کی اس خودمختار روح کی نمائندگی کرتا ہے جس کی بقا ہماری ذمہ داری ہے۔ وہ یاد دلاتا ہے کہ حقیقی ترقی فطرت کو زیر کرنے میں نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ہم آہنگ زندگی گزارنے میں ہے۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ زمین کے وسائل کو غیر محدود انداز میں استعمال کرنے کے بجائے، ان کی حدوں کے اندر رہ کر جینا ہی انسانیت کے لیے بقا کا راستہ ہے۔

افق پر جھلملاتا وہ عظیم سیارہ ہمارے کائناتی مقام کا احساس دلاتا ہے۔ وہ ایک خاموش مگر پُرہیبت پیغام ہے کہ ہم سب ایک وسیع تر حقیقت سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ امید کا استعارہ ہے، ایک یاد دہانی کہ مشکلات کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہوں، اگر ہم چاہیں تو ایک بہتر دنیا تخلیق کر سکتے ہیں۔ مگر اگر ہم نے آج بھی آنکھیں بند رکھیں، تو نخلستان سوکھ جائے گا، اہرام زمین بوس ہو جائیں گے، اور صحرا ہر چیز کو اپنی بے رحمی میں لپیٹ لے گا۔

نخلستان ہمیں پکار رہا ہے کہ ہم اپنی باہمی وابستگی کو تسلیم کریں، زمین کے محافظ بنیں، اور ایک ایسے مستقبل کی تعمیر کریں جہاں انسان اور فطرت ساتھ مل کر پروان چڑھیں۔ ایسا مستقبل جہاں پانی میں ہمارا عکس بربادی اور حرص کا مظہر نہ ہو، بلکہ ایک ایسی دنیا کا آئینہ ہو جو شفقت، دانائی، اور تمام زندگی کی باہمی حرمت پر مبنی ہو۔
 

Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 393 Articles with 274957 views Shakira Nandini is a talented model and dancer currently residing in Porto, Portugal. Born in Lahore, Pakistan, she has a rich cultural heritage that .. View More