ڈپٹی کمشنر استور کے فیصلے کے منفی اثرات

 حکومتوں اور انتظامیہ کی جلدبازی اور ان بعض فیصلے بعض اوقات دانستہ یا غیر دانستہ طور پر عوام کی پریشانی اور مشکلات کا سبب بنتا ہے، کچھ اسی طرح کی صورتحال کا آج کل گلگت بلتستان کے ضلع استور کے باسیوں کو سامنا ہے۔

چند ماہ قبل ضلع استور کے ڈپٹی کمشنر ظفر وقار تاج نے استورشہر کے قصائیوں کی شکایت پر ضلعی حدود سے مال مویشی کی دیگر اضلاع کی طرف سپلائی یا فروخت پر پابندی عائد کردی جس کی وجہ سے اب ان علاقوں میں ضلع اسکردو سمیت دیگر علاقوں سے آنے والے ٹھیکیدار مال مویشی ان علاقوں سے خریدنے کی بجائے آزاد کشمیر اور دیگر علاقوں سے خرید کر استور کے راستے ہی اپنی منزل تک پہنچاتے ہیں کیونکہ اس عمل کو پابندی سے مستثنیٰ قراردیا گیا یاہے۔ ڈپٹی کمشنر استورنے یہ فیصلہ بظاہر شہر میں گوشت کی قلت پرکنٹرول کے لیے قصائیوں کے مطالبے پر کیا ہے، لیکن اس فیصلے کے انتہائی منفی اثرات ضلع استور کے دیہی علاقوں میں رہنے والے 70 فیصد سے زایدافراد پر پڑے ہیں۔ صورتحال اس حد تک سنگین شکل اختیار کرگئی ہے کہ ان علاقوں میں موسم سرما کی برف باری اور راستوں کی بندش کے بعد قحط کا خدشہ ہے۔ ضلع استور کے 70 فیصد لوگوں کا انحصار مال مویشی اور زراعت پر ہے، بالخصوص دیہی علاقے وادی گریز(قمری، منی مرگ، کلشئی)، رٹو، ضلع بالا، دیر لے، میر ملک ، چلم، گودائی، پریشنگ،دشکن،ڈوئیاں اور دیگر علاقوں کے افراد اپنی سال کے گزر بسر کےلئے مویشی پالتے اور پھر مناسب قیمتوں پر فروخت کرتے ہیں،ان علاقوں کی افرا د کی قصائی مارکیٹ تک رسائی نہ ہونے اور قصائیوں کی ان علاقوں میں عدم توجہی کی وجہ مقامی لوگوں کے جانوروں کی خریدو فروخت کا انحصار دیگر اضلاع سے آنے والے خریداروں پر ہے کیونکہ ان علاقوں میں مسلح افواج سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کےلئے حکومتی سطح پر مال مویشی خریدنے کےلئے ٹھیکے دیئے جاتے ہیں اور یہی عمل مقامی لوگوں کےلئے نفع بخش اوران کی پوری معیشت کا انحصار بھی اسی پر ہے۔ چند ماہ قبل ڈپٹی کمشنر استور کے فیصلے کے بعد باہر بالخصوص ضلع سکردو اور گلگت سے آنے والے ٹھیکیداروں نے اس پابندی کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی پریشانی سے بچنے کے لئے مقامی سطحہ پرمال مویشی خریداری بند کردی اور اب ان علاقوں میں ہزاروں خاندانوں کے پاس مال مویشی تو موجود ہے لیکن ان کا کوئی خریدار نہیں جس کی وجہ سے ہزاروں خاندان موسم سرما کےلئے اشیائے ضروریہ جمع کرنے سے قاصر ہیں جو ان کےلئے موت کا پیغام بھی ثابت ہوسکتا ہے،ان جانوروں کے موسم سرما میں چارے کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہزاروں جانوروں کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔

ضلع استور کے اکثر دور دراز علاقے سال میں 3 سے 6 ماہ تک برف باری کی وجہ سے بند رہتے اور آمد ورفت کا سلسلہ تقریباً ختم ہوجاتا ہے جس کے بعد ان علاقوں میں اشیاءکی عدم دستیابی رہتی ہے۔ ایسے موقع پر اس طرح کی پابندی یقیناً یہاں کے مکینوں کےلئے موت کا پیغام ثابت ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر استور ظفر وقار تاج نے راقم کو بتایا کہ مقامی قصائیوں کو مال مہنگے داموں مل رہا تھا جس کی وجہ سے استور شہر میں گوشت کی قلت رہتی تھی اور مقامی لوگ مال مویشی دیگر اضلاع کے لوگوں کو فروخت کرتے ان کا یہ عمل ضلع استور میں گوشت کی قلت کا سبب بن رہا تھا۔ ہم نے اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے جانوروں کی دیگر اضلاع میں منتقلی اورفروخت پر پابندی عائد کردی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پورے استور میں صرف دو ہوٹلوںمیں گوشت دستیاب ہوتا ہے، اس لئے یہ پابندی ضروری تھی۔

یقینا ڈپٹی کمشنر کے اس فیصلے کا فائدہ چند ہوٹل مالکان اور قصائی خاندانوں کو ہوسکتا ہے، لیکن نقصان کا سامنا ضلع استور کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں خاندانوں کو ہے۔ اگر ڈپٹی کمشنر استور کے فیصلے کے مطابق دیگر اضلاع کے لئے مال مویشی یا اشیاءکی فراہمی پر پابندی کو درست سمجھا جائے تو پھر اسی طرح کا عمل دیگر اضلاع نے کیا تو ضلع استور کے مکینوں پراس کے کیا اثرات مرتب ہونگے مقامی لوگ بہترطورپر جانتے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈپٹی کمشنر استور پہلے مرحلے پر اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کریں اور دوسرے مرحلے پر مقامی متاثرین کےلئے حکومتی سطح پر امداد اور ریلیف کےلئے ضروری اقدام کریں تاکہ موسم سرما کی برف باری سے پہلے یہ متاثرین اپنے گزر بسر کے لئے اشیاءجمع کرسکیں بصورت دیگر ہزاروں افراد کی زندگیاں خطرے میں پڑسکتی ہیں۔ اس ضمن میں گورنر گلگت بلتستان پیر کرم علی شاہ، وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ، ضلع استور کے بالائی علاقوں سے منتخب ہونے والے رکن گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی عبدالحمید خان اور دیگر حکام کو بھی نوٹس لینا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ حالات ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106862 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.