پاکستان کی فضاؤں میں خواتین کے خلاف تشدد کی بو ہمیشہ سے
بسی ہوئی ہے۔ یہ کوئی اتفاقی دھماکا نہیں، بلکہ ایک ایسے سماج کا دائمی زخم
ہے جس کی جڑیں تاریخ کے تاریک اوراق میں پیوست ہیں۔ جب تک ہم اس زخم کی
ناسور بن چکی پرتوں کو بے رحمی سے کھرچ کر نہیں دیکھیں گے، اس وقت تک اس کا
علاج ناممکن ہے۔ یہاں عورت کو "عزت" کے نام پر قتل کرنا، گھر کی چار دیواری
میں تشدد کی چکی میں پیسنا، یا بازاروں میں اس کے جسم کو ہراساں کرنے کی
وارداتیں محض واقعات نہیں، بلکہ ایک منظم نظام کی کارستانیاں ہیں جس نے
ریاستی قوانین، سماجی اقدار، اور مذہبی تشریحات کے جنازے پر اپنا تاج سجایا
ہوا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات ہے کہ 2025 کے جدید ترین سمارٹ سٹیز میں بھی
خواتین کی اکثریت اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہوئے کسی جنازے کی سی کیفیت
محسوس کرتی ہے؟
1973 کے آئین نے خواتین کو مساوات کا خواب دکھایا تھا، مگر جنرل ضیاء الحق
کے "حدود آرڈیننس" نے اس خواب کو کچل کر رکھ دیا۔ چار مرد گواہوں کی شرط نے
عصمت دری کے مجرموں کو قانونی چھتری فراہم کی، جبکہ عورت کو عدالتوں کے
دروازوں پر دستک دینے والی ایک مجبور تماشائی بنا دیا۔ کیا کبھی کسی نے
سوچا کہ یہ قانون درحقیقت عورت کے وجود کو ہی جرم قرار دینے کی سازش تھی؟
آج بھی جب ہم 2025 میں سانس لے رہے ہیں، تو تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کی
رپورٹ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ خواتین کے لیے پاکستان دنیا کا چھٹا خطرناک
ترین ملک ہے۔ یہ درجہ بندی کوئی اکھڑا ہوا تمغہ نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی
بے حسی کا سرٹیفکیٹ ہے۔
غیرت کے نام پر قتل کی داستانیں تو ہماری رگوں میں دوڑتی خون کی طرح عام
ہیں۔ 2024 میں 392 خواتین کو "غیرت" کے بت کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ کیا کبھی
کسی نے ان اعدادوشمار کے پیچھے چھپی ہوئی سسکیوں کو سنا ہے؟ کراچی کا وہ
واقعہ جہاں ایک شخص نے اپنی والدہ، بہن، بھابی، اور بھانجی کو "آزاد خیالی"
کے الزام میں گولیوں سے بھون ڈالا، درحقیقت ہمارے سماج کی اُس کھوکھلی
اخلاقیات کا آئینہ ہے جو عورت کی آزادی کو جرم اور اس کی موت کو "خاندانی
عزت" کا تحفہ سمجھتی ہے۔ مگر اس قاتل کی عدالت میں پیشی پر ہونے والی
حمایت، اس کے لیے معافی کی مہم، اور میڈیا کی جانب سے اس واقعے کو "خاندانی
تنازعہ" کا لیبل لگانا—کیا یہ سب مل کر ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری عدالتیں،
ہمارا میڈیا، اور ہمارے سماج کے "احترامِ انسانیت" کے دعوے کتنے کھوکھلے
ہیں؟
جنسی تشدد اور ہراسانی کی وارداتوں نے تو شہروں کو جنگل بنا دیا ہے۔ بی بی
سی کی رپورٹ کے مطابق ہر دو گھنٹے بعد ایک لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی
ہے۔ مگر یہ اعدادوشمار کیا ہیں؟ محض کاغذ کے ٹکڑے جنہیں پڑھ کر ہم ایک لمحے
کے لیے سوکتے ضمیر کو جھٹکا دیتے ہیں اور پھر اپنی روزمرہ زندگی میں مگن ہو
جاتے ہیں۔ اسلام آباد کی طالبہ شنایا کا واقعہ، جسے ایک پارک میں نشانہ
بنایا گیا، صرف ایک کیس نہیں، بلکہ ایک ایسا المیہ ہے جس نے اس نوجوان لڑکی
کی زندگی کو دائمی خوف کے سائے میں دھکیل دیا۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ
"خوف" ہمارے سماج کا وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے عورت کو گھر کی چار دیواری
میں قید رکھا جاتا ہے؟ اور جب اقرا ملک جیسی سافٹ ویئر انجینئر کو پارک میں
ہراساں کیا جاتا ہے، تو کیا یہ پیغام نہیں دیا جاتا کہ "تعلیم یافتہ ہونے
کے باوجود تمہاری جگہ گھر ہی ہے"؟
گھریلو تشدد کے اعدادوشمار تو ہمارے سماج کی اس نفسیاتی بیماری کو بے نقاب
کرتے ہیں جہاں عورت کو مارنا پیار کا اظہار سمجھا جاتا ہے۔ 2009 کی ہیومن
رائٹس واچ رپورٹ کے مطابق 70-90% خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ 2024 میں
رجسٹرڈ 299 کیسز اس المیے کا محرف چہرہ ہیں، کیونکہ حقیقت میں یہ تعداد
لاکھوں میں ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی ان خواتین کے چہروں پر
پڑے ہوئے نیل، ان کی آنکھوں میں چھپے ہوئے درد، یا ان کے ہونٹوں پر لگی
ہوئی خاموشی کو پڑھنے کی کوشش کی ہے؟ یا ہم صرف اعدادوشمار کو دہرا کر اپنی
ذمہ داری سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں؟
حکومتی اقدامات کی بات کی جائے تو پنجاب کی 24 گھنٹے ہیلپ لائن (1737) اور
ویمن پروٹیکشن سینٹرز محض کاغذی شیر ہیں جن کی دہاڑ سنائی نہیں دیتی۔
وزیراعلیٰ مریم نواز کے "ٹریکنگ سسٹم" کا کیا فائدہ جب غیرت کے نام پر قتل
کے 80% کیسز میں ملزمان کو سزا ہی نہیں ملتی؟ دیہات کی خواتین تو ان مراکز
تک پہنچنے سے پہلے ہی "سماجی موت" مر چکی ہوتی ہیں۔ کیا کبھی کسی وزیر نے
ان خواتین کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں جو سندھ کے پسماندہ علاقوں یا
بلوچستان کے دور دراز گاؤں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں؟ یہ
تمام پروگرام درحقیقت حکومتوں کے لیے میڈیا ہیڈ لائنز بنانے کے آلے ہیں، نہ
کہ خواتین کے تحفظ کے لیے۔
سماجی رویوں کی بات ہو تو پاکستانی معاشرہ عورت کو "فحاشی" کا پیکج بنا کر
پیش کرتا ہے۔ بیوٹی پارلرز میں کام کرنے والی خواتین کو معاشی خودمختاری کے
بجائے "اخلاقیات کے دشمن" کا ٹیگ لگایا جاتا ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ
یہی خواتین اپنے خاندانوں کی کفالت کر رہی ہیں؟ مگر ہمارا سماج تو عورت کے
ہر اقدام کو مشکوک نگاہ سے دیکھتا ہے۔ عورت مارچ کے نعرے "میرا جسم، میری
مرضی" کو غلط تناظر میں پیش کر کے اسے "مغربی ایجنڈے" کا لیبل لگا دیا جاتا
ہے۔ کیا ہم نے کبھی اس نعرے کی اصل روح کو سمجھنے کی کوشش کی؟ یہ نعرہ
درحقیقت جنسی تشدد، جبری شادیوں، اور جسمانی استحصال کے خلاف احتجاج ہے۔
مگر ہمارے مذہبی رہنما اسے "فحش ادبیات" قرار دے کر عورت کی آواز کو دبانے
کی کوشش کرتے ہیں۔ 2022 میں وفاقی وزیر مذہبی امور کی جانب سے عورت مارچ پر
پابندی کی تجویز اس بات کی عکاس ہے کہ ہمارے حکمران طبقے میں عورت کی آزادی
کو برداشت کرنے کی صلاحیت کتنی محدود ہے۔
تعلیم، قانونی اصلاحات، معاشی بااختیاری—یہ سب الفاظ تو ہر تقریر اور ہر
پالیسی دستاویز کی زینت بنتے ہیں، مگر عملی اقدامات کی کمی نے انہیں نعروں
سے زیادہ حیثیت نہیں دی۔ شیما کرمانی جیسے کارکنوں کی کوششیں قابلِ ستائش
ہیں، مگر کیا ایک آدھ درخت کے سایے سے صحرا کو سرسبز بنایا جا سکتا ہے؟
پنجاب کا "ٹریکنگ سسٹم" اگر واقعی مؤثر ہوتا تو آج ہر صوبے میں اس کی نقلیں
نظر آتیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری ریاستی مشینری عورت کے تحفظ کے بجائے
اسے کنٹرول کرنے میں مصروف ہے۔ کیا کبھی کسی حکومت نے خواتین کے لیے محفوظ
عوامی ٹرانسپورٹ کا نظام بنایا؟ یا انہیں تعلیم اور روزگار تک مساوی رسائی
دی؟ نہیں، بلکہ ہر بار عورت کو "گھر کی زینت" بنانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
مردوں کی شمولیت کے نعرے تو اچھے لگتے ہیں، مگر کیا ہمارے مرد واقعی صنفی
مساوات کے لیے تیار ہیں؟ وہی مرد جو گھر میں اپنی بہنوں کو تعلیم دلوانے پر
فخر کرتے ہیں، وہی مرد دفتر میں خواتین ساتھیوں کو ہراساں کرنے سے نہیں
چوکتے۔ یہ دوغلا پن ہماری سماجی تربیت کا نتیجہ ہے جہاں عورت کو ایک طرف
"ماں" کا تقدس دیا جاتا ہے اور دوسری طرف "عورت" کو شیطانی وجود قرار دیا
جاتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی اپنے گھروں میں بیٹھ کر اپنے بیٹوں کو یہ سکھایا
ہے کہ عورت کی عزت اس کے حقوق کا احترام کرنے میں ہے؟ نہیں، بلکہ ہم انہیں
"عورت کو کنٹرول کرنے" کے گر سکھاتے ہیں۔
آخر میں، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا پاکستان کی خواتین کبھی محفوظ
ہوں گی؟ جب تک ہماری عدالتیں مجرموں کو سزا دینے کے بجائے مقدمات کی فائلز
کو دھول کھانے کے لیے چھوڑ دیتی ہیں، جب تک ہمارا میڈیا خواتین کے واقعات
کو "ڈرامائی کہانیاں" بنا کر پیش کرتا ہے، اور جب تک ہمارے مذہبی رہنما
عورت کی آزادی کو کفر قرار دیتے رہیں گے، اس وقت تک یہ المیہ جاری رہے گا۔
تاریخی طور پر خواتین کی قربانیاں راستہ ضرور بناتی ہیں، جیسے 1983 کا وہ
احتجاج جس نے جنرل ضیاء کے ظالمانہ قوانین کے خلاف آواز اٹھائی، یا عورت
مارچ کی وہ لہر جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ مگر اب وقت آ گیا ہے کہ
ہم اس جدوجہد کو صرف "تاریخ کے اوراق" تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اپنے موجودہ
نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔
یہ کالم نہ تو کسی سیاسی جماعت کا ترجمان ہے، نہ کسی مغربی ایجنڈے کا
پرچارک۔ یہ صرف ایک آواز ہے جو اس ظلم کے خلاف احتجاج کرتی ہے جو ہماری
ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کے ساتھ روزانہ ہوتا ہے۔ شاید یہ آواز آج دبائی جائے،
مگر تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کی چکی ہمیشہ سے انقلاب کے بیج پیستی آئی ہے۔
|