عہد حاضر میں موسمیاتی تبدیلی کے سنگین چیلنج سے نمٹنے کی
خاطر ماحول دوست ترقی ہر ایک ملک اور ہر ایک خطے کے لیے ناگزیر ہو چکی ہے۔
دنیا کے سبھی ممالک کوشاں ہیں کہ ایسی پالیسیاں وضع کی جائیں جن سے ترقی کی
سمت کو ماحول دوست منتقلی کی جانب موڑا جائے اور پائیدار ترقی کی جستجو کی
جائے۔ایسے میں دنیا کے بڑے ممالک کا کردار انتہائی نمایاں ہے جہاں صنعت
کاری کا پیمانہ بھی کافی وسیع ہے اور وسائل کی فراوانی کی وجہ سے استعمال
بھی دیگر خطوں کی نسبت قدرے زیادہ ہے۔
ان بڑے ممالک میں چین بھی شامل ہے جو نہ صرف اپنے ہاں گرین ترقی کو اپنا
رہا ہے بلکہ پائیدار بین الاقوامی سبز تعاون کے ذریعے، انسانیت اور فطرت کے
درمیان ہم آہنگی کی چینی جدیدکاری کے ساتھ عالمی جدیدکاری کو ممکن بنا رہا
ہے، جو ماحول دوست ترقی کی ایک ٹھوس مثال پیش کرتا ہے۔
عالمی سطح پر ماحول دوست ترقی کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں، چین کے تعمیری
کردار کو دیکھا جائے تو ملک نے پائیدار توانائی پر مبنی حل فراہم کرنے کے
لئے 100 سے زیادہ ممالک اور خطوں کے ساتھ تعاون کیا ہے ، جس کا ثبوت دنیا
بھر میں موجود توانائی تنصیبات ہیں۔چین نے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی تعیناتی کے
ذریعے عالمی سطح پر آب و ہوا کے مشاہدے کی بھی حمایت کی ہے، چھوٹے جزیرہ
نما ممالک میں توانائی کی بچت والے روشنی کے نظام کو نافذ کیا ہے، اور
آسیان کمیونٹیز میں کم کاربن پائلٹ پروگرام قائم کیے ہیں.
چین کی ان کوششوں نے ، آج جہاں قابل تجدید توانائی کو روزمرہ استعمال کی شے
میں تبدیل کر دیا ہے وہاں ماحولیاتی تحفظ کو ٹھوس معاشی مواقع میں بھی
تبدیل کیا ہے اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کے نمونوں کی ازسر نو وضاحت کی
ہے۔قابل تجدید توانائی کے حل میں چینی کامیابیوں نے دنیا بھر میں صاف
توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی تنصیب میں تیزی لائی ہے ،تخفیف کاربن کے
اخراجات کو کم کیا ہے اور تکنیکی اشتراک کی ایک شکل کے طور پر وسیع پیمانے
پر مثبت کردار ادا کیا ہے۔
بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ
دہائی کے دوران ہوا سے توانائی کے اخراجات میں 60 فیصد سے زیادہ کمی اور
عالمی سطح پر اوسطاً فی کلو واٹ شمسی فوٹو وولٹک اخراجات میں 80 فیصد سے
زیادہ کمی واقع ہوئی ہے - یہ تبدیلی چینی تکنیکی جدت طرازی، بے مثال
مینوفیکچرنگ اسکیل اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی مہارت کی وجہ سے ہے۔
2024 میں ، چین نے ونڈ ٹربائن کی برآمدات میں قابل ذکر اضافہ دیکھا ، جس
میں 70 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔ فوٹو وولٹک مصنوعات کی برآمدات مسلسل
چوتھے سال 27.45 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئیں جبکہ لیتھیم آئن بیٹری کی
برآمدات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔ چین کے ان برآمدی اعداد و
شمار کا جائزہ لینے سے واضح ہوتا ہے کہ توانائی کی منتقلی میں چین عالمی
قائد ہے۔
اپنی سبز مصنوعات اور ٹیکنالوجیز کے ذریعے چین کی شراکت نے قابل تجدید
توانائی کی جانب دنیا بھر کی منتقلی کو تیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
توانائی کی عالمی منتقلی میں چین کی سبز صنعت کی تیزی سے توسیع اور قیادت
کو متعدد عوامل سے منسوب کیا جاسکتا ہے جن میں مضبوط مارکیٹ کی طلب، مؤثر
حکومتی پالیسیاں، پختہ صنعتی ماحولیاتی نظام، اور مضبوط مارکیٹ مسابقت ،
شامل ہیں. یہ عناصر جدیدکاری کے لئے چین کے عزم کو اجاگر کرتے ہیں جو
انسانی ترقی اور ماحولیاتی استحکام کے درمیان ہم آہنگی پر مسلسل زور دے رہا
ہے۔
2024 میں چین نے ہوا اور شمسی توانائی کی تنصیب کی صلاحیت کے لئے اپنے 2030
کے ہدف کو عبور کرکے ایک اہم سنگ میل حاصل کیا ، جو مقررہ وقت سے پہلے 1.4
بلین کلو واٹ تک پہنچ گیا۔ پہلی بار ملک میں نئی توانائی سے چلنے والی
گاڑیوں کی سالانہ پیداوار ایک کروڑ یونٹس سے تجاوز کر گئی ہے ۔ مزید برآں،
جی ڈی پی کے فی یونٹ توانائی کی کھپت میں 3.8 فیصد کمی آئی ۔یہ کامیابیاں
ماحولیاتی ترقی کے لیے چین کی غیر متزلزل وابستگی کی عکاسی کرتی ہیں، یہ وہ
اصول ہے جو انسانی سرگرمی کو فطرت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے ملک کے ثقافتی
ورثے میں گہرائی سے سرایت کر چکا ہے۔ یہ کامیابیاں عالمی ماحولیاتی تہذیب
کو فروغ دینے میں ایک شراکت دار، دوست اور رہنما کے طور پر چین کے اہم
کردار کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔
|