وہ دانائے سُبُل مولائے کُل ختم الرُسُل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں ، وہی طہٰ
رسول اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ درحقیقت انسانی کمالات، اخلاقی برتری اور عملی
حکمت کا وہ حسین امتزاج ہے جس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ قرآن
کریم نے نبی کریم ﷺ کو "رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ" (الأنبياء: 107) کے خطاب
سے نوازا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کی بعثت پوری انسانیت کے لیے خیر و برکت
کا باعث بنی۔ آپ ﷺ نے نہ صرف عرب کے جاہل اور بدوی معاشرے کو تہذیب و تمدن
سے روشناس کیا بلکہ انسانی زندگی کے ہر پہلو میں انقلابی تبدیلیاں برپا کیں۔
اس عظیم انقلاب کی بنیاد حکمت، صبر، استقامت اور اعلیٰ اخلاق پر رکھی گئی
تھی، جن کا تذکرہ خود قرآن مجید میں موجود ہے: "يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ
وَالْحِكْمَةَ" (البقرة: 129)۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے نبی کریم ﷺ کی حکمت عملی کو تاریخ کا ایک
منفرد باب قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ "رسول اکرم ﷺ نے اسلامی انقلاب کی
بنیاد فرد کی اصلاح، سماجی تعلقات کی درستی، ریاستی ڈھانچے کی مضبوطی اور
فکری تربیت پر رکھی، یہی وجہ تھی کہ چند دہائیوں میں ایک منتشر قوم، تاریخ
کی سب سے بڑی تمدنی اور روحانی طاقت بن گئی" (مودودی، تفہیمات، جلد 1)۔
تاریخ شاہد ہے کہ نبی کریم ﷺ کی حکمتِ دعوت تدریج، بصیرت اور دور اندیشی پر
مبنی تھی۔ ابتدا میں آپ نے خاموشی کے ساتھ قریبی رشتہ داروں کو اسلام کی
دعوت دی، جیسا کہ حضرت علی، حضرت خدیجہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ
عنہم اولین ایمان لانے والوں میں شامل تھے۔ جب مکہ میں ظلم و ستم اپنی
انتہا کو پہنچا تو آپ ﷺ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی، تاکہ کمزور
مسلمان ایک محفوظ پناہ گاہ حاصل کر سکیں۔ یہ فیصلہ صرف ہجرت نہیں بلکہ ایک
عظیم حکمتِ عملی تھی جس نے بعد میں اسلام کے عالمی پھیلاؤ کے لیے راہیں
ہموار کیں۔
امام ابن تیمیہؒ اپنی تصنیف "السِّیاسَةُ الشَّرعِیَّة" میں بیان کرتے ہیں
کہ "رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں ہر اقدام ایک منظم اور باقاعدہ حکمت عملی کا
نتیجہ تھا، چاہے وہ قریش کے ساتھ صلح حدیبیہ ہو یا مہاجرین و انصار کے
مابین مواخات، ہر فیصلہ ایک طویل مدتی کامیابی کے لیے کیا گیا" (ابن تیمیہ،
السیاسة الشرعیة، ص 45)۔ یہی اصول ہمیں مدینہ میں نظر آتا ہے، جہاں مسجد
نبوی کو نہ صرف عبادت گاہ بلکہ ایک علمی و تربیتی مرکز کے طور پر قائم کیا
گیا، جہاں اصحاب صفہ جیسے بلند پایہ علمی و دینی شخصیات کی تربیت کی گئی۔
مدینہ میں نبی کریم ﷺ کی سیاسی بصیرت اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ آپ ﷺ نے
مختلف قبائل کے ساتھ معاہدات کیے، جن میں یہودی قبائل کے ساتھ میثاق مدینہ
ایک نمایاں مثال ہے۔ اس معاہدے کے تحت مدینہ کو ایک مشترکہ ریاست کے طور پر
منظم کیا گیا جہاں تمام شہریوں کے حقوق و فرائض متعین کیے گئے۔ یہ اقدام
درحقیقت جدید آئینی اور دستوری اصولوں کی ابتدائی شکل تھی، جس نے آگے چل کر
اسلامی ریاست کی بنیاد فراہم کی۔
ابن خلدونؒ اپنی مشہور تصنیف "المقدمہ" میں لکھتے ہیں کہ "نبی اکرم ﷺ کی
حکمتِ عملی اس حقیقت پر مبنی تھی کہ کوئی بھی انقلاب جذباتی نعروں سے نہیں
بلکہ تدبر، صبر اور سیاسی حکمت کے ذریعے کامیاب ہوتا ہے، اور یہی وہ اصول
تھا جس پر اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی" (ابن خلدون، المقدمة، ص 255)۔
نبی کریم ﷺ کی قیادت میں ہونے والے غزوات میں بھی حکمت اور بصیرت کی جھلک
نمایاں نظر آتی ہے۔ غزوہ بدر میں قریش کے قیدیوں کو فدیہ کے بدلے تعلیم
دینے کی شرط، غزوہ احد میں احد پہاڑ پر تیر اندازوں کی تعیناتی، اور غزوہ
خندق میں حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے پر مدینہ کے گرد خندق کھودنا، یہ تمام
اقدامات اعلیٰ درجے کی فوجی اور سیاسی حکمت کا مظہر ہیں۔
صلح حدیبیہ کا واقعہ اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مصلحت اور
تدبیر کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ اس معاہدے میں بظاہر مسلمانوں کو دبنا پڑا،
یہاں تک کہ معاہدے میں بعض شرائط ایسی تھیں جو صحابہ کرام کے لیے تکلیف دہ
محسوس ہوئیں، لیکن نبی اکرم ﷺ کی دور اندیشی نے اس معاہدے کو فتح مکہ کا
پیش خیمہ بنا دیا۔ مشہور عربی فقیہ امام شاطبیؒ اپنی کتاب "الموافقات" میں
لکھتے ہیں کہ "نبی کریم ﷺ نے صلح حدیبیہ میں وقتی پسپائی قبول کر کے ایک
عظیم اسٹریٹجک کامیابی حاصل کی، اور یہ ثابت کیا کہ سیاست میں وقتی نقصان
بھی طویل مدتی کامیابی کا ذریعہ بن سکتا ہے" (شاطبی، الموافقات، جلد 2، ص
75)۔
فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ نے جو رحم دلی اور عفو و درگزر کا مظاہرہ کیا، وہ
اسلامی اخلاقیات کا ایک بلند ترین نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "لَا
تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ" (آل عمران: 159)، یعنی آج کے دن تم پر
کوئی گرفت نہیں، اور اس کے ساتھ عام معافی کا اعلان کیا۔ اس حکمت عملی نے
قریش کے دلوں کو موہ لیا اور عرب کے بڑے بڑے سرداروں نے اسلام قبول کر لیا۔
رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کا ہر پہلو حکمت، بصیرت اور مصلحت سے لبریز تھا۔
یہی وجہ ہے کہ 23 سال کے مختصر عرصے میں ایک منتشر قوم کو ایک متحدہ
نظریاتی امت میں تبدیل کر دیا گیا۔ مولانا مودودیؒ نے اس حقیقت کو یوں بیان
کیا کہ "نبی کریم ﷺ نے انقلاب کی وہ مثالی شکل پیش کی جس میں نہ صرف مادی
وسائل کی تنظیم تھی بلکہ اخلاقی و روحانی بالیدگی بھی اپنی معراج پر تھی،
یہی وجہ ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی ایک دائمی حقیقت بن گئی" (مودودی،
خلافت و ملوکیت، ص 120)۔
یہ تمام حقائق اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا ہر قول و فعل
نہ صرف الٰہی حکمت پر مبنی تھا بلکہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی فکری، سماجی
اور سیاسی تبدیلی کا عملی مظہر بھی تھا۔ آج اگر امت مسلمہ اس عظیم حکمت و
بصیرت سے سبق لے تو دنیا میں ایک بار پھر اسلامی اخلاقیات اور تمدن کی
روشنی پھیل سکتی ہے۔
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ
عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
|