مصنوعی ذہانت کے نئے چیلنجز اور عالمی تعاون

چین نے مصنوعی ذہانت کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نہ صرف اقدامات اور قوانین کا ایک سلسلہ تشکیل دیا ہے بلکہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجیز کے منفی پہلوؤں کو دور کرنے کی بین الاقوامی کوششوں میں بھی فعال طور پر حصہ لیا ہے، جس کا مقصد لوگوں کو بہتر نتائج فراہم کرنا ہے۔دیکھا جائے تو آج موسمیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل انقلاب کے نئے دور میں بین الاقوامی تعاون کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔یہاں، سب کے لئے اہم سوال یہ ہے کہ کیا دنیا اس انقلاب میں فعال طور پر شریک ہو گی یا صرف خاموش مبصر بن کر رہے گی ۔

دوسری جانب، اس حقیقت کا ادراک بھی لازم ہے کہ دنیا کے تقریباً سبھی خطوں کے پاس مصنوعی ذہانت تشکیل دینے کی ترغیب، طاقت، علم اور ذمہ داری ہے جو لوگوں کی بھلائی کے لئے کام آ سکتی ہے ، لیکن مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات اور حکمرانی کے بارے میں آگہی کا فروغ بھی لازم ہے ۔اس میں بہترین طریقوں، موثر مصنوعی ذہانت کی حکمرانی کی تعمیر کے ساتھ ساتھ کاروباری اداروں میں اخلاقی مصنوعی ذہانت کو مربوط کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

اسی تناظر میں حال ہی میں پیرس میں منعقدہ مصنوعی ذہانت ایکشن سمٹ نے عالمی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔سمٹ میں 30 سے زائد ممالک کے رہنماؤں یا اعلیٰ سطحی نمائندوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہان نے شرکت کی۔ فرانس اور چین سمیت 61 دستخط کنندگان نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس ٹیکنالوجی کو "کھلے، جامع اور اخلاقی" انداز میں ترقی دینے کا عہد کیا ہے۔سمٹ کے دوران مصنوعی ذہانت کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مل کر چیلنجوں کا سامنا کرنے کی خاطر مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی کو انتہائی اہم قرار دیا گیا۔

مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ایک اہم طاقت کی حیثیت سے چین انتہائی ذمہ دارانہ انداز میں مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی میں شریک ہے۔ چین ان اولین ممالک میں سے ایک ہے جس نے مصنوعی ذہانت کی ترقی اور عالمی حکمرانی کو مضبوط بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اکتوبر 2023 میں چینی صدر شی جن پھنگ نے گلوبل آرٹیفیشل انٹیلی جنس گورننس انیشی ایٹو پیش کیا، جس میں ترقی پذیر ممالک کے لیے بین الاقوامی تعاون اور معاونت کو مضبوط بنانے پر زور دیا گیا۔ جولائی 2024 میں چین نے مصنوعی ذہانت کی استعداد کار بڑھانے پر بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے ایک قرارداد پیش کی ، جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس میں منظور کیا گیا ۔پھر اسی سال نومبر میں صدر شی جن پھنگ نے ریو ڈی جنیرو میں جی 20 سربراہ اجلاس میں اس بات پر زور دیا کہ مصنوعی ذہانت سے تمام انسانیت کو فائدہ ہونا چاہیئے اور اسے "امیر ممالک اور امیر لوگوں کے لئے کھیل" بننے سے بچایا جائے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ سائنسی دریافتوں اور تکنیکی جدت طرازی میں ہر بڑی پیش رفت کو بین الاقوامی تبادلوں اور تعاون سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ چینی حکومت سائنس اور ٹیکنالوجی کی ہر ایک کے لئے فائدہ مند ترقی کی وکالت کرتی ہے اور دنیا کے ساتھ تجربے کا اشتراک کرنے کے لئے تیار ہے ، اور چینی مصنوعی ذہانت کا ماڈل ڈیپ سیک ایک اوپن سورس ماڈل اپناتا ہے جو وقت کے رجحان کے مطابق ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مصنوعی ذہانت گزرتے وقت کے ساتھ ہماری زندگی، پیداوار کے طریقے اور ترقی کے امکانات کو گہرائی سے تبدیل کر رہی ہے۔ ان میں ٹیکنالوجی، اقتصادی ترقی کے نمونے، قومی گورننس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات کا احاطہ بھی کیا جا سکتا ہے. اس لحاظ سے مصنوعی ذہانت کی گورننس میں عالمی تعاون کو آگے بڑھاتے ہوئے معاشرے پر اس کے منظم، گہرے اور جامع اثرات کو ہمیشہ مدنظر رکھنا ہو گا۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1413 Articles with 704504 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More