آج کے دور میں انسانوں کے درمیان تعلقات کی بنیادیں کمزور
ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک طرف تو ہم ترقی کی دوڑ میں سماجی رابطوں کو وسعت دے
رہے ہیں، دوسری طرف ہماری گفتگووں کا محور دوسروں کی زندگیوں کے نجی
معاملات، کمزوریاں، اور ذاتی مسائل بنتے جا رہے ہیں۔ یہ رویہ محض ایک سماجی
عادت نہیں رہا، بلکہ ایک "اخلاقی بیماری" کی شکل اختیار کر چکا ہے جو ہمارے
اجتماعی ضمیر کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ دوسروں کے معاملات پر تبصرے، ان کی
زندگیوں کی تنقید، اور غیبت کی روایت کو ہم نے ایک فطری عمل سمجھ لیا ہے،
حالانکہ یہ عمل نہ صرف مذہبی تعلیمات کے منافی ہے، بلکہ فلسفۂ انسانی وقار
کو بھی مجروح کرتا ہے۔ اس مسئلے کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم
اخلاقیات، مذہب، اور فلسفے کی روشنی میں اس کی جڑوں تک پہنچیں۔
انسانی تہذیب کی ترقی کا دارومدار ہمیشہ سے باہمی احترام اور نجی زندگی کے
تقدس پر رہا ہے۔ یونانی فلسفی سقراط نے اپنے زمانے میں ہی اس بات پر زور
دیا تھا کہ "دانائی کا آغاز خود شناسی سے ہوتا ہے"، مگر آج کا انسان دوسروں
کی کمزوریوں کو کھوجنے میں اپنی عقل کو صرف کرتا ہے۔ جرمن فلسفی کانٹ کے
اخلاقی اصول "کیٹیگوریکل امپریٹو" کے مطابق، ہر انسان کو ایک "مقصد" سمجھا
جانا چاہیے، نہ کہ محض "ذریعہ"۔ جب ہم دوسروں کی زندگیوں کو اپنی گفتگو کا
موضوع بنا کر انہیں اپنے تفنن یا تسکین کا ذریعہ بناتے ہیں، تو ہم درحقیقت
انہیں "اشیاء" کی سطح پر لا کھڑا کرتے ہیں۔ جدید فلسفی ژاں پال سارتر کی
اصطلاح "بدنظری" (Bad Faith) بھی اسی نفسیاتی مہر کو واضح کرتی ہے، جہاں
انسان دوسروں کی ذات کو اپنی تشریح کے تابع کر کے اپنی ذمہ داریوں سے فرار
اختیار کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ فلسفہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ دوسروں کی نجی
زندگیوں میں مداخلت کرنا ان کے وجود کے احترام کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔
مذہب کی روشنی میں: قرآن اور احادیث کی واضح ہدایات:
اسلام نے انسانی وقار کو سب سے بلند مقام دیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ
تعالیٰ نے غیبت کو انتہائی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے: "وَ لَا یَغْتَبْ
بَّعْضُکُمْ بَعْضًا، اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ
مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوہُ" (الحجرات: 12)۔ یعنی "تم میں سے کوئی کسی کی غیبت
نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟
تمہیں اس سے گھن آئے گی۔" یہ آیت غیبت کی مکروہیت کو ایک ایسی تصویر کے
ذریعے بیان کرتی ہے جو انسان کے دل کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی
غیبت کو "امیٹھی چیز" قرار دیتے ہوئے اس کی حرمت کو واضح کیا: "الغِیْبَۃُ
أَشَدُّ مِنَ الزِّنَا" (سنن الترمذی)۔ یعنی "غیبت زنا سے بھی بڑا گناہ
ہے۔" مذہبی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو دوسروں کے عیوب کو بیان کرنا نہ صرف
گناہ ہے، بلکہ یہ معاشرے میں انتشار، بغض، اور تعلقات کی شکست کا باعث بنتا
ہے۔ اسلامی تعلیمات میں صرف غیبت ہی نہیں، بلکہ کسی کی پردہ پوشی کرنے اور
اس کے عیوب کو چھپانے کو بھی اجر کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ حدیث قدسی میں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللہُ یَوْمَ
الْقِیَامَۃِ" (صحیح بخاری)۔ یعنی "جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے گا،
اللہ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا۔" یہ تعلیمات ہمیں ایک ایسے معاشرے
کی تشکیل کی ترغیب دیتی ہیں جہاں انسان دوسروں کی عزت کو اپنی عزت سمجھتے
ہوئے ان کی حرمت کا خیال رکھے۔
دنیا کی تمام بڑی تہذیبوں اور ادبی روایات نے انسانی وقار کو مرکزی اہمیت
دی ہے۔ شیکسپیئر کے ڈراموں سے لے کرفرید الدین عطار کی صوفیانہ شاعری تک،
ہر جگہ دوسروں کی عزت کو پامال کرنے کے نتائج کو المناک انداز میں پیش کیا
گیا ہے۔ مشہور فارسی شاعر سعدی شیرازی نے اپنی کتاب "گلستان" میں لکھا: "تو
کہ بنی آدم است، پیکر تو نہ بینی، جوہر تو بینی"۔ یعنی "تو انسان کی صورت
نہ دیکھ، بلکہ اس کی حقیقت کو دیکھ۔" یہ اقتباس ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر
انسان کی ایک داخلی دنیا ہوتی ہے، جسے بیرونی تنقید یا تجسس کی نظر سے
دیکھنا اس کی انفرادیت کو مجروح کرتا ہے۔
مغربی ادب میں جارج اورویل کے ناول "1984" میں "عقلیت پسندی" کے نام پر نجی
زندگی کے خاتمے کو ایک ڈسٹوپیا کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ہمیں
خبردار کرتی ہے کہ جب معاشرہ دوسروں کے ذاتی معاملات کو اپنی بحث کا مرکز
بنا لے، تو آزادی اور انفرادیت ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح علامہ اقبال نے
اپنی شاعری میں خودی کی تعمیر پر زور دیا ہے، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے:
"خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے
بدلنے کا"۔ یہاں اقبال ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ دوسروں کی زندگیوں پر
تنقید کرنے کے بجائے اپنی اصلاح پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
غیبت اور تجسس کی عادت صرف اخلاقیات ہی نہیں، بلکہ معاشرے کی بنیادی ساخت
کو بھی تباہ کرتی ہے۔ نفسیاتی تحقیق کے مطابق، جو لوگ دوسروں کی زندگیوں پر
تبصرے کرنے میں مصروف رہتے ہیں، وہ درحقیقت اپنی کمتری کے احساس کو چھپانے
کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ رویہ ان کی اپنی نفسیاتی تسکین کا ذریعہ بن جاتا ہے،
مگر اس کا سماج پر مہلک اثر پڑتا ہے۔ معاشرے میں اعتماد کا فقدان، رشتوں کی
کمزوری، اور اجتماعی بے چینی کی ایک بڑی وجہ یہی "زہر آلود گفتگو" ہے۔
جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا نے اس مسئلے کو اور گہرا کر دیا ہے۔ آن لائن
پلیٹ فارمز پر لوگ بلا روک ٹوک دوسروں کی زندگیوں پر تبصرے کرتے ہیں، جس سے
نہ صرف غیبت کو فروغ ملتا ہے، بلکہ اس کی شدت بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ
"سائبر بُلِنگ" اور "ہیٹ اسپیچ" جیسے مسائل اسی رویے کی انتہائی شکل ہیں۔
ماہرین سماجیات کے مطابق، جب تک ہم اپنی گفتگو کے اخلاقی معیارات کو بلند
نہیں کریں گے، معاشرے میں مثبت تبدیلی کا خواب ادھورا رہے گا۔
اخلاقی بیداری اور اجتماعی ذمہ داری:
اس بحران کا حل صرف اور صرف اخلاقی بیداری میں پنہاں ہے۔ ہمیں اپنی روزمرہ
کی گفتگو کا محور دوسروں کی بجائے اپنی ذات، اپنے افکار، اور اپنے اعمال کو
بنانا ہوگا۔ قرآن مجید ہمیں حکم دیتا ہے: "وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا"
(البقرہ: 83)۔ یعنی "لوگوں سے اچھی بات کہو۔" یہ اصول نہ صرف ہمارے الفاظ
کو پاکیزہ بناتا ہے، بلکہ معاشرے میں محبت اور ہم آہنگی کو بھی فروغ دیتا
ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، ہمیں اپنے نوجوان نسل کو اخلاقی تعلیمات سے آراستہ کرنا
ہوگا۔ گھر، اسکول، اور مساجد میں ایسی تربیتی پروگرامز کا انعقاد ضروری ہے
جو غیبت کے سماجی اور مذہبی نقصانات کو واضح کر سکیں۔ نیز، ادب اور میڈیا
کو بھی مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ ڈراموں، فلموں، اور خبروں میں دوسروں کی
عزت کو مجروح کرنے والے مواد پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔
تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی سماجی تبدیلی انفرادی سطح سے شروع ہوتی ہے۔ ہر
انسان کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ وہ دوسروں کی زندگیوں کے معاملات میں تجسس سے
گریز کرے، غیبت کی محفلوں کو چھوڑے، اور اپنی زبان کو اللہ کی رضا کے لیے
استعمال کرے۔ پیغمبر اسلام ﷺ کا فرمان ہے: "مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ
وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ" (صحیح بخاری)۔
یعنی "جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ اچھی بات
کہے یا خاموش رہے۔" یہ خاموشی ہی درحقیقت ہمارے اخلاقی وجود کو بچانے کی
پہلی سیڑھی ہے۔
اس بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اپنے ضمیر کو جگانا ہوگا۔ ہر بات، ہر
تبصرے سے پہلے یہ سوچنا ہوگا: کیا یہ کلمۂ حق ہے، یا محض ایک بے مقصد
گفتگو؟ اگر ہم اپنی زبان کو اللہ کی یاد اور دوسروں کے احترام کے لیے وقف
کر دیں، تو یقیناً ہماری سماجی فضائیں پاکیزہ ہو سکتی ہیں۔ یاد رکھیے، ایک
چھوٹی سی اچھی بات بھی معاشرے کی تعمیر میں اینٹ کا کام کر سکتی ہے۔ آئیے،
ہم سب مل کر اس اینٹ کو مضبوط کریں۔
_____________________________________________________
|