ہم خوشیوں سے دور کیوں ہیں؟

خوشی، جسے ہم زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھتے ہیں، ہماری نظروں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی اکثر ہماری پہنچ سے دور رہتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا خوشی کوئی مادی چیز ہے جسے حاصل کیا جاسکتا ہے، یا یہ ایک ذہنی کیفیت ہے جسے محسوس کیا جاتا ہے

اگر ہم فلسفیانہ نظر سے دیکھیں تو خوشی کی تلاش انسان کے وجودی مسائل میں سے ایک ہے۔ سقراط اور افلاطون کے نزدیک خوشی ایک اعلیٰ اخلاقی زندگی گزارنے کا نتیجہ ہے، جبکہ ارسطو کے مطابق یہ ہماری روح کے فطری امکانات کی تکمیل میں مضمر ہے۔ بدھ مت کے بانی گوتم بدھ نے خوشی کو خواہشات سے آزادی میں پایا، جبکہ جدید فلسفہ کہتا ہے کہ خوشی حقیقت کو قبول کرنے اور اپنے حال میں جینے کا نام ہے۔ ہم خوشیوں سے اس لیے دور ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ہم نے خوشی کو کسی بیرونی چیز سے جوڑ دیا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ایک خاص ملازمت، ایک خوبصورت گھر، ایک مثالی رشتہ، یا کسی مادی چیز کا حصول ہمیں خوش کر دے گا۔ لیکن جب ہم ان سب کو پا بھی لیتے ہیں، تو ایک اور خواہش جنم لیتی ہے اور ہم دوبارہ ایک نئی خوشی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ اس نہ ختم ہونے والے دائرے میں، ہم خوشی کو ہمیشہ مستقبل میں ڈھونڈتے ہیں، حالانکہ خوشی ہمیشہ "اب اور یہیں" میں موجود ہوتی ہے آج کے دور میں، سماجی میڈیا اور معاشرتی تقابل نے ہماری خوشی کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ دوسروں کی زندگیاں زیادہ خوشگوار ہیں، اور ہمارا اپنا وجود بے رنگ لگنے لگتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کامیابی، شہرت، اور دولت ہی اصل خوشی ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کئی فلسفیوں کے مطابق، اصل خوشی سادگی میں ہے، کیونکہ جب انسان کی خواہشات کم ہو جاتی ہیں، تو اس کے اندرونی سکون میں اضافہ ہوتا ہے۔ وجودی فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ خوشی کوئی بیرونی چیز نہیں بلکہ ہمارے اندر ہی پوشیدہ ہے۔ ژاں پال سارتر کے مطابق، انسان آزاد ہے اور اسے اپنی زندگی کا مقصد خود تخلیق کرنا ہوتا ہے۔ یعنی خوشی باہر سے نہیں آتی، بلکہ ہم اسے اپنی سوچ اور اعمال کے ذریعے پیدا کرتے ہیں۔ اگر ہم واقعی خوش رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا: حال میں جینا سیکھیں – خوشی مستقبل کی کسی منزل میں نہیں، بلکہ اسی لمحے میں ہے۔ شکرگزاری اختیار کریں – جو کچھ ہمارے پاس ہے، اس کی قدر کریں، بجائے اس کے کہ جو نہیں ہے، اس پر افسوس کریں۔ اپنی اقدار کو پہچانیں – خوشی ان چیزوں میں نہیں جو دنیا ہمیں دکھاتی ہے، بلکہ ان چیزوں میں ہے جو ہمارے دل کو سکون دیتی ہیں۔

سماجی تقابل سے بچیں – اپنی زندگی کو دوسروں کے پیمانے پر مت تولیں، کیونکہ ہر کسی کی راہ الگ ہوتی ہے۔

ہم خوشیوں سے دور اس لیے ہیں کیونکہ ہم انہیں غلط جگہوں پر تلاش کر رہے ہیں۔ خوشی ایک منزل نہیں، بلکہ ایک طرزِ فکر ہے۔ اگر ہم اپنے اندر کی دنیا کو سنوار لیں، تو بیرونی دنیا کی مشکلات بھی ہمارے لیے بوجھ نہیں رہیں گی۔ خوشی باہر سے نہیں آتی، یہ تو اندر ہی پروان چڑھتی ہے۔ بس ہمیں اسے محسوس کرنا سیکھنا ہوگا۔

 

Altaf Ahmad Satti
About the Author: Altaf Ahmad Satti Read More Articles by Altaf Ahmad Satti: 58 Articles with 18056 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.