عہد حاضر میں ڈیجیٹل اور تکنیکی انقلاب کے معیشت اور سماج
سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ان میں تعلیم اور
تدریس کا شعبہ بھی شامل ہے جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے وسیع پیمانے پر مستفید
ہو رہا ہے۔چین کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں تعلیم کو
جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے اسے تکنیکی جہتوں سے آراستہ کیا گیا ہے اور
دنیا کے ساتھ بھی تعلیمی تبادلہ اور تعاون کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ڈیجیٹل
سکرینز، کیمروں اور انٹرنیٹ کیبلز کی مدد سے دنیا بھر سے یونیورسٹیوں کے
طالب علم اب چینی یونیورسٹیوں کے آن لائن کلاس رومز میں شامل ہو رہے ہیں۔
اعلیٰ تعلیم کے ان اعلیٰ معیار کے وسائل کو چین میں بڑے پیمانے پر اوپن آن
لائن کورسز (ایم او او سیز) کہا جاتا ہے، جو سیکھنے کے شوقین افراد کے لیے
جغرافیائی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے دور دور تک علم پھیلانے کی صلاحیت کی وجہ
سے خاص طور پر پرکشش ہیں۔
2024 کے آخر تک اعلیٰ تعلیم کے لیے چین کے اسمارٹ پلیٹ فارم نے 31 ہزار آن
لائن کورسز کا آغاز کیا اور 183 ممالک اور خطوں میں صارفین کی جانب سے 93
ملین سے زائد ویوز ریکارڈ کیے۔ آئی کورس اور شوئے تانگ ایکس جیسے پلیٹ
فارمز نے عالمی سیکھنے والوں کو 14 زبانوں میں 1 ہزار سے زیادہ کورسز پیش
کیے ہیں ، جن میں 6 لاکھ 70 ہزار کورس ویوز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
صرف پانچ کورسز اور چند سو صارفین کے ساتھ ایک معمولی آغاز کے بعد سے ،آج
چینی اوپن آن لائن کورسز عالمی سطح پر تسلیم شدہ تعلیمی وسائل بن گئے ہیں ،
جو تعلیم کے کھلے پن کو گہرا کرنے کی چین کی کوششوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
علم انسانی ترقی کی سیڑھی ہے۔ تاہم، کچھ ممالک میں، ترقی یافتہ اعلیٰ
تعلیمی وسائل تک رسائی بدستور ایک مسئلہ ہے. عالمی ترقی میں عدم توازن اور
کمیوں کو دور کرنا اور علم کے فرق کو پر کرنا ایک فوری اور طویل مدتی کام
ہے۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور اعلیٰ تعلیم کے گہرے انضمام کی خصوصیت رکھنے والے
چینی اوپن آن لائن کورسز نے علم تک کھلی رسائی فراہم کی ہے، جس سے علم کے
خلا کو ختم کرنے اور جامع علم کے تبادلے کو فروغ دینے میں مدد ملی ہے۔
بہت سی چینی یونیورسٹیاں دنیا بھر میں سیکھنے والوں کو اعلیٰ معیار کے آن
لائن کورسز پیش کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر شی آن کی جیاؤتونگ یونیورسٹی نے
ایک تربیتی پروگرام شروع کیا ہے جو درجنوں مضامین کے تحت تقریباً 100 بین
الاقوامی کورسز فراہم کرتا ہے ، جس سے 100 سے زیادہ ممالک اور خطوں کے 10
ہزار سے زیادہ طلباء اور کاروباری افراد مستفید ہو رہے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ
انیشی ایٹو کے فریم ورک کے تحت ، ساؤتھ ویسٹ جیاؤتونگ یونیورسٹی نے آن لائن
کورسز کے ذریعے 80 سے زیادہ ممالک سے 5 ہزار سے زیادہ ریل ٹرانزٹ پیشہ ور
افراد کو تیار کیا ہے۔
چینی آن لائن کورسز کی مسلسل بڑھتی ہوئی عالمی موجودگی نے مزید ممالک میں
اعلیٰ معیار کے تعلیمی وسائل دستیاب کرائے ہیں ، جس سے گلوبل ساؤتھ میں
اعلی تعلیم تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔ساتھ ساتھ چین ، تعلیمی وسائل اور
سرگرمیوں کی عالمی فراہمی سے خدمات اور معیار کو بڑھانے پر زیادہ توجہ
مرکوز کر رہا ہے۔چین نے کورسز کا اشتراک کرنے اور کریڈٹ کی باہمی شناخت کے
لئے میکانزم کو نافذ کرنے کے لئے غیر ملکی یونیورسٹیوں کے ساتھ تعاون کو
مضبوط کیا ہے۔ مائیکرو کریڈینشل پروگرام جیسے طریقوں سے سیکھنے کے جدید
انداز اپنائے ہیں اور مزید پرکشش اور جدت طراز جہتیں اپنائی جا رہی ہیں۔
چین نے ان کورسز کی ترقی پر بیجنگ اعلامیہ بھی جاری کیا ہے اور عالمی اعلیٰ
تعلیم کی ڈیجیٹل ترقی پر رپورٹس بھی جاری کی ہیں تاکہ باقی دنیا کے ساتھ
اپنے ڈیجیٹل تعلیم کے تجربے کو فعال طور پر شیئر کیا جاسکے۔چینی اوپن آن
لائن کورسز کی عالمی مقبولیت تعلیم میں کھلے پن کو وسعت دینے اور عالمی
اعلیٰ تعلیم کی ڈیجیٹل تبدیلی کو فروغ دینے کے لئے چین کی فعال کوششوں کی
نمائندگی کرتی ہے۔
جدید نقطہ نظر سے، تعلیم کسی بھی ملک کے لئے ترقی کی بنیاد ہے. ایک قدیم
چینی کہاوت ہے کہ "لوگوں کو مچھلی دینے سے زیادہ ضروری انہیں مچھلی پکڑنا
سکھانا ہے"۔اسی فلسفے کی روشنی میں اپنی تعلیمی ترقی کی جستجو میں، چین
جدیدکاری کی راہ پر دوسرے ممالک کے ساتھ ہاتھ ملانے کی امید کرتا ہے.
چینی آن لائن کورسز کی عالمی ترقی سے لے کر منفرد طور پر ڈیزائن کردہ لوبان
ورکشاپس اور سلک روڈ اسکولوں تک جو مقامی ترقی میں حصہ ڈال رہے ہیں، چین
دنیا کے سامنے نہ صرف ٹھوس منصوبے بلکہ ترقی کی نئی رفتار بھی لا رہا ہے
اور چینی دانش مندی کے عملی مظاہرے سے پہاڑوں اور سمندروں میں علم کی ترویج
، اور بین الاقوامی تعلیمی تعاون کے نقشے کو مسلسل وسعت دیتے ہوئے مستقل
ترقی کر رہا ہے اور اپنے تعمیری اقدامات کے حوالے سے مزید پرعزم ہے۔
|