طائف کا سفر ، تین ریال کی ملاﺅٹ سے پاک لسی یعنی لبن
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
بھارت کے مدھیہ پردیش کے اندور علاقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان بہت تیز تھے ، تیسرے دن انہوں نے کہا کہ چلو طائف چلتے ہیں وہاں پر میقات ہیں ، وہاں سے احرام باندھ کر آجائیں گے اور پھر ہم ایک اور عمرہ کرلیں گے ، پاکستان سے عمرہ اور پھر مسجد عائشہ سے دوسرے عمرے کے بعد خانہ کعبہ کی طواف کی عادت سی ہوگئی تھی ، احرام میں چلنا مشکل ہوتا تھا جبکہ اب احرام کے بغیر سعودی حکام خانہ کعبہ کے نزدیک نہیں چھوڑتے ، اور انہیں اوپر جانے دیا جاتا ہے ، خیر وہاں پر طواف کا اپنا مزہ ہے ، ڈیڑھ گھنٹے میں ایک طواف ہو جاتا ہے ، لیکن یہ شرط ہے کہ عمرہ کرنے والا اکیلا ہو ، اگر دوسرا ساتھی ہو تو پھر مشکل ہوتا ہے، اس لئے دودنوں کے بعد طائف جانے کی ہمت نہیں تھی لیکن انہوں نے کہہ دیا کہ چلو دل میں سوچا کہ چلو ایک اور عمرہ کرلیتے ہیں طائف بھی دیکھ لیں گے ، اس لئے صبح ناشتے کے بعد ان کے ساتھ ھجرہ روڈ پر گاڑیوں میں بیٹھ گئے ، ہر ایک عمرہ زائر کو بیس ریال دینے کا کہا گیا تھا اور پھر مکہ سے طائف کا سفر شروع ہوگیا.
مکہ سے طائف جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ آج سے کم و بیش ساڑھے چودہ سو سال پہلے یہ کس طرح پہاڑ ہونگے ، اور اب جبکہ ٹرانسپورٹ بھی میسر ہے اور ایک سوتیس کی سپیڈ سے جاری ہے تو ہم چار گھنٹے میں پہنچ گئے ، دوسری طرف لق و دق صحرا جہاں پر درخت بھی نہ ہوں ، پانی بھی نہ ہوں اور صرف اللہ تعالی اور دین اسلام کی خاطر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے طائف کا سفر کیا. ابھی تو راستے میں بہت ساری جگہوں پر مارکیٹ بھی نظر آتی ہیں ، سعودی عرب میں ٹریفک لیفٹ ہینڈ ہے ، ہمارے ہاں رائٹ ہینڈ پر ڈرائیور بیٹھتا ہے جبکہ وہاں پر لیفٹ ہینڈ ہوتا ہے ، ایسی میں یہ تصور کہ طائف جا کر وہاں پر حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کیساتھ کیا سلوک کیا گیا ، بے شک حضرت محمد مصطفی رحمت عالمین ہیں ، انہوں نے کس شان سے جبرائیل سے فرمایا تھا کہ اگر طائف والے ابھی اسلام نہیں آئے تو خیر ہے ان کی اولاد میں سے لوگ اسلام لے آئیں گے ، اور یہی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت ہے کہ آج طائف سعودی عرب کے خوبصورت شہروں میں سے ایک شہر ہے ،ورنہ حضرت محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک لفظ کہنا تھااور جبرائیل امین نے طائف کو غرق کردینا تھالیکن رحمت عالم سرور کونین محمد مصطفی صلی اللہ والہ وسلم کی اپنی امت سے محبت تھی رحمت العالمین تھے تبھی انہوں نے جبرائیل امین کو طائف والوں کوکچھ نہ کہنے کاکہہ دیا .
انہی سوچوں میں طائف میںداخل ہوگئے ، جہاں پر شہداءکا مقبرہ تھاساتھ میں حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا مدرسہ تھا ، اسی طرح وہ باغ بھی موجود تھا جہاں پر حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پناہ لی تھی .وہاں پر دیکھا ، سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے زائرین کو لائی ہوئی تھی ، کوئی تصاویر لے رہاتھا ، کوئی ویڈیو بنا رہا تھا ، فلپائن ، اذبک ، اور کچھ یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان گروپوں کے ساتھ ان کے گائیڈ تھے جو انہیں بتا رہے تھے اور وہاں پر دعابھی کررہے تھے ، وہاں پر ایک چھوٹا سا بازار ہے ، جہاں پر عطر سے لیکر تسبیح ، ٹوپیاں، کھانے پینے کی اشیاءملتی ہیں اور کھجور بھی یہاں پر ملتی ہیں جس گاڑی میں ہم گئے تھے انہوں نے کہہ دیا کہ آپ آدھ گھنٹے بعد آجائیں ، بھارتی مسلمانوں کیساتھ وہاں پر جا کر دعا کی ، وہ مقام بھی دیکھاجہاں پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے زخمی کیا گیا تھا .عجیب سی کیفیت تھی ، ہم پیدائشی مسلمان ہیں ہم نے مسلمان ہونے کی کوئی قیمت ادا نہیں کی ، اس لئے ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ کتنی مشکلوں سے ہمیں دین اسلام پہنچا ہے. ہماری زبانوں پر لاالہ کے کلمے تو ہیں لیکن ہمارے اندر کی دنیا کہیں اور ہیں ، ہم دنیا کی رنگینیوں میں گم ہونے والے لوگ ہیں ، اللہ تعالی ہم سب کے حال پر رحم کرے.
چونکہبیشتر لوگ مکہ سے احرام باندھ کر آئے تھے اس لئے صرف دو رکعت پڑھ کر نیت کی اورپھر واپسی کا سفر شروع ہوا ، کچھ سفر کے بعد راستے میں ایک جگہ پر نماز پڑھی اور کچھ لوگوںنے کھانا کھایا ، وہاں پر کھانا بہترین ہوتا ہے لیکن وضو کے ڈر سے کہ پھر وضو کرنا پڑے گا اور واش روم جانا پڑے گا ھم نے راستے میںایک جنرل سٹور سے تین ریال میں لبن لی ، لبن پلاسٹک کے ڈبے میں بند لسی ہوتی ہے ، جس کی قیمت تین ریال ہے ، ہماری طرح کی لسی نہیں بلکہ یہ حقیقت میں ملاوٹ سے پاک ہوتی ہے اس لئے اسے پینے کے بعد کھانے کو دل نہیں کرتا ، دو قسم کی لبن یہاں پر جنرل سٹور میں ملتی ہیں ، ایک نمکین اور ایک سادہ ، ہم نے لبن نمکین والی لی ، بیچنے والا ایک بھارتی دکاندار تھا ، ا س نے دس ریال کے نوٹ میں تین ریال کاٹ کر سات ریال کے سکے دئیے، جو ہمیں عجیب سے لگے ، آج بھی سعودی عرب میں ایک ریال سے لیکر دوریال اور پانچ ریال کے سکے ملتے ہیں اور چھوٹے سے لیکر بڑے سے بڑے سٹور پر ہر کوئی اسے لیتا ہے ، ہماری پاکستان کی طرح نہیںکہ مارکیٹ میں سکے ہی نہیں لیکن انٹرنیشنل فراڈ کے طور پر ہمارے ہاں پٹرول کی قیمت ایک روپے تیس پیسے بڑھائی جاتی ہیں ، اب پچھتر پیسے کے سکے پاکستان میں دستیاب بھی نہیں ، اور پٹرول پمپ والے و جنرل سٹورز والے دیتے بھی نہیں اگر کہیں پر آنکھیں بندکرکے رقم مانگے کسی بڑے سٹور سے تو گاہک کو ایسی نظروں سے دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ شرمندگی ہونے لگتی ہے .خیر لبن پی کر واپسی کا سفر کا آغاز ہوگیا تو پتہ چلا کہ لسی اسے کہتے ہیں ہمارے ہاں تو کیمیکل اور پانی کے ملاپ سے جو چیز بنتی ہیں اسے ہم لسی سمجھتے ہیں ، ہمارے ہاں پشاورمیں سڑک کنارے گرمیوں میںلسی ، ساگ اور جوارکی روٹی فٹ پاتھ پر ملتی ہیں جو بیشتر لوگ دیہاتوں سے لاکر فروخت کرتے ہیں اور یہی خالص ہوتی ہیں باقی ہمارے ہاں پشاور میں بیشتر دودھ تو پنجاب سے آتا ہے ، پانی کی ملاوٹ تو خیر ہے یہاں پر کیمیکل کی بھر مار ہے اس لئے ہمارے ہاں کسی بھی چیز کا مزہ ہی نہیں.بھارتی مسلمانوں نے بہت کہاکہ ہمارے ساتھ کھانا کھالو لیکن جو مزہ آب زمزم اور لبن نے اس دن دیا تھا شائد ہی کبھی ایسا مزہ آئے. اس لئے ہم نے انکار کیا.
مغرب کی نماز تک ہم مکہ واپس پہنچ گئے ،اور پھر وہی عمرے کا عمل ، طواف ، دو رکعت نفل پھر سعی پھرنفل اور سرپر استرا پھیر کرکے ہوٹل میں بیٹھ گئے ، اس دن اتنی تھکن تھی کہ بوڑھے لوگوں کی طرح چل رہا تھا ، پاﺅں درد کررہے تھے لیکن ذہن میں یہی بات تھی کہ درد تو ختم ہو جائیں گے لیکن ثواب تو ملتا رہے گا اس لئے ان چیزوںکی پروا نہیں کی اور سارے اعمال پورے کئے اوررات گئے ہوٹل جا کر سو گیا. بھارتی مسلمانوں کے گروپ میں شامل ایک بزرگ سے بات ہوئی تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیاکہ میرے گھر والے کہہ رہے ہیںکہ تصاویر مکہ میں لے کر بھیج دیں تاکہ لوگوں کو پتہ چل سکے ان کی خواہش تھی کہ میں ان کے ساتھ جا کر طواف کعبہ کے دوران ان کی تصاویر لوں ، ہاں تو ان کی بزرگی کی وجہ سے کردی بطور صحافی ہر وقت تصاویر لینے اور ویڈیو بنانے کی عادت ہے لیکن اللہ تعالی کی مہربانی ان چیزوں کو مکمل طورپر نظر انداز کیا تھا اسی وجہ سے اللہ تعالی سے دعا کی کہ یہ بندہ بھی ناراض نہ ہوں اور اس کاہو جائے لیکن میں انکی تصاویر نہ لوں ، کیونکہ پھر مجھے اپنے آپ کاڈر تھا کہ میں بھی طواف کعبہ کے دوران تصاویر لوںگا ، انہوں نے اگلی صبح کاجو وقت مجھے دیا تھا میں اسی وقت ہوٹل آیا ایک گھنٹے تک انتظار کیالیکن وہ نہیں آئے اور پھر اللہ تعالی نے میری بات کی لاج رکھ لی ، بعدمیں انہوں نے کہا کہ میں آیا تھالیکن ملاقات نہیں ہوئی ، حالانکہ میں ہوٹل کے رسپشن پر بیٹھا تھا لیکن اللہ تعالی نے پردہ رکھ لیا ، اور یوں انہوں نے کسی اور سے تصاویر کھنچوا لی . اور میں اس عمل سے بچ گیا.
|