مجھے ہے حکم اذاں

ٹرانسجینڈر ایکٹ کے متعلق دوستوں کے درمینان مکالمہ

(راجہ محمد عتیق افسر)
اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات ، قرطبہ یونیورسٹی پشاور
03005930098, [email protected]

(حسن ، انس اور سعد سکول کے زمانے سے ہی دوست ہیں ۔ تینوں میں گہری دوستی ہے ۔ نوجوان ہیں اور ابھی تعلیم مکمل کیے کچھ ہی عرصہ ہوا ہے ۔ حسن انجنئیر ہے اور اپنی صلاحیت سے ملک کو تعمیر وترقی کی راہ پر چلانے کے خواب دیکھتارہا ہے اب ان کی تعبیر کے لیے کوشاں ہے ، انس نے سوشیالوجی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے اور اب معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے عملی طور پر ایک این جی او سے وابستہ ہے جبکہ سعد نے آئی ٹی میں ڈگری حاصل کی ہے اور وہ بھی اپنے شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہا ہے ۔ تینوں دوست ملکی صورتحال کے حولے سے متفکر ہیں اور اس سے نکلنے کا حل تلاش کر رہے ہیں )
انس: السلام علیکم و رحمۃ اللہ !
حسن: وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ! انس ! سعد کہاں ہے ؟ وہ کیوں نہیں آیا؟
انس: یار !وہ تو آج شہر سے باہر گیا ہواہے ۔ کچھ دیر سے ہی پہنچے گا۔ تم بتاؤ کیا افتاد آن پڑی جو ہمیں ہنگامی طور پہ بلا لیا؟
حسن : یار! بات ہی کچھ ایسی ہے ۔ کل ہم لوگ سیرت کانفرنس میں گئے تھے ۔ وہاں ایک پروفیسر صاحب نے سیرت پہ زبردست لیکچر دیا ۔ انہوں نے سیرت کے جو واقعات بیان کیے وہ سب میرے دل کو لگے ہیں بالخصوص قرآن کی وہ آیات جن میں نبی مہربانﷺ کو "مزمل" اور "مدثر" کہہ کر پکارا گیا ہے انہوں نے میرے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ میں رات بھر اضطراب کی کیفیت میں رہا۔تم دونوں کو بھی اسی سلسلے میں بلایا ہے۔
انس : ایسی کیا بات ہے ان آیات میں جو تم مضطرب ہو گئے ؟
حسن : یار ذرا غور تو کرو ! تمہیں بھی سمجھ آ جائے گا۔
انس: یار پہیلیاں تو نہ بھجواؤ۔صاف صاف بتاؤ بات کیا ہے ؟
حسن: دیکھو یار! اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا کہ اے کمبل اوڑھ کر لیٹنے والے! اٹھ اور لوگوں کو ڈرا۔
اگر اللہ کے رسول ﷺ جو معصوم عن الخطاء تھے ان کے لیے بھی یہ حکم ہے کہ لوگوں کو ڈرائیں تو پھر ہم کس طرح گھر بیٹھے جنت کما سکتے ہیں ؟ ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو اس بڑی تباہی سے بچائیں جس کی جانب ہم من حیث القوم بڑھ رہے ہیں ۔
انس: یار کھل کر بتاؤ تم کہنا کیا چاہ رہے ہو ؟
حسن : دیکھو! ہم مسلمان ہیں ۔ ایک مسلم ملک میں رہتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے بغاوت پہ مبنی قوانین بنائے جا رہے ہیں ۔ کیا ایسا کر کے ہم اللہ کے غضب کو دعوت نہیں دے رہے ؟
انس : اب ہمارے ماہر قانون نے کس قانون کو آڑے ہاتھوں لے لیا ہے ؟
حسن: کیا تم واقعی لا علم ہو ؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آج کل کیا ہو رہا ہے ؟
انس: کیا ہو گیا بھئی ؟
حسن : پہلے تو سود کے معاملے میں حکومت عدالت میں چلی گئی اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کو طول دے رہی ہے اور اب ٹرانس جینڈر ایکٹ کے ذریعے اللہ کے قہر کو للکار رہی ہے ۔
انس: اچھا! تو یہ بات ہے ۔ ارے بھئی یہ قانون تو خواجہ سراؤں کےحقوق کے لیے بنایا گیا ہے تمہیں اس سے کیا تکلیف ہے ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ کی اس مخلوق کو بھی جینے کا کوئی حق ملے ۔
حسن : میں نہ کہتا تھا کہ تم این جی او میں کام کرو گے تو مغرب کا رنگ خود پہ چڑھا بیٹھو گے ۔ اب دیکھو تو سہی تمہیں اس اخلاق باختگی میں کوئی قباحت نظر ہی نہیں آتی۔
انس: کس اخلاق باختگی کی بات کر رہے ہو میاں ؟ میری معلومات کے مطابق یہ قانون صرف خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق ہے ۔ اگر انہیں شہری حقوق دئیے جا رہے ہیں تو اس میں کیا حرج ہے ۔
حسن : خواجہ سراؤں کے حقوق سے ہمیں کوئی الرجی نہیں ہے ۔ قباحت یہ ہے کہ اس قانون کے مطابق ایک شخص کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنی جنس کا تعین خود کرے ۔ یعنی اگر کوئی مرد نادرا کے دفتر جا کر اپنی جنس عورت لکھوا دے تو اسے عورت ہی سمجھا جائے گا۔عورت ہونے کی حیثیت سے اسے انسانی حقوق بھی دیے جائیں گے ۔
انس: اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو پھر بھی کیا نقصان ہو جائے گا؟یہ اس شخص کا ذاتی معاملہ ہے ۔
حسن : یار! سمجھنے کی کو شش کرو ! یہ ذاتی معاملہ نہیں ہے ۔یہ ہم جنسی کو قانونی راستہ فراہم کیا گیا ہے ۔ کوئی بھی شخص اس قانون کی آڑ لے کر باآسانی یہ گناہ انجام دے سکتا ہے ۔خواجہ سراؤں کے کندھے پہ بندوق رکھ کر فائر کیا گیا ہے ۔ اصل ہدف اس گناہ کو عام کرنا ہے جس کی وجہ سے سیدنا لوط علیہ السلام کی قوم نیست و نابود کر دی گئی تھی ۔ سود کی اجازت دے کر پہلے ہی ہم اللہ اور اسکے رسول ﷺکے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور اب یہ قانون فطرت کا مذاق اڑا کر اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں ۔
انس: اب سمجھا ! بات تو بالکل درست ہے ۔ لیکن اب ہم کیا کر سکتے ہیں ۔ تمہیں یاد ہے ہم سود کے حوالے سے بھی مولانا صاحب کے پاس گئے تھے ۔ انہوں نے ہمیں کہا تھا کہ نماز روزے کی پابندی کرو یہ معاملات تمہارے کرنے کے نہیں ۔ اور اگلے روز جمعے کے خطبے میں بجائے سود پہ ملامت کرنے کے نوجوانوں کو وعظ و نصیحت کرتے رہے کہ وہ سیاسی معاملات سے خود کو دور رکھیں اور اپنی نماز اور روزے پہ دھیان دیں ۔
حسن : شکر ہے تمہیں تو بات سمجھ میں آئی ۔ مجھے اسی بات نے پریشان کر رکھا ہے کہ معاشرے کے صالح افراد بھی اگر ان معاملات پہ چپ سادھ لیں تو پھر قوم اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکتی اور وہ لوگ جو انفرادی طور پر صالح ہوں وہ سب سے پہلے عذاب کا شکار ہوتے ہیں ۔ ہمیں اپنی اور قوم کی فکر کرنا ہوگی اور قوم کو اس تباہی سے بچانا ہوگا جس کی طرف ہم خاموشی سے بڑھ رہے ہیں ۔
(اچانک دستک ہوتی ہے اور سعد کمرے میں داخل ہوتا ہے )
سعد: السلام علیکم و رحمۃ اللہ
حسن و انس: وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
حسن: کہاں رہ گئے تھے بھئی ؟
سعد : آج دفتری کام سے جانا پڑا ۔ آتے آتے دیر ہو گئی ۔ تم دونوں بتاؤ کیا حال احوال ہیں ؟ آ پ کی طرف سب خیریت ہے ناں ؟لگتا ہے قطر میں کھیلے جانے والے فیفا ورلڈ کپ کی افتاحی تقریب نے تمہیں پرجوش کر دیا ہے ۔ ؟
حسن : فٹ بال ورلڈ کپ میں جوش دلانے والی کیا بات ہو سکتی ہے ؟ افتتاحی تقاریب میں عموماً فحاشی و عریانی ہی ہوا کرتی ہے ۔
سعد : نہیں بھئی اس بار کایا ہی پلٹ گئی ہے ۔ پہلی بار ورلڈ کپ کسی مسلم ملک میں ہوا ہے ۔قطری حکومت نے تو حد ہی کر دی ۔ افتتاح قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا جو فٹ بال سے دلچسپی رکھنے والے ایک معذور کھلاڑی نے کی ۔ فٹبال سٹیڈیم میں نماز ادا کی گئی جس میں ہر خاص و عام نے شرکت کی ۔ تمام دنیا سے مسلم سکالرز اس سرگرمی کے لیے خصوصی طور پہ مدعو کیے گئے ہیں جو شائقین فٹبال کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کریں گے ۔ ہر مسجد میں آزان کے لیے خوش الحان قاری متعین کیے گئے ہیں ۔اور تمام مساجد کو اسلامی تہذیب و ثقافت کے میوزیم کے طور پہ پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے ۔
حسن: یہ تو کمال ہو گیا بھئی ۔ چلو کہیں سے تو کوئی اچھی خبر ملی ، کاش کہ یہ توفیق ہمارے حکمرانوں کو بھی نصیب ہوتی ۔ اللہ تعالی ٰاس کار خیر کے اچھے ثمرات سے نوازے ۔
سعد و انس: آمین
انس : یہ تو سب خوش آئند ہے البتہ ہمارے حسن صاحب اس ورلڈ کپ کے لیے پرجوش نہیں ہیں بلکہ ملکی حالات سے خائف ہیں اور اب یہ ہمیں بھی اپنے ساتھ پریشان کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔پہلے سووی معیشت اور اب ٹرانس جینڈر ایکٹ نے انہیں پریشان کر دیا ہے ۔ حقیقت میں بات ہے بھی پریشانی کی ۔ ہمیں اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے فکرمند ہونا چاہیے اور انہیں جہنم کے عذاب سے بچانے کی تدبیر کرنا چاہیے ۔
حسن : بالکل درست کہا ۔ اب اگر ہم جیسے تعلیم یافتہ لوگ برائی کو برائی نہیں سمجھیں گے اور اس کا راستہ نہیں روکیں گے تو پھر رب کو کیا منہہ دکھائیں گے۔
سعد: آپ دونوں درست فرماتے ہیں ۔ آج واپسی پہ میری گاڑی خراب ہو گئی ۔ میں نے سوچا پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے واپس چلے چلتے ہیں ۔ میں جس سیٹ پر بیٹھا اس کے برابر والی سیٹ پر ایک نوجوان آکر بیٹھ گیا ۔ نوجوان نے لڑکیوں کی طرح زلفیں رکھی تھیں ۔ جب گاڑی روانہ ہو گئی تو اس شخص نے مجھ سے بات چیت شروع کی ۔ اس کا انداز تکلم بھی نسوانی تھا ۔ مجھے اس پہ خواجہ سرا ہونے کا گمان گزرا۔ میں نے اس سے گفت و شنید شروع کر دی ۔ تعارف کے دوران اس نے مجھے بتایا کہ وہ مرد ہی تھا لیکن اسے عورت بننے کا شوق پیدا ہوا ۔ پہلے تو گھر والوں کے دباؤ سے وہ مردانگی پر قائم رہا لیکن اب ٹرانسجینڈر ایکٹ کے تحت اس نے نادرا میں جا کر خود کو خاتون لکھوا لیا ہے ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہمارے ملک میں ایسا بھی وقت آئے گا۔ یہ جان کر تمہاری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی کہ اب تک 30 ہزار سے زائد لوگ اس قانون کی مدد سے اپنی جنس بدل چکے ہیں ۔ حقیقت میں ہماری نسلیں تباہی کے دھانے پہ کھڑی ہیں ۔
انس: تم دونوں نے تو میری آنکھیں کھول دیں ۔ میں تو محض اسے خواجہ سراؤں کے تحفظ کا قانون سمجھ رہا تھا۔ یہ قانون تو زہر قاتل ہے ۔ یہ ہمارے قانون وراثت کو بھی متاثر کرے گا اور عملی زندگی میں بگاڑ کا باعث بھی بنے گا ۔لواطت اور ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا ۔ ہم تو دن بدن جاہلیت کو اپنا تے چلے جا رہے ہیں ۔ اب اس جاہلیت جدیدہ کے خلاف بند باندھنا ہوگا۔
حسن : دوستو! اسی مسئلے پہ غور و غوص کے لیے میں نے تم دونوں کو بھی بلایا تھا ۔ اب بتاؤ ہم اس صورتحال میں کیا کر سکتے ہیں ۔ سیاستدانوں نے تو یہ مسئلہ پیدا کیا ہے ان سے توقع رکھنا عبث ہے ۔ علمائے کرام بھی منبر و محراب تک محدود ہو گئے ہیں ان کی جانب سے بھی کوئی رد عمل نہیں آرہا ۔ غفلت میں ڈوبی قوم کو جگائیں کیسے ؟
سعد: سہاروں کی طرف دیکھنا چھوڑ دو ۔ ہم سے ہماری بساط کے مطابق عمل کی پوچھ ہو گی ۔ اپنی صلاحیت اور استطاعت کے مطابق اس طوفان بدتمیزی کے خلاف بندباندھنے کی کو شش کرتے ہیں ۔ کم از کم اپنے رب کے حضور سرخ رو تو ہونگے ۔
حسن : کوئی لائحہ عمل ہے تمہارے پاس؟
سعد : جی ہاں ۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ دور ابلاغیات کا ہے ، کمپیوٹر کا ہے ۔ اس دور میں اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ اگر برائی کی طاقتیں اس کے بل بوتے پربرائی کو پروان چڑھا رہی ہیں تو انہی جدید وسائل کو ہم نیکی کی ترویج میں کیوں استعمال نہ کریں ۔
انس: اس سلسلے میں ہم کیا کر سکتے ہیں ؟
سعد: ہم سب لوگ فیس بک ، واٹس اپ ، ٹویٹر وغیرہ تو استعمال کر ہی رہے ہیں ۔ ان کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے آگاہی میسیج چلاتے ہیں اور انہیں اتنا عام کرنا ہے کہ یہ ٹرینڈ بن جائے۔
حسن : کیا اس سے کوئی فرق پڑے گا؟
سعد : جب ایک چیز عوامی مطالبے کا روپ دھار لے گی تو اس سے سماجی دباؤ جنم لے گا۔ سیاست دان اس مسئلے کے حل کے لیے دوڑیں گے ۔ تب ضرور کوئی حل نکلے گا۔
حسن اور انس: یہ ہوئی ناں بات۔
سعد: بات یہیں ختم نہیں ہوئی ۔یہ عمل مسلسل جدوجہد کا متقاضی ہے ۔ ہم نے سوشل میڈیا کے ذریعے سیاستدانوں ، وکلاء ، طلبہ ، اساتذہ ، علماء اور زندگی کے دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس طرف متوجہ کرنا ہے ۔ ہر شعبے میں اچھے اور موثر لوگ موجود ہوتے ہیں ان سے معاونت طلب کریں۔ ان قوانین سے متعلق ہر ادارے اور شخصیت کو خطوط اور ای میل ارسال کریں ۔ اس سے بھی معاشرتی دباؤ بڑھاتا ہے ۔ اگر آپ کا معاشرتی دائرہ وسیع نہیں ہے تو آپ اجرتاً بھی اپنا پیغام سینکڑوں ، ہزاروں اور لاکھوں افراد تک پہنچا سکتے ہیں ۔
حسن و انس : ہم ابھی سے اس کام کا آغاز کرتے ہیں ۔ ان شاء اللہ ۔
سعد : اگر ہم دل جمعی سے کام کریں گے تو کامیابی ان شاء اللہ ہماری ہوگی ۔
حسن : چلو میری پریشانی کسی حد تک کم ہوئی اب گھروں کو چلتے ہیں اور اپنے اپنے مورچے سنبھالتے ہیں ۔
سعد اور انس: ٹھیک ہے بھئی اللہ حافظ
حسن : اللہ حافظ
Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 91 Articles with 113098 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More