عشروں میں کبھی ایک بار ایسا
ہوتا ہے کہ بھارت سرکار کو اپنی کسی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے اور اِس سے
بھی بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ وہ اُس غلطی کا نام و نشان مٹانے کے بارے میں
سوچتی ہے! بولنے کے معاملے میں بھارتی قیادت چاہے کتنی ہی لا پروا واقع
ہوئی ہو، زبان کے معاملے میں اُس کے حواس خاصے بحال ہیں! نئی دہلی کے
بُزرجمہروں کو اچانک یاد آگیا ہے کہ سرکاری خط و کتابت اور دستاویزات میں
خالص ہندی کا استعمال کسی بھی طور ”چانکیہ بُدّھی“ کا اچھا استعمال نہیں
اور یہ کہ خالص ہندی کی خوراک نے معاشرے کا نفسیاتی ہاضمہ خاصا بگاڑ دیا ہے!
اب ہندی خط و کتابت میں اردو، انگریزی اور علاقائی زبانوں کے الفاظ استعمال
کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے! اے کاش بھارتی قیادت کو کشمیر کے معاملے میں
بھی اپنی حماقت کا اِسی طرح احساس ہو جائے!
دفتری کاروائی میں سنسکرت آمیز ہندی کے استعمال سے آسانیاں تو کیا پیدا
ہوتیں، رہی سہی آسانی کا بھی بیڑا غرق ہوگیا! سرکاری سطح پر متعارف کرائی
جانے والی ہندی ایسی ثقیل ہے کہ سنسکرت کے عالم بھی سرکاری دستاویزات پڑھ
کر ”شَبد کوش“ (لغت) کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں!
بھارت میں عشروں تک سرکاری سطح پر کوشش کی جاتی رہی کہ انگریزی الفاظ کے
مُتبادل ہندی لفظ تلاش کئے جائیں۔ بُھوسے کے ڈھیر میں سُوئی ڈھونڈنے سے
مماثل یہ کوشش بیشتر مواقع پر شدید ناکامی سے دوچار ہوئی۔ اور ظاہر ہے کہ
یہ تو ہونا ہی تھا! چھوٹے سے پیالے میں پورے مٹکے کا پانی بھلا کیسے سَما
سکتا ہے؟ مگر اہل ستم بھی کہاں ماننے والے تھے؟ سال بھر کے بچے کے کپڑے چھ
سال کے بچے کو ”پہنائے“ جائیں تو؟ بس کچھ ایسا ہی معاملہ انگریزی کے الفاظ
کو سنسکرت آمیز ہندی الفاظ کا لباس پہنانے کا بھی تھا! اِن کوششوں کے ویسے
ہی مضحکہ خیز نتائج برآمد ہوئے جو ایسی کوششوں کے نتیجے میں برآمد ہوا کرتے
ہیں! دفاتر کی رسمی خط و کتابت میں ہندی رائج کئے جانے کے بعد یہ ہوا کہ
تماشوں نے دفاتر کا رستہ دیکھ لیا! کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی کو
کامیابی پر ہندی میں مبارک باد دی جاتی تو شک میں پڑ جاتا کہ کہیں طنز تو
نہیں فرمایا جارہا! بہت سے سرکاری ملازمین کو دفتر کی طرف سے کوئی لیٹر دیا
جاتا اور اُنہیں دس دِن بعد دوسروں کی زبانی معلوم ہو پاتا کہ اُن کا تو
پروموشن ہوگیا ہے! یہ بھی عجب تماشا تھا کہ بندہ ترقی کرلیتا تھا مگر زبان
کی پس ماندگی اُسے بے خبر رکھتی تھی! کبھی کبھی کوئی لیٹر ملنے پر ملازمین
کو انجانی سی خوشی ہوتی تھی اور تین دِن بعد سپرنٹنڈنٹ بُلاکر سرزنش کرتا
تھا کہ فٹافٹ ”ایپولوجی“ ٹائپ کرو کیونکہ تمہیں نا اہلی پر وارننگ دی گئی
ہے!
1976 میں حکومت کو یہ ہدایت جاری کرنا پڑی کہ دفتری خط و کتاب میں اِس بات
کا خاصل خیال رکھا جائے کہ پڑھنے والے کی سمجھ میں بھی آئے! کاش ایسی ہی
کوئی ہدایت بھارت سرکار کی پالیسیوں کے حوالے سے بھی جاری کردی جاتی!
حکومت نے ہندی کو عام کرنے کے لیے عوام کو چند ایک معاملات میں رعایت بھی
دے رکھی تھی۔ مثلاً ایک زمانے میں اُصول تھا کہ ہندی میں ٹیلی گرام بھیجنے
پر چارجز میں 40 فیصد تک رعایت ملتی تھی۔ مگر جسے ٹیلی گرام ملتا تھا اُسے
پیغام سمجھنے کے لیے ہندی جاننے والے کو ڈھونڈنے پر یہ 40 فیصد بچت خرچ
کرنا پڑتی تھی!
بعض معاملات اُتنے پیچیدہ نہیں تھے جتنے اُن کے نام تھے۔ ڈرائیونگ سیکھنے
والوں کے لیے اسٹیئرنگ وھیل کنٹرول کرنا اُتنا مشکل نہ تھا جتنا مشکل اُس
کا ہندی نام ”انکش چَکر“ یاد رکھنا تھا!
کورٹ کچہری میں بے مثال عزت آبرو رکھنے والے وکیلوں کو جب ”بھاڑو“ کہا جانے
لگا تو اُنہیں بہت بُرا لگا۔ تجربہ کار اور بڑے وکیل کو ”مہا بھاڑو“ کی
”اُپادھی“ ملی۔ یہ وہی بات ہوئی کہ کمرے میں پھیری جانے والی جھاڑو کو
دیواریں صاف کرنے کے لیے ڈنڈے میں لگانے کے بعد ”مہا جھاڑو“ قرار دیا جائے!
شکر ہے کہ بڑی سالی کے شوہر کو ”مہا ساڑو“ کا خطاب نہیں دیا گیا! ”مَہا“ کا
سابقہ لگانے سے بھاڑو، جھاڑو اور ساڑو کی اصلیت کہاں بدلتی ہے! ہم بھاڑو،
جھاڑو اور ساڑو کے سلسلے کو یہیں روکتے ہیں کیونکہ آگے چند عجیب ہم قافیہ
الفاظ آسکتے ہیں۔
اچھے خاصے ریلوے اسٹیشن کو ”بَھک بَھک اڈّا“ قرار دیا گیا تو لوگ مہمانوں
کے استقبال کے لیے وہاں جانے سے گریز کرنے لگے! اچھا تھا کہ پلیٹ فارم کو
”تھالی تختہ“ قرار دیکر اُس کا بھی دھڑن تختہ کردیا جاتا!
شہروں میں چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کو جب ہندی کا جامہ پہنایا گیا تو جن
اور بھوت جیسی گاڑیوں کے بطن سے ”پری“ برآمد ہوئی، یعنی ٹرانسپورٹیشن سروس
ہندی کے کوچے میں پہنچ کر ”پری وَہَن سیوا“ کہلائی!
روز مرہ گفتگو میں ہندی کا بے جا استعمال عجیب گل کھلاتا تھا۔ کوئی مر جائے
تو ٹیلی فون پر اطلاع دیجیے کہ ”نِدَھن“ ہوگیا ہے۔ اب فریق ثانی اِس لفظ
میں دَھن کو موجود پاکر یہ سمجھتا تھا کہ جن کا ذکر کیا گیا ہے وہ شاید
دیوالیہ ہوگئے ہیں! ا”اوسان“ کہیے تب بھی سُننے والے کے اوسان خطا ہو جاتے
تھے۔ ”مَہا نِدرا“ (عظیم نیند یعنی موت) بھی سمجھ میں نہ آتی تھی۔ بعض سادہ
لوح ”دیہانت“ (دیہہ یعنی جسم اور انت یعنی خاتمہ) جیسا سادہ لفظ بھی سمجھنے
سے قاصر رہتے تھے۔ جب بھارت میں بول چال کی زبان کو بروئے کار لاتے ہوئے
کہا جاتا تھا کہ فلاں صاحب ”گزر“ گئے ہیں تب سمجھ میں آتا تھا کہ موصوف
انتقال فرماگئے ہیں! اِس دُنیا میں آنا شاید اُتنا پیچیدہ نہ تھا جتنا اِس
دُنیا سے جانے کے عمل کو ہندی میں بیان کرنا!
ولادت کو ”جنم“ ہی رہنے دیا گیا کیونکہ اِسے اُتپتّی (پیداوار) قرار دینے
میں خاصی آپتّی (زحمت) کا سامنا ہوسکتا تھا! ویسے بھارت میں جس رفتار سے
آبادی سے بڑھتی ہے اُسے دیکھتے ہوئے تولید کو جنم کے بجائے ”اُتپادن“
(پیداوار) کہنا زیادہ موزوں ہوگا!
سرکاری ہسپتال پہنچ کر ”دَردی“ (مریض) کے لیے بے دردی یعنی ڈاکٹر ڈھونڈنے
میں خاصا وقت لگتا تھا کیونکہ تین چار مرتبہ بھی ”چکِتسَک“ (معالج) کہیے تو
خود ڈاکٹر یہ نہیں سمجھ پاتے تھے کہ اُنہیں یاد کیا جارہا ہے!
ہندی نے سب سے زیادہ گل تعلیم کے شعبے میں کھلائے ہیں۔ طلباءاور طالبات کو
ہندی کے جھٹکے اِس قدر دیئے گئے کہ اب اُن کے ذہن کچھ سوچنے اور اعصاب کچھ
جھیلنے کے قابل ہی نہ رہے۔ معاشرتی عُلوم کے سادہ الفاظ بھی ثقیل ہندی میں
ملفوف ہوکر ایسا تاثر پیدا کرتے ہیں کہ ساتویں آٹھویں کا طالب علم جب با
آواز بلند سبق یاد کرتا ہے تو گھر بھر کے لوگ خواہ مخواہ احترام سے سُننے
پر مجبور ہو جاتے ہیں!
ممبئی میں بنائی جانے والی فِلموں میں ہندی کے بڑھتے ہوئے استعمال نے بھی
لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ اچھے خاصے رومانی مناظر ہندی الفاظ کی
کثرت سے ایسا ماحول پیدا کردیتے ہیں کہ لگتا ہے ہیرو موقع غنیمت جان کر
ہیروئن کو اُس کے سورگ واسی پتا جی کا پُرسہ دے رہا ہے!
مزاحیہ گانے میں ہندی الفاظ ضرورت سے زیادہ ڈال دیئے جائیں تو سُننے والا
ہنسانے والی دُھن سُن کر بھی رونے لگتا ہے! اور بعض سنجیدہ گانوں میں ثقیل
ہندی الفاظ اِنسان کو ہنسنے پر مجبور کردیتے ہیں! نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہندی
کے (ظاہر ہے) غیر ضروری استعمال نے بیشتر فِلموں کو فل ٹائم کامیڈی کی
کیٹیگری میں رکھ دیا ہے!
بھارت میں زبانوں اور بولیوں کا معاملہ ایسا اُلجھا ہوا ہے کہ چُوں چُوں کا
مُربّہ بھی دیکھے تو شرما جائے! جس طرح مُلک بہت پھیلا ہوا ہے اُسی طرح
زبانیں اور بولیاں بھی کچھ زیادہ ہی پھیل گئی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کو اپنی
بات سمجھانے کی کوشش کرتے کرتے زبانوں کی بُھول بُھلیّاں میں کھوگئے ہیں!
جنوب والے شمال کے لوگوں کی بات سمجھ نہیں پاتے۔ اور شمال والوں کے لیے تو
خیر جنوب کی بات کو سمجھنا آسمان سے تارے توڑ لانے سے بھی زیادہ مشکل ہے!
وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا، وزیر داخلہ پی چدمبرم اور وزیر دفاع اے کے
انٹونی کا تعلق جنوبی بھارت سے ہے جبکہ وزیر خزانہ پرنب مکھرجی مغربی بنگال
کے ہیں۔ ان سب کو ہندی نہیں آتی۔ وہ انگریزی میں یا پھر اپنی مادری زبان
میں بات کرتے ہیں۔ پرنب مکھرجی اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ جب بھی ہندی بولتے
ہیں تو کہنا کچھ چاہتے ہیں اور بول کچھ جاتے ہیں! کاش وہ کشمیر کے حوالے
کبھی ہندی میں کُچھ ایسا کہیں جو ”پالیسی ڈیپارچر“ ہو اور ہمارا بھلا ہو
جائے!
بھارت بھر میں رنگ اور نسل کا فرق بھی غیر معمولی ہے، مگر انفرادیت کے
معاملے میں کوئی بھی خصوصیت زبانوں سے مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ایک زمین کی بات
کرتا ہے تو دوسرا اُسے آسمان کی بات سمجھ کر گردن ہلانے لگتا ہے! بھارت کی
دھرتی کو بعض زبانیں ایسی عطا ہوئی ہیں کہ بھارت واسیوں کے ساتھ ساتھ پورے
روئے ارض کے مکینوں کو فخر ہونا چاہیے۔ ملیالم (ملباری) ہی کی مثال لیجیے۔
اگر کیرالہ سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی آبائی یا مادری زبان میں بات کر
رہے ہوں تو اُن کی باتیں سُن کر آپ کو ایسا محسوس ہوگا جیسے چند بڑے پتھر
ڈال کر کنستر کو ہلایا جارہا ہے! اگر کیرالہ کا کوئی گھرانہ یعنی چند
ملباری آپ کے پڑوس میں آ بسیں اور آپ کئی برس تک اُن کی باتیں سُنتے رہیں
تب بھی ”یاٹِر گِلّے“ سے زیادہ کچھ بھی سمجھ نہیں آئے گا! |