اسٹیل ٹاؤن -- اب وہ بہاریں کہاں ؟
(Munir Bin Bashir, Karachi)
اسٹیل مل کا جس روز سنگ بنیاد رکھا گیا وہ دن ایک مسرت کا دن تھا -- لیکن اب وہ بہاریں کہاں -- اسٹیل مل بند ہو چکی ہے - سب خوشیاں ، شادمانیاں عنقا ہو چکی ہیں -- یہی حال اس کی رہائشی بستی اسٹیل ٹاؤن کا ہوا -- ہر طرف زندگی گنگناتی تھی -- اب گھور اندھیرا چھایا ہوا ہے - اسٹیل ٹاؤن اور اسٹیل مل کی ماضی کی عکاسی کرتا ہوامیرا ایک کالم جو اسی شادمانی کے دور میں لکھا گیا تھا - یہ اس زمانے کے شہر کے کلچر و ثقافت پر بھی روشنی ڈالتا ہے - سال تھا1984 |
|
|
1984 - 86 کے اسٹیل ٹاؤن کا ایک منظر |
|
جب گرانی نے بہت زور باندھا اور کس بل نکنے لگے تو چچا لوہاری نے کسی نجومی کے پاس جاکر قسمت کا حال معلوم کرنے کا مشورہ دیا - ہمارے من کو ان کا مشورہ بہت بھا یا اور ہم بلبل ٹاکیز کے سوا روپے والے درجے کے دروازے بیٹھنے والے منجم کے پاس پہنچے کہ بقول اس نجومی کے اس کا شہرہ ایک عالم میں ہے -- نصیبوں کا حال بتاتا ہے ستاروں کی چال دکھاتا ہے -- اس منجم نے حال زار سنا اور ایک طوطے کو حکم دیا کہ قفس سے باہر آؤ اور سائل کو مساٰئل سے آزاد کراؤ-- طوطے نے حکم کی تعمیل کی اور سامنے پڑے ہوئے لفافوں کی قطار سے لفافہ کھینچ کر ہمارے حوالے کیا -- ہم نے اندر سے اپنی قسمت کا پرچہ نکالا - اس میں لکھا تھا “ اے صاحب فال آئندہ ہفتہ تیرے لئے بابرکت ثابت ہو گا - افسروں کا تعاون حاصل ہو گا -- اگرچہ آمدنی میں اضافہ نہیں ہو گا لیکن بچت ہوگی - اگر تو شادی شدہ ہے تو بیگم خوش ہو گی -- ہفتے کا دن مبارک ہے “ ہم نے طوطے کی چونچ میں پچاس پیسے کا سکہ رکھا اور راستے بھر سوچتے رہے کہ بچت ہوگی تو کیوں کر ؟ بات سمجھ میں نہ آئی - دل ہی دل میں چچا لوہاری کو دو چار صلواتیں سنائیں کہ خوامخواہ پیسے ضائع کروائے -- اسی سوچ میں اسٹیل ٹاؤن کی مارکیٹ میں گھومتے پھرتے تھے کہ ایک بڑا سا لال کپڑا نظر آیا جس پر خط جلی سے لکھا تھا کہ کہ اے اہلیان اسٹیل ٹاؤن آپ کی بستی میں ہفتے کے دن ہفتہ بازار کا انعقاد کیا جا رہا ہے جہاں ارزاں سستے داموں پر اشیا ملیں گی ----- آئیے آئیے ------ فوج در فوج آئیے --- سامان بھر بھر کے جائیے “ یہ اشتہار پڑھ کر ہم چونک پڑے بلکہ اچھل پڑے طوطے نے بھی تو ہفتہ ہی کہا تھا --- دل نے صدا دی پیارے یہیں ہے تیرا گوہر مقصود --- سو ہم نے اشتہار غور سے پڑھا -- پتہ چلا کہ اشیا مہیا کرنے والے اور قیمتوں پر قابو پانے والے ادارے سے استیل مل نے رابطہ کیا اور کہا کہ بھائی پاکستان اسٹیل ہمیشہ یہاں کے کارکنان کی بھلائی اور بہتری کے بارے میں سوچتا رہتا ہے آپ کراچی شہر کے دوسرے علاقوں میں جمعہ بازار لگاتے رہتے ہیں -- یہی بازار ہمارے یہاں لگائیں اور لوگوں کو فائدہ پہنچائیں -- سو یارو ہفتے کے دن ہم بھی ہفتہ بازار گئے -- دیکھا کہ خلقت کا اژدہام ہے --- مجمع خاص و عام ہے --- کیا افسر ، کیا ماتحت --- کیا اعلیٰ کیا ادنیٰ --- سب کے سب بازار پر ٹوٹے پڑے ہیں --- ایک میلے کا سماں ہے -- ریکارڈ بج رہے ہیں --- لوگوں کی مختلف آوازیں سنائی دے رہی ہیں -- ایک صاحب بولے -- یارو سبزی اتنی سستی بھی ہوسکتی ہے میں تو خواب میں ہی سوچ سکتا تھا-- ایک میاں جی اپنی بیگم سے ڈرتے ڈرتے شکوہ کر رہے تھے کہ بیگم اب میرے کینو کھانے پر اعتراض نہ کرنا --اسٹیل مل میں سخت کام کرنے کے بعد اچھی خوراک اور پھل کھانا ضروری ہے --- پاکستان اسٹیل نے اچھا سستا انتظام کر دیا ہے -- بہت بہت شکریہ اے پاکستان استیل اس ہفتہ بازار سے صرف اسٹیل ٹاؤن والے ہی فیض یاب نہیں ہو رہے بلکہ بلکہ ارد گرد کی دوسری بستیوں کے لوگ بھی شاداب ہو رہے ہیں -- آنے والوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو کاروں میں بیٹھ کر آتے ہیں -وہ لوگ بھی ہیں جو سائیکلوں پر سوار ہو کر آتے ہیں اور وہ پیدل لوگ بھی ہیں جو بچہ گاڑیاں لے کر آتے ہیں - واپسی پر بچہ گود میں اور سامان بچہ گاڑی میں ہوتا ہے -- اشیا مہیا کرنے اور مہنگائی پر قابو پانے والے ادارے یعنی بیورو آف سپلائیز اینڈ پرائیسیز کنٹرول کے ایک رکن سے ملاقات ہوئی -- پوچھا کہ اے نیک انسان یہ نیکی تمہارے دل میں کیسے سمائی ---کوئی شکوہ شکایت تو نہیں -- اس نیک بخت نے کہا ہمارا کام ہی لوگوں کو سستے داموں اشیا پہنچانا ہے -- پہلی مرتبہ جب ہفتہ بازار لگا تھا تو ایک دو خامیاں تھیں جیسے پانی کا نہ ہونا اور گرد و غبار کا اڑنا وغیرہ لیکن اب تو بہت اچھا انتظام و انصرام ہو گیا ہے بلکہ پاکستان اسٹیل کی مہربانی سے بجلی کا بھی بندو بست ہو گیا ہے جس کے سبب یہ بازار رات گئے تک جاری رہتا ہے جب کہ شہر کراچی کے دوسرے مقامات پر لگنے والے بازار بجلی نہ ہونے کی وجہ سے سر شام ہی بند ہو جاتے ہیں -- انہوں نے ایک اور شکایت کی کہ سودا جتنا بھی سستا کر کے بھیجا جائے خواتین کا اصرار ہوتا ہے کہ مزید قیمت کم کرو -- ہم نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور پھر کہا کہ یہ عادت تو تو بین الاقومی عادات خواتین کیے زمرے میں آتی ہے سو اس کا شکوہ بے جا ہے ہم بھی اس بازار سے سستی اور اچھی سبزی لے آئے ہیں -- طوطے نے صحیح پیشگوئی کی تھی اسے تحفہ دینے کے لئے سیب بھی خرید لئے ہیں |