رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا حضرت حمزہ سے
بہت پیار تھا ۔ جنگ احد حضرت حمزہ کی شہادت پر رسول اکرم نے 70 سے زیادہ
مرتبہ جنازہ پڑھایا ۔ ہر شہید کے جنازہ کے ساتھ حضرت حمزہ کا جنازہ پڑھا
جاتا
حضرت حمزہؓ کا قاتل وحشی بن حرب تھا۔
وحشی نے جنگ طائف کے بعد اسلام قبول کیا۔
رسول اکرم صلی اللہ کی حدمت میں حاظر ہوا ۔ وحشی کو دیکھ کر صحابہ اکرم
جلال میں آ گئے اور اپنی تلوارے نکال کر وحشی پر حملہ کی نیت سے بڑھے لیکن
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ اکرام کو رکنے کا حکم دیا اور بتایا
وحشی نے اسلام قبول کر لیا ہے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وحشی سے مخاطب ہوئے اور ارشاد مرمایا بتاو تم
نے میرے چچا کو کیسے قتل کیا
وحشی بولا :- میں جُبیر بن مُطْعم کا غلام تھا۔ اور ان کا چچا طُعیمہ بن
عِدِی جنگ بدر میں مارا گیا تھا۔ جب قریش جنگ احد پر روانہ ہونے لگے تو
جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا : اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہؓ
کو میرے چچا کے بدلے قتل کردو تو تم آزاد ہو۔
میں اس پیش کش کے نتیجے میں لوگوں کے ساتھ روانہ ہوا۔ میں حبشی آدمی
تھا۔اور حبشیوں کی طرح نیزہ پھینکنے میں ماہر تھا۔ نشانہ کم ہی چوُکتا تھا۔
جب لوگو ں میں جنگ چھڑ گئی تو میں نکل کر حمزہ کو دیکھنے لگا۔ میری نگاہیں
انہی کی تلاش میں تھیں۔ بالآخر میں نے انہیں لوگوں کی پہنائی میں دیکھ لیا۔
وہ خاکستری اونٹ معلوم ہورہے تھے۔ لوگوں کو درہم برہم کرتے جارہے تھے، ان
کے سامنے کوئی چیز ٹک نہیں پاتی تھی۔
واللہ ! میں ابھی ان کے ارادے سے تیار ہی ہورہا تھا اور ایک درخت یا پتھر
کی اوٹ میں چھپ کر انہیں قریب آنے کا موقع دیناچاہتا تھا کہ اتنے میں سباع
بن عبد العزیٰ مجھ سے آگے بڑھ کر ان کے پاس جاپہنچا۔ حمزہؓ نے اسے للکارتے
ہوئے کہا ! یہ لے۔ اور ساتھ ہی اس زور کی تلوار ماری کہ گویا اس کا سر تھا
ہی نہیں۔
وحشی نے مزید کہا اس کے ساتھ ہی میں نے اپنا نیزہ تولا اور جب میری مرضی کے
مطابق ہوگیا تو ان کی طرف اچھال دیا۔ نیزہ ناف کے نیچے لگا اور دونوں پاؤں
کے بیچ سے پار ہو گیا۔ انہوں نے میری طرف اٹھنا چاہا۔ لیکن مغلوب ہوگئے میں
نے ان کو اسی حال میں چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ اس کے بعد میں نے ان
کے پاس جاکر اپنا نیزہ نکال لیا۔ اور لشکر میں واپس جاکر بیٹھ گیا۔ )میرا
کام ہوچکا تھا ( مجھے ان کے سوا کسی اور سے سروکار نہ تھا۔ میں نے انہیں
محض اس لیے قتل کیا تھا کہ آزاد ہو جاؤں۔ چنانچہ جب مکہ آیا تو مجھے آزادی
مل گئی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وحشی سے اپنے چچا کی شہادت کا واقع سنا
تو رسول اکرم کی آنکھیں نم اور چہرہ مبارک عضہ سے لال ہو گیا.
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحشی سے کہا میں نے تمہیں اپنے چچا کا خون
معاف کیا لیکن تم میرے آنکھوں کے سامنے مت آیا کرو مجھے اپنے چچا یاد آ
جاتے ہیں ۔
ایک ایسا شخص جسے دیکھنا بھی پسند نہیں اسے صرف اللہ کی رضا کے لئے معاف کر
دیا
میرے فیسبک کے غیور مسلمانوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے مسلمان بھائیوں پر
مشرک کافر ، واجب القتل کے فتوے لگانے کی بجائے اپنے نبی کی زندگی کا
مطالعہ کرو ۔
اسلام کی اصل روح اسواءحسنہ پر عمل کرنا ہے
|