ہر مُلک اپنی فِلم انڈسٹری کے
بارے میں طرح طرح کے بُلند بانگ دعوے کرتا ہے۔ بیشتر دعوے یہ ثابت کرنے کی
کوشش کے سوا کچھ نہیں ہوتے کہ فِلم انڈسٹری جادو نگری ہے۔ فِلم انڈسٹری کی
باتیں کرنے والے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فِلمی دُنیا کے لوگ
جادوگر ہیں یا کِسی اور سیّارے سے آئے ہیں۔ تحقیق، بلکہ تحقیقات کی روشنی
میں اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ دُنیا بھر میں اگر کوئی فِلم انڈسٹری واقعی
جادو نگری ہے تو وہ لاہور میں ہے! دُنیا بھر میں فِلمیں بنائی جاتی ہیں،
ہمارے ہاں بن جاتی ہیں! اور رہا فِلمی دنیا کے لوگوں کو کسی اور سیّارے کی
مخلوق ظاہر کرنے کا معاملہ تو کوئی ذرا پورے یقین سے یہ تو بتاکر دِکھائے
کہ ہماری فِلموں میں کام کرنے والے کِس سیّارے کی مخلوق ہیں! دُنیا بھر میں
فِلم انڈسٹری فنکار پیدا کرتی ہے، ہمارے ہاں چند سَر پھرے مل کر فِلم
انڈسٹری کو معرض وجود میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں! اِس پر بھی اگر اُنہیں
کِسی اور سیّارے کی مخلوق نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے!
بعض لوگ مُعترض ہیں کہ پاکستان میں فِلمیں بنانے کے کام کو انڈسٹری نہیں
کہا جاسکتا کیونکہ یہ شعبہ انڈسٹری کے معیارات پر پورا نہیں اترتا۔ ہم اِس
سوچ سے متفق نہیں۔ انڈسٹری کا کیا مطلب ہے؟ ایک طے شدہ معیار کے مطابق
پیداوار! اِس بُنیادی معیار پر تو ہماری بیشتر فِلمیں پوری اُترتی ہیں یعنی
ایک ہی طرح کی فِلموں کی پروڈکشن ہو رہی ہے! معیار کو ایک ہی سطح پر برقرار
رکھنے کا ہنر اب تک ہالی وڈ اور بالی وڈ جیسی بڑی فِلم انڈسٹریز کے لوگ بھی
نہیں سیکھ پائے ہیں!
ہالی وڈ اور بالی وڈ میں بڑے دعوے کئے جاتے ہیں کہ کم بجٹ میں بھی معیاری
فِلم بنائی جاسکتی ہے۔ کئی تجرباتی فِلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ بالی وڈ میں
چند برسوں کے دوران ایسی فِلمیں بھی بنائی گئی ہیں جن میں آٹھ دس کہانیاں
تھیں۔ اِن تمام معاملات میں بھی ہم بازی لے گئے ہیں۔ بجٹ کا معاملہ تو یہ
ہے کہ بالی وڈ میں ایک بڑا ہیرو جتنا معاوضہ لیتا ہے اُتنے میں ہماری تین
چار فِلمیں بن جاتی ہیں! اگر یہ کفایت شعاری نہیں تو کیا ہے؟ اور رہا تجربے
کا سوال، تو عرض ہے کہ ہالی وڈ اور بالی وڈ کے فِلم میکرز رات دن فِلم
میکنگ کی تکنیک کو روتے رہتے ہیں مگر اُن کا ذہن اب تک اِس نکتے کی طرف گیا
ہی نہیں کہ کسی بھی نوعیت اور سطح کی تکنیک کے بغیر بھی فِلم بنائی جاسکتی
ہے! بس ذرا سی جراتِ رندانہ درکار ہوتی ہے یعنی ذہن کو بروئے کار لائے بغیر
فِلم بنا ڈالیے!
بڑی فِلم انڈسٹریز کے لوگ timeless فِلمیں بنانے کے دعوے کرتے ہیں۔ سائنس
دان کہتے ہیں کہ وقت کی کوئی حقیقت نہیں۔ ایسے میں اگر وہ فِلم بنا بھی لی
تو کیا کمال کیا جس کا وقت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ مزا تو جب ہے کہ mind جیسی
حقیقت کے ہوتے ہوئے کوئی ہماری طرح mindless فِلمیں بناکر دِکھائے!
ہمیں تو اِس بات پر حیرت ہے کہ ایک فِلم میں دس کہانیاں پیش کرنے کا خیال
بالی وڈ والوں کو اب آیا ہے۔ ہمارے ہاں تو عشروں سے ایسی فِلمیں بنائی
جارہی ہیں جن میں درجن بھر کہانیاں دریافت کرنا کوئی کمال نہیں! اور یہ
کہانیاں آپس میں ایسی گڈمڈ ہوتی ہیں کہ کوئی مائی کا لعل اِنہیں الگ بھی
نہیں کرسکتا! کبھی کبھی تو یہ طے کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ ہیرو اور ولن
کی لڑائی زیادہ شدید تھی یا کہانیاں آپس میں زیادہ گتھم گتھا تھیں! سچ تو
یہ ہے کہ ہم اِس سے بھی دس قدم آگے کی منزل میں ہیں۔ ہم نے ایسی کئی فِلمیں
بنائی ہیں جن میں لاکھ ڈھونڈے سے بھی کوئی کہانی نہیں مل پاتی! ہماری بعض
فِلمیں کچھ اِس نوعیت کی ہوتی ہیں کہ کسی معمولی سی کہانی میں تو ہمت ہی
نہیں ہوتی کہ اُن میں داخل ہوکر دکھائے! سُنا ہے دِماغی امراض کے بعض
ہسپتال ایسی فِلموں کو ٹوٹکے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بعض ذہنی مریض
ایسی فِلمیں دیکھنے کے بعد ہر قسم کی ذہنی اُلجھن میں مُبتلا ہونے سے توبہ
کرلیتے ہیں اور ناٹک چھوڑ کر نارمل زندگی بسر کرنے کے لیے گھر چلے جاتے
ہیں!
اور صاحب! ایک کہانی پر کیا موقوف ہے، ہمارے ہاں تو منظر ناموں اور مکالموں
کے بغیر بھی فِلمیں دھڑلّے سے بنائی جاتی ہیں! آپ چونک گئے نا؟ غلط بات پر
چونکے۔ چونکنے کی بات یہ ہے کہ ایسی فِلمیں زیادہ کامیاب رہتی ہیں!
mindless فِلموں کو عام فِلم بین اپنی ذہنی سطح سے زیادہ قریب محسوس کرتے
ہیں! آپ چاہیں تو اپنے ہاں کی بیشتر فِلموں کو سسپنس کی کیٹیگری میں رکھ
سکتے ہیں کیونکہ یہ بالعموم clueless بھی ہوتی ہیں!
سُنا ہے ہماری فِلم انڈسٹری پر تحقیق کے لیے ہالی وڈ سے ایک ٹیم آئی تھی۔
اِس ٹیم نے کیا جَھک ماری یہ تو ہم نہیں جانتے مگر اِتنا ضرور سُنا ہے کہ
ٹیم کے ارکان کو چار پانچ پنجابی اور دو تین پشتو فِلمیں دِکھائی گئیں تو
حیران رہ گئے۔ فِلمیں دکھانے کے بعد اُنہیں خوب جھنجھوڑا گیا تب کہیں جاکر
اُن کے حواس بحال ہوئے! اُنہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور ہماری چند پنجابی
اور پشتو فِلمیں ڈبّوں میں پیک کرواکے لے گئے۔ بعد میں خبر آئی کہ یہ
فِلمیں 200 سال بعد ڈبّوں سے نِکالی جائیں گی تاکہ اُس دور کے لوگوں کو
بتایا جاسکے کہ اپنی ٹیکنالوجی پر نہ اِتراؤ، یہی ٹیکنالوجی 200 سال پہلے
بھی تھی! یہ ٹیم ہماری فِلم انڈسٹری کی وہ سِلائی مشین بھی ساتھ لے گئی جس
کے چلتے ہی فِلموں میں بچّے بڑے ہو جایا کرتے تھے! انڈسٹری والوں نے عطیے
کے طور پر وہ سال خوردہ پیانو بھی دیا جسے بجاتے ہوئے ہیرو گانا گاتا تھا
تو ہیروئن کی یادداشت لوٹ آتی تھی اور ساتھ ہی وہ سوئیٹر بھی بخش دیا جسے
پہن کر ہیرو کی ماں گانے کے دوران بیٹے کو پیار بھری نظروں سے دیکھتی رہتی
تھی اور اِس بات پر فخر کرتی تھی کہ پانچ کوششوں کے بعد میٹرک کرنے والے
ناکارہ بیٹے کو اور کچھ آتا ہو یا نہ آتا ہو، کم از کم گانا تو آتا ہی ہے!
راز کی بات یہ ہے کہ مغربی فِلم میکرز کو دیا جانے والا پیانو، سِلائی مشین
اور سوئیٹر کا تحفہ خلوص سے زیادہ اپنی غرض کا شاخسانہ تھا کیونکہ ہمارے
بعض اسٹارز اِن چیزوں کو دیکھ کر بدکنے لگے تھے! پیانو، سِلائی مشین اور
سوئیٹر تو ہماری فِلموں میں آج بھی ہیں، بس اُن کی شکل بدل گئی ہے!
ہمارے ہاں فِلم انڈسٹری اور سرکاری محکموں میں اچھی خاصی مماثلت ہے۔ جو شخص
کچھ نہ کر پائے وہ سرکاری کلرک یا ٹیچر تو بن ہی جاتا ہے! بالکل اِسی طرح
جو اور کچھ نہ کر پائے وہ اداکاری، گلوکاری، ہدایت کاری یا اسکرپٹ رائٹنگ
تو کر ہی لیتا ہے! سُنا ہے لاہور میں فِلم انڈسٹری کے کرتا دھرتا چُھٹی
والے دن بادشاہی مسجد کے سامنے حضوری باغ کے آس پاس یا پھر مینار پاکستان
والے اقبال پارک میں گھومتے رہتے ہیں تاکہ جگت بازوں اور شیخی بگھارنے
والوں کو لے جاکر فِلموں میں متعارف کرائیں اور قوم سے اُن کی صلاحیتوں کا
لوہا منوائیں! ایک زمانہ تھا جب اناپ شناپ بکنے والوں کو حقارت کی نظر سے
دیکھا جاتا تھا۔ اب اُنہیں فِلموں والے لے اُڑتے ہیں اور اسکرپٹ رائٹرز میں
تبدیل کرکے دُنیا کو دِکھاتے ہیں کہ
دیکھو اِس طرح سے کہتے ہیں سُخنور سہرا! |