پاکستانی معاشرے کی سب سے بڑا المیہ اس کے نوجوانوں کے
ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو اپنے ہاتھوں میں اسمارٹ فونز تھامے ہوئے
ہے، لیکن ذہنوں میں سوالات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ نوجوان ڈگریوں کے انبار
لگا رہے ہیں، مگر اُن کی سوچ کی دنیا میں "کیوں" اور "کیسے" جیسے سوالات گم
ہیں۔ یہ صورتحال محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک منظم تعلیمی اور سماجی بیانیے کا
نتیجہ ہے جس نے فلسفہ، سماجی علوم، اور سیاسیات جیسے مضامین کو تعلیمی نصاب
سے یکسر خارج کر دیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے نوجوانوں کو
صرف مشینیں بنانا ہے، یا پھر دانش والے انسان؟
جیسا کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں رٹے کو علم سمجھا جاتا ہے۔ طلبہ کا
مقصد نصاب کے صفحات کو یاد کر کے امتحانی کاغذوں پر اُگل دینا ہے۔ اس عمل
میں "تنقیدی فکر" جیسے تصور کی کوئی گنجائش نہیں۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے
تو پاکستان کی تعلیمی پالیسیاں ہمیشہ سے معاشی اور فنی ضرورتوں کے تابع رہی
ہیں۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں جنرل ایوب خان کے دور میں جب تعلیمی کمیشن تشکیل
دیا گیا تو واضح طور پر کہا گیا کہ "ہمیں انجینئرز اور ڈاکٹرز چاہیے،
مفکرین نہیں"۔ بدقسمتی یہ رویہ آج تک قائم ہے۔ فلسفہ اور سماجی علوم کو
غیرعملی، غیرضروری، بلکہ خطرناک قرار دے کر نصاب کے کنارے پر دھکیل دیا گیا۔
سقراط نے کہا تھا کہ "غیرمعلوم زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ انسان مر جائے"،
لیکن ہمارے ہاں تو طلبہ کو معلوم ہی نہیں کہ سقراط کون تھا۔
سماجی علوم کے بغیر معاشرہ اپنی تاریخ، اقدار، اور تنازعات کو سمجھنے سے
قاصر رہ جاتا ہے۔ ایمیلی ڈورکائم جیسے ماہرینِ سماجیات نے واضح کیا تھا کہ
تعلیم کا مقصد صرف معلومات منتقل کرنا نہیں، بلکہ معاشرتی یکجہتی اور
اخلاقی شعور پیدا کرنا ہے۔ پاکستانی نصاب میں سماجی علوم کی غیرموجودگی نے
نوجوانوں کو اُن کے اپنے معاشرے کے تناظر سے کاٹ دیا ہے۔ وہ نہ تو تاریخ کے
پیچیدہ سوالات سے آشنا ہیں، نہ ہی موجودہ سماجی ڈھانچے کی تنقیدی تحلیل کر
سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسلی تعصبات، فرقہ واریت، اور جذباتی
بیانیوں کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں۔ سیاسیات کی تعلیم نہ ہونے کے برابر
ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان ریاستی ڈھانچے، آئین، اور جمہوری اقدار سے
بیگانہ ہیں۔ کارل مارکس نے کہا تھا کہ "فلسفہ دنیا کو سمجھنے کا ذریعہ
نہیں، بلکہ بدلنے کا آلہ ہے"، مگر ہمارے ہاں فلسفہ پڑھانے والے ادارے بند
ہو چکے ہیں۔
فلسفہ کی عدم تدریس نے نوجوانوں کو منطقی استدلال اور اخلاقی مباحث سے
محروم کر دیا ہے۔ ارسطو نے منطق کو علم کی بنیاد قرار دیا تھا، لیکن آج کے
پاکستانی طالب علم کے لیے منطق کا مطلب صرف ریاضی کے چند مسائل ہیں۔ فلسفہ
وہ علم ہے جو انسان کو ہر شے پر سوال اٹھانے کی جرأت دیتا ہے، چاہے وہ مذہب
ہو، ریاست ہو، یا سماجی اقدار۔ مشرقی فلسفے میں علامہ اقبال جیسے مفکرین نے
خودی اور تفکرِ آزاد پر زور دیا تھا، لیکن ہم نے اُن کے افکار کو محض
تقریبات تک محدود کر دیا۔ موجودہ نصاب میں اقبال کے اشعار تو پڑھائے جاتے
ہیں، لیکن اُن کے فلسفیانہ نظامِ فکر پر کوئی گفتگو نہیں ہوتی۔ یورپی
تنویریت (Enlightenment) کے دور میں کانٹ، ہیگل، اور نیٹشے جیسے مفکرین نے
انسانی عقل کو مذہب اور روایت کے تسلط سے آزاد کیا، لیکن پاکستانی نوجوان
آج بھی کسی ایسے نظامِ تعلیم کا انتظار کر رہے ہیں جو اُنہیں مقلد کی بجائے
محقق بنائے۔
اس صورتحال کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ نوجوانوں کی اس فکری کمی کو
سیاسی اور مذہبی گروہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ انتھونی
گرامشی جیسے مفکرین نے واضح کیا تھا کہ سماجی تبدیلی کے لیے "ثقافتی
بالادستی" ضروری ہے، اور یہ بالادستی تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پاکستان
میں سماجی علوم کے فقدان نے نوجوانوں کو ایسے خلا میں دھکیل دیا ہے جہاں وہ
آسانی سے انتہا پسند بیانیوں، سازشی نظریات، اور فرقہ وارانہ تعصبات کا
شکار ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سوشل میڈیا پر پھیلنے والی جعلی خبروں
پر تنقیدی نظر ڈالنے کی بجائے، نوجوان اُنہیں حرفِ آخر سمجھ کر شیئر کر
دیتے ہیں۔ یہ رویہ صرف اُن کی تعلیمی ناکامی نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے لیے
خطرہ ہے۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ سب سے پہلے تو تعلیمی نصاب میں بنیادی تبدیلیاں
ضروری ہیں۔ فلسفہ، سیاسیات، سماجیات، اور نفسیات جیسے مضامین کو لازمی قرار
دیا جائے۔ یہ مضامین طلبہ کو تاریخ کے پیچیدہ سبق سکھائیں گے، اُنہیں
موجودہ سماجی ڈھانچے پر سوال اٹھانے کی تربیت دیں گے، اور منطقی استدلال کی
صلاحیت پیدا کریں گے۔ دوسرا، اساتذہ کی تربیت ناگزیر ہے۔ پالو فرائرے نے
لکھا تھا کہ استاد کا کام طلبہ کے ذہنوں میں معلومات انڈیلنا نہیں، بلکہ
اُنہیں آزاد سوچ کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ تیسرا، تعلیمی اداروں میں
مباحثوں، مکالمے، اور تنقیدی تجزیے کی فضا قائم کی جائے۔ یونانی فلسفی
سقراط اپنے شاگردوں سے سوالات کر کے اُنہیں سوچنے پر مجبور کرتا تھا۔ آج کے
پاکستانی اسکولز میں یہ روایت زندہ کرنا ہوگی۔
اس سارے بحران کا ایک ہی نتیجہ ہے, جب تک پاکستان کا تعلیمی نظام نوجوانوں
کو "کیوں" پوچھنے کی اجازت نہیں دے گا، اُس وقت تک ہماری نسل صرف ڈگریاں لے
کر بے روزگار بیٹھی رہے گی۔ فلسفہ اور سماجی علوم صرف مضامین نہیں، بلکہ
انسان کو انسان بنانے کا ذریعہ ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے نوجوانوں کو مشینوں
کی بجائے مفکرین بنائیں، تاکہ وہ نہ صرف اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ سکیں، بلکہ
ایک بہتر معاشرے کی تعمیر کا خواب بھی دیکھ سکیں۔ ورنہ، جیسے برٹرینڈ رسل
نے کہا تھا، "دنیا کے سب سے بڑے مسائل کی وجہ وہی ہے کہ عقلمند لوگ شک سے
بھرے ہوئے ہیں، جبکہ بیوقوف پُراعتماد ہیں"۔ پاکستانی نوجوانوں کو عقلمند
بنانے کے لیے، ہمیں اُنہیں شک کرنا سکھانا ہوگا۔
تعلیمی نظام کی کامیابی کا راز صرف نصاب میں نہیں، بلکہ اُسے پڑھانے والے
ہاتھوں میں بھی چھپا ہوتا ہے۔ پاکستان میں اساتذہ کی اکثریت روایتی "چاک
اینڈ ٹاک" کے طریقہ کار سے آگے نہیں دیکھ پاتی۔ اُن کی تربیت کا بیشتر حصہ
مضامین کے مواد تک محدود ہے، جبکہ تدریس کے جدید اصولوں، نفسیاتِ تعلیم، یا
تنقیدی فکر کو پروان چڑھانے کی تکنیکوں سے اُنہیں ناآشنا رکھا جاتا ہے۔ یہ
صورتحال اُس وقت المیہ بن جاتی ہے جب ہم سمجھتے ہیں کہ ایک استاد محض
معلومات کا ذخیرہ نہیں، بلکہ طلبہ کے ذہنوں کو کھولنے والا معمار ہوتا ہے۔
برازیلی ماہر تعلیم پالو فرائرے نے اپنی کتاب Pedagogy of the Oppressed
میں لکھا تھا کہ "روایتی تعلیم طلبہ کو خالی برتن سمجھتی ہے جنہیں معلومات
سے بھرنا ہے، جبکہ حقیقی تعلیم اُن کے ساتھ مکالمہ کرتی ہے"۔ پاکستانی
اساتذہ کو اِس مکالمے کی تربیت دیے بغیر، ہم نصاب کی کوئی بھی تبدیلی بے
اثر چھوڑ دیں گے۔
اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہمارے ہاں ٹیچر
ٹریننگ پروگرامز کا بیشتر حصہ نظریاتی خطابت پر مرکوز ہوتا ہے۔ اساتذہ کو
یہ نہیں سکھایا جاتا کہ کیسے طلبہ میں سوال اٹھانے کی ہمت پیدا کی جائے،
کیسے تاریخی واقعات کو تنقیدی نظر سے پڑھایا جائے، یا کیسے فلسفیانہ مباحث
کو روزمرہ زندگی سے جوڑا جائے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی استاد نے خود کبھی
سقراط کی "دیالیکٹک میتھڈ" کو نہیں سمجھا، تو وہ طلبہ کو کیسے سکھائے گا کہ
ہر دعوے کو دلیل کی کسوٹی پر کیسے پرکھنا ہے؟ یہاں تک کہ سماجی علوم کے
اساتذہ بھی اکثر اپنے مضمون کو رٹا لگوانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، نہ کہ
معاشرتی تناظر میں اُس کی تشریح کرنے کے لیے۔ امریکی فلسفی جان ڈیوی نے کہا
تھا کہ "تعلیم تجربے کی تخلیقی تشکیل کا نام ہے"، مگر ہمارے اساتذہ کو
تجربات تخلیق کرنے کی تربیت ہی نہیں دی جاتی۔
اس مسئلے کی جڑیں معاشرتی اور معاشی ڈھانچے میں بھی پیوست ہیں۔ پاکستان میں
تدریس کو اکثر دوسرے پیشوں کے مقابلے میں کم تر سمجھا جاتا ہے۔ اسکول
انتظامیہ کی جانب سے اساتذہ کو مسلسل تربیت دینے کے بجائے، اُنہیں کتابوں
کے سلیبس پورے کروانے کا پریشر دیا جاتا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں تو صورتحال
اور بھی سنگین ہے، جہاں ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ اساتذہ کو بھرتی کر لیا
جاتا ہے۔ ایسے میں، فرانسس بیکن کا یہ قول یاد آتا ہے کہ "علم خود قدرت
ہے"، مگر ہمارے اساتذہ کو اِس قدرت سے محروم رکھا گیا ہے۔ ٹیچرز کی تربیت
کے لیے فن لینڈ جیسے ملک کے ماڈل سے سبق لینے کی ضرورت ہے، جہاں اساتذہ کو
صرف ماسٹر ڈگری ہولڈرز میں سے چنا جاتا ہے، اور اُنہیں مسلسل تربیت کے
مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔
اساتذہ کی تربیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اُنہیں طلبہ کے ساتھ
"اختیار" کے تعلق کو "ہمکلامی" میں بدلنا سکھایا جائے۔ موجودہ نظام میں
استاد کو مطلق العنان سمجھا جاتا ہے جو طلبہ کو جھڑک کر یا ڈرا کر کنٹرول
کرتا ہے۔ اس کے برعکس، جرمن فلسفی ہیبل کے خیال میں "تعلیم دراصل ایک دوسرے
کو آزاد کرنے کا عمل ہے"۔ اساتذہ کو تربیت دے کر یہ باور کرانا ہوگا کہ
طلبہ کی غلطیوں یا سوالات کو کچلنے کے بجائے، اُنہیں سیکھنے کے مواقع میں
تبدیل کیا جائے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی طالب علم کسی تاریخی واقعے کے
بارے میں متضاد نقطہ نظر رکھتا ہے، تو استاد کا فرض ہے کہ اُسے دلائل کی
بنیاد پر رہنمائی دے، نہ کہ کتابی جواب تھما دے۔
مزید برآں، اساتذہ کی ذہنی اور جذباتی صلاحیتوں کو بھی تربیت کا حصہ بنانا
ہوگا۔ نفسیاتِ تعلیم کے بانی جین پیاگے نے واضح کیا تھا کہ "ہر طالب علم کا
ذہن ایک الگ دنیا ہوتا ہے"۔ پاکستانی اساتذہ کو یہ سکھایا جائے کہ وہ مختلف
سماجی اور معاشی پس منظر رکھنے والے طلبہ کی نفسیات کو کیسے سمجھیں، اُن کے
تعصبات کو کیسے چیلنج کریں، اور اُن میں خود اعتمادی پیدا کریں۔ خاص طور پر
لڑکیوں کے اسکولوں میں، جہاں سماجی دباؤ زیادہ ہوتا ہے، اساتذہ کو ایسے
طریقے سیکھنے چاہئیں جو طالبات کو سماجی حدود سے ماورا سوچنے پر اُبھاریں۔
لہذا اساتذہ کی تربیت کو صرف حکومتی اقدامات تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔
سماجی سطح پر ایک تحریک چلانی ہوگی جہاں اساتذہ کو معاشرے کا سب سے معزز
پیشہ ور تسلیم کیا جائے۔ ترکی کے مصلح سعید نورسی کا قول ہے کہ "استاد وہ
ہتیارا ہے جو معاشرے کی تقدیر بدل دیتا ہے"۔ ہمیں چاہیے کہ اس ہتھیار کو
تیز کریں، اُسے علم اور حکمت سے لیس کریں، تاکہ یہ نوجوان نسل کے فکری خلا
کو پر کر سکے۔ ورنہ، نصاب کی کوئی بھی تبدیلی بے جان الفاظ کا ڈھیر بن کر
رہ جائے گی۔ جیسے کہ مشہور اسلامی فلسفی ابن خلدون نے کہا تھا: "علم بغیر
عمل کے مثل بادل ہے جو بارش لیے بغیر گزر جاتا ہے"۔ استاد کی تربیت دراصل
اِس عمل کی پہلی اینٹ ہے۔
|