جنوبی بلوچستان کی تاریخی اہمیت

جنوبی بلوچستان غیر معمولی تاریخی اہمیت کا حامل پاکستان کا ایک اہم علاقہ ہے،جو اپنی جغرافیائی حیثیت،وسیع رقبے مواصلاتی ڈھانچے،ثقافت،سنگلاخ پہاڑوں،ریتیلے صحراؤں،میدانی اور ساحلی علاقوں کی وجہ سے ایک نمایاں اور منفرد مقام رکھتا ہے۔جنوبی بلوچستان رخشان اورمکران جیسے تاریخی ڈویژن اور ان کے پانچ اہم اضلاع جن میں چاغی،خاران،واشک،پنجگور اور کیچ نمایاں ہیں پر مشتمل ہے۔ان اضلاع کا مجموعی رقبہ 124,885مربع کلو میٹر پر محیط ہے،جو پاکستان کے کل رقبے کا 16فیصد اور بلوچستان کے کل رقبے کا36فیصد بنتا ہے۔آبادی کے لحاظ سے جنوبی بلوچستان کی کل آبادی 2.4ملین ہے،جو بلوچستان کی مجموعی آبادی کا تقریباً 12فیصد بنتی ہے۔جنوبی بلوچستان کی افغانستان کے ساتھ 509کلومیٹر جبکہ ایران کے ساتھ 829کلومیٹر سرحد یں ملتی ہیں جو اس کی دفاعی اور اقتصادی اہمیت کو مزید بڑھادیتی ہیں۔جنوبی بلوچستان کے ڈویژن مکران کا شمار قدیمی تاریخوں میں ہوتا ہے،مکران کے قدیم خشکی کے راستے کسی نعمت سے کم نہیں۔تاریخ کی ایک روایت کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں جب قحط پڑا تو وادی سینا سے بہت سے افراد کوچ کرکے وادی مکران کے علاقے میں آگئے۔325قبل از مسیح میں سکندر اعظم جب بر صغیر سے واپس یونان جارہا تھا تو اس نے یہ علاقہ اتفاقاً دریافت کیا اہم سمندری راستے پر واقع ہونے کی وجہ سے سکندر اعظم نے اس علاقے کو فتح کرکے اپنے ایک جنرل SeleukosNikatorکو یہاں کا حکمران بنادیا جو 303قبل مسیح تک حکومت کرتا رہا۔ 711ء محمد بن قاسم جیسے عظیم فاتح نے اس کو فتح کیا اور ہمیشہ کے لیے اسلام کا پرچم بلند کیا،معروف مورخ مولانا اسحاق بھٹی اپنی کتاب ”برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش“میں رقمطراز ہیں کہ ”حضرت عمرفاروق ؓ کے دور میں بعض صحابہ کرام ؓ کرمان اور مکران کے علاقوں میں تشریف لائے،وہاں جنگیں لڑیں اور اس نواح کے بہت سے حصوں کو فتح کیا۔مکران کی اہمیت کی دوسری اہم وجہ نواب آف مکران،نواب بائی خان گچکی کی بانی پاکستان سے والہانہ محبت تھی۔تقسیم ہند کے وقت نواب آف مکران نے انگریز حکومت کی طرف سے آزاد رہنے کی پیش کش کو ٹھوکر ماردی اور قائد اعظم محمد علی جناح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔تحریک آزادی پاکستان میں نواب آف مکران اور یہاں کے لوگوں کاکردار قابل تعریف ہے۔واضح رہے کہ یہ علاقے اس دور میں سندھ میں واقع تھے،بلوچستان کے بہت سے علاقوں کو صحابہ کرام ؓ کی قدم بوسی کاشرف حاصل ہے۔“اس حوالے سے جنوبی بلوچستان کا ضلع پنجگور ہمیشہ سے عقیدت واحترام کا مرکز سمجھا جاتا ہے،تاریخی روایات کے مطابق یہاں پانچ صحابہ کرامؓکی قبریں موجود ہیں جو یہاں مدفون ہیں اسی نسبت سے اس شہر کو پنجگور کا نام دیا گیا۔پنجگور میں ان کے علاوہ تفریخی مقامات اور وسیع وعریض کجھور کے باغات اس شہر کی اہمیت اور دلچسپی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔یہاں کے باغات میں پیدا ہونے والی کجھوریں اعلیٰ درجے اور ذائقے میں اپناثانی نہیں رکھتی۔جنوبی بلوچستان کے ضلع چاغی کے بلند وبالا پہاڑوں نے28مئی 1998ء کو عالم کفر پر اپنی وہ ہیبت طاری کی کہ جس کا لرزا آج تک دشمن پر طاری ہے۔جنوبی بلوچستان میں ضلع کیچ کو قدیم تہذیب اور ثقافت کی امین سمجھا جاتا ہے،کیچ کے شہر تربت میں قدیم تاریخ، تہذیب وتمدن کے ہزاروں سال قبل کے ثقافتی ورثے پائے جاتے ہیں جن کا کھوج لگانا ابھی بھی باقی ہے۔یہ شہر بلوچی ادب اور لوک داستانوں میں ایک خاص مقام رکھتا ہے رومانوی داستان سسی پنوں کا ہیرو پنوں کا قلعہ آج بھی تربت میں دیکھا جاسکتا ہے۔جنوبی بلوچستان کا ضلع خاران (قلعوں کا شہر)جغرافیائی طور پر ایک صحرائی اور ریتیلے علاقوں پر مشتمل علاقہ ہے،خاران اپنی سیاحتی،تہذیبی،ثقافتی،تاریخی اور جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے شہرت کا حامل ہے۔خصوصاًتہذیبی وتاریخی حوالے سے یہ خطہ اپنی ایک جداگانہ اور منفرد حیثیت رکھتا ہے یہاں کی قدیم تاریخ اور پائے جانے والے آثار قدیمہ بلوچستان کی تہذیبی،تاریخی،ارتقائی معاشرتی سفر میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔جنوبی بلوچستان کا ڈویژن مکران کے حالات قیام پاکستان سے لے کر 2005ء تک پرامن تھے،مکران امن و محبت کا گہواراکہلاتا تھا مگر جب سے یہاں کوسٹل ہائی وے بنا اور سی پیک جیسے منصوبوں کا آغاز ہوا ہے ملک دشمنوں کی سازشوں کا ہوگیا،نئی نسل کے سامنے تاریخی حقائق کو مسخ کر پیش کیا گیا۔بلوچ عوام کے سامنے بلوچستان میں محرومیوں اور وسائل کی کمی کا جھوٹاپراپیگنڈا کرکے انہیں ریاست کے خلاف گمراہ کیا گیا۔جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے،بلوچستان میں ترقیاتی کام،سٹرکوں کا جال دیکھیں وہاں تعلیم اور صحت کے لیے سہولیات پر نظر ڈالیں توآپ کو بلوچستان کی ترقی وخوشحالی کے دشمنوں کے بیانیے میں جھوٹ صاف نظر آئے گا۔تربت پنجگور مستقبل قریب کا کاروباری اور تدریسی حب بننے جارہا ہے۔ مکران کوسٹل ہائی وے،جس کی لمبائی 653کلومیٹر ہے،گوادر کو کراچی سے پسنی،اورماڑہ اور لسبیلہ کے ذریعے ملاتی ہے اور بحیرہ عرب سے ایران اور وسطی ایشیاء تک رسائی فراہم کرتی ہے،اس کا شمار نہ صرف پاکستان کی خوبصورت شاہراہوں میں ہوتا ہے بلکہ علاقہ کی ترقی میں اس کا کلیدی کردار ہے۔اس کے علاوہ بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والا M-8موٹر وے (گوادر،راتو ڈیرو)892کلو میٹر موٹر وے ہے،جو گوادر کو صوبہ سندھ سے سکھر تک تربت،ہوشاپ،آواران اورخضدار کے راستے کو ملاتی ہے۔اس کا ہوشاپ سے پنجگور،بیسیمہ اور سوراب تک کا سیکشن،جو سی پیک روٹ کا حصہ ہے،مکمل ہوچکا ہے اور 146کلو میٹر ہوشاپ،آواران سیکشن پر کام جاری ہے۔مکران ڈویژن میں پاکستان کی بہترین یونیورسٹیاں موجود ہیں،جن میں مکران یونیورسٹی آف تربت،پنجگور یونیورسٹی آف گوادر،یونیورسٹی آف تربت،انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار سب کیمپس،لاء کالج اور مکران میڈیکل کالج کے علاوہ کیڈٹ کالج اورماڑہ،کیڈٹ کالج خاران،کیڈٹ کالج پنجگور اور بلوچستان کا پہلا گرلز کیڈٹ کالج تربت شامل ہے۔جو بلوچ طلبہ وطالبات کو بہترین تعلیمی وفنی سہولیات فراہم کررہے ہیں۔جنوبی بلوچستان میں ایف سی بلوچستان (ساؤتھ)سرحدوں کی حفاظت سے لے کر عوام کی خدمت تک کلیدی کردار ادا کررہی ہے۔اس وقت ایف سی بلوچستان(ساؤتھ)10اسکولز،کالجز اور فری ایجوکیشن انسی ٹیوٹ اور ہاسٹلز چلارہی ہے،جن میں تقریباً 4500سے زائد بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں،جبکہ 12طلبہ کو پاکستان کے دیگر صوبوں میں اسکالر شپس فراہم کی جارہی ہے ضلع خاران میں خصوصی بچوں کے لیے بلوچستان کا پہلا اسکول قائم کیا گیا ہے،جہاں 53بصارت،سماعت اور ذہنی وجسمانی معذوری کے شکار بچے زیر تعلیم
 

نسیم الحق زاہدی
About the Author: نسیم الحق زاہدی Read More Articles by نسیم الحق زاہدی: 207 Articles with 183603 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.