انسانی شعور اور کائنات کے درمیان تعلق پر غور کرتے ہوئے
ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے: کیا ہماری موجودہ حقیقت دراصل کسی دوسری
ڈائمینشن میں طے ہونے والے واقعات کا تاخیری شاہد ہو سکتی ہے؟ یہ خیال، جو
سائنس فکشن کی حد تک پرکشش لگتا ہے، درحقیقت جدید طبیعیات اور کوانٹم
میکانکس کے کئی نظریات سے جُڑا ہوا ہے۔ آئن سٹائن کی عمومی اضافیت کے مطابق،
وقت ایک یکساں رفتار سے بہنے والی شے نہیں بلکہ کششِ ثقل اور رفتار کے تحت
پھیلنے والے سپیس ٹائم کے تانے بانے کا حصہ ہے، جس کی وجہ سے مختلف کائناتی
نظاموں میں وقت کی رفتار مختلف ہو سکتی ہے—ایسا ہی اثر ہم "ٹائم ڈائلیشن"
کے نام سے جانتے ہیں، جیسا کہ GPS سیٹلائٹس کے سسٹمز میں زمینی وقت اور
مدار میں وقت کے فرق سے ثابت ہوتا ہے۔ اگر ہم اس تصور کو ملٹی ورس تھیوری
سے جوڑیں، جو کہ کوانٹم میکانکس اور کاسمولوجی کا ایک فرضی ماڈل ہے، تو یہ
ممکن ہے کہ لامحدود ڈائمینشنز میں سے کسی ایک میں ہماری کائنات کا اختتام
پہلے ہی ہو چکا ہو، مگر ہمارے موجودہ سپیس ٹائم کنٹینوم میں اس کا شعوری
ادراک ابھی تک جاری ہے۔ مثال کے طور پر، "بلاک یونیورس" تھیوری کے مطابق،
وقت ایک جامع اکائی ہے جس میں ماضی، حال، اور مستقبل سب ایک ساتھ موجود ہیں،
اور ہمارا "حال" صرف ایک ایسا نقطہ نظر ہے جو ہماری محدود سینسری صلاحیتوں
کی عکاسی کرتا ہے۔ اس تناظر میں، اگر کوئی بیرونی ڈائمینشنل پراسس ہماری
کائنات کے "بلاک" کو تبدیل کر دے تو ہمارے لیے یہ تبدیلی کسی تاخیر کے ساتھ
محسوس ہو سکتی ہے، جیسے کسی فلم کے رول کو بعد میں دیکھنا جس کا اختتام
پہلے ہی ہو چکا ہو۔
کوانٹم فزکس کی "مینی ورلڈز انٹرپریٹیشن" بھی اسی سوچ کو تقویت دیتی ہے، جس
کے مطابق ہر ممکنہ واقعہ اپنی الگ ڈائمینشن میں وقوع پذیر ہوتا ہے، اور ہم
صرف ایک مخصوص ٹائم لائن کا ادراک رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ خیال ابھی تک
تجرباتی طور پر ثابت نہیں ہوا، لیکن 2020 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین
نے ایک مقالے میں تجویز دیا کہ کوانٹم سپرپوزیشن کی ریاضیاتی ساخت کو ملٹی
ورس کے تصور سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔ مزید گہرائی میں جائیں تو
ہولوگرافک پرنسپل، جسے لیونارڈ سسکنڈ اور جیرارڈ ٹی ہوفٹ نے پیش کیا، یہ
بتاتا ہے کہ تین جہتی دنیا دراصل ایک دو جہتی سطح پر موجود معلومات کا
پراجیکشن ہو سکتی ہے. بالکل اسی طرح جیسے ہولوگرام میں تھری ڈی امیج کو دو
ڈائمینشنل فلم پر محفوظ کیا جاتا ہے۔ اگر یہ نظریہ درست ہے، تو پھر ہماری
حقیقت کسی اور ڈائمینشنل پلیٹ فارم پر طے ہونے والے فیصلوں کا عکس ہو سکتی
ہے، جہاں وقت کا بہاؤ ہمارے ادراک سے مختلف ہو۔
اس سلسلے میں "بولٹزمین برینز" کا مفروضہ بھی دلچسپ ہے، جس کے مطابق بے
ترتیب کوانٹم فلوکچوئیشنز کے ذریعے ایک خود آگاہ ذہن (جیسے ہمارا شعور)
وجود میں آ سکتا ہے، چاہے اس کی جسمانی بنیاد (جیسے کائنات) ختم ہو چکی ہو۔
یہ تصور 19ویں صدی کے طبیعیات دان لوڈوگ بولٹزمین کے کام سے ماخوذ ہے، جسے
جدید کاسمولوجسٹس نے ڈارک انرجی اور کائناتی پھیلاؤ کے تناظر میں دوبارہ
اٹھایا ہے۔ اگر ہم فرض کریں کہ ہمارا شعور دراصل کسی ایسی ڈائمینشن کا
"آخری ارتعاش" ہے جہاں کائنات کا بیشتر حصہ تباہ ہو چکا ہے، تو یہ ہماری
موجودہ حقیقت کی ایک ممکنہ تشریح ہو سکتی ہے۔ تاہم، یہ خیال زیادہ تر
فلسفیانہ دائرے میں گردش کرتا ہے، کیونکہ اسے تجرباتی طور پر پرکھنے کا
کوئی طریقہ موجود نہیں۔
ایک اور زاویہ "کوانٹم سپریمسی" کا ہے، جسے ہارسےٹر کالج کے ماہر طبیعیات
ڈیوڈ ڈوئچ نے اپنی کتاب 'دی فبرک آف ریئلٹی' میں بیان کیا ہے۔ ان کا
استدلال ہے کہ کوانٹم پراسیسز ہی حقیقت کی بنیادی اکائی ہیں، اور ہمارا
مشاہدہ کردہ مادی دنیا محض ان کا ایک ظاہری روپ ہے۔ اگر ایسا ہے، تو پھر
کسی بھی ڈائمینشن میں وقت کے اختتام کا مطلب یہ نہیں کہ حقیقت کا خاتمہ ہو
گیا، بلکہ یہ کہ اس کی کوانٹم انفارمیشن کسی دوسرے میڈیم میں منتقل ہو گئی
ہو۔ اس تناظر میں، ہمارا موجودہ "حال" دراصل ماضی کے کسی کوانٹم ری ایکشن
کا تسلسل ہو سکتا ہے جو کسی اور ڈائمینشنل فریم ورک میں ریکارڈ ہو چکا ہے۔
سٹرنگ تھیوری اور M-تھیوری بھی اس بحث کو گہرائی فراہم کرتی ہیں۔ ان نظریات
کے مطابق، 11 ڈائمینشنز میں موجود "برینز" (جہتی سطحیں) ایک دوسرے سے ٹکرا
کر نئی کائناتیں جنم دے سکتی ہیں—ایسا ہی ایک واقعہ ہماری کائنات کے بگ
بینگ کی ابتدا سے منسلک کیا جاتا ہے۔ اگر یہ تصور درست ہے، تو پھر ممکن ہے
کہ کسی متوازی ڈائمینشن میں ہماری کائنات کا اختتام ہو چکا ہو، لیکن ہم اس
کے اثرات کو اپنی ڈائمینشنل برین پر محسوس کرنے سے قاصر ہوں، کیونکہ ہر
برین کا سپیس ٹائم اس کے اپنے قوانین کے تابع ہوتا ہے۔ 2018 میں CERN کے
تجربات میں ہائی انرجی پارٹیکل کولیزنز کے دوران کچھ غیر معمولی ڈیٹا سامنے
آیا تھا، جسے کچھ سائنسدانوں نے متوازی ڈائمینشنز سے آنے والی "شارٹس" قرار
دیا، تاہم یہ مشاہدات ابھی تک حتمی طور پر تصدیق شدہ نہیں ہیں۔
ناسا کے کیپلر مشن اور ہبل ٹیلی سکوپ کے ڈیٹا نے بتایا ہے کہ کائنات کا
پھیلاؤ تیزی سے ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے "بگ فریز" یا "ہیٹ ڈیتھ" جیسے
منظرنامے ممکن ہیں، جہاں کائنات کی توانائی بتدریج منتشر ہو کر اسے غیر
فعال کر دے گی۔ اگر ہم فرض کریں کہ یہ عمل کسی اور ڈائمینشن میں پہلے ہی
مکمل ہو چکا ہے، تو ہمارا موجودہ مشاہدہ محض ایک "تاخیری فوٹوں" کی مانند
ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ سٹیفن ہاکنگ نے اپنی آخری کتاب 'بریف اینسورز ٹو دی
بگ کوئسچنز' میں لکھا کہ کائنات کی تکونی تاریخ (Multiple Histories) کا
تصور یہ بتاتا ہے کہ ہر ممکنہ واقعہ کسی نہ کسی ڈائمینشن میں وقوع پذیر
ہوتا ہے، اور ہمارا شعور صرف ایک ہی ٹائم لائن کو سیلیکٹ کرتا ہے۔ تاہم، یہ
تمام مفروضے اپنی نوعیت کے اعتبار سے قیاس آرائی پر مبنی ہیں، کیونکہ فی
الحال انہیں تجرباتی طور پر پرکھنا ممکن نہیں۔ طبیعیات دان شین کیرول نے
اپنی کتاب 'دی بگ پکچر' میں واضح کیا ہے کہ ہماری موجودہ طبیعیات کا فریم
ورک ملٹی ورس یا متوازی ڈائمینشنز کے وجود کو مسترد نہیں کرتا، لیکن انہیں
ثابت کرنے کے لیے ہمیں ایک "تھیوری آف ایوری تھنگ" کی ضرورت ہوگی، جو اب تک
دریافت نہیں ہوئی۔ دوسری جانب، فلسفیانہ تناظر میں، یہ سوال ابھرتا ہے کہ
اگر ہماری حقیقت دراصل کسی اور ڈائمینشن کا ماضی ہو، تو پھر (Free Will) کا
تصور کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ کیا ہمارے تمام اعمال پہلے سے طے شدہ ہیں، اور
ہم صرف ایک پری ریکارڈڈ فلم کے تماشائی ہیں؟
اس کالم کا اختتام اس نتیجے پر ہوتا ہے کہ جدید سائنس ہمیں یہ سوچنے پر
مجبور کرتی ہے کہ حقیقت کی نوعیت ہمارے مشاہدے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔
ممکن ہے کہ ہماری کائنات کا اختتام کسی اور ڈائمینشن میں ہو چکا ہو، لیکن
ہمارا شعور اسے حال کے طور پر پراسیس کر رہا ہو, بالکل اسی طرح جیسے ہم
آسمان پر ستاروں کو ان کی موجودہ حالت میں دیکھتے ہیں، حالانکہ وہ ہزاروں
سال پہلے کی روشنی ہوتی ہے۔ یہ خیال نہ صرف طبیعیات کے دائرے کو وسیع کرتا
ہے بلکہ انسانی وجود کے بنیادی سوالات کو بھی نئے زاویے فراہم کرتا ہے۔ آخر
میں، البرٹ آئن سٹائن کا یہ قول یاد رکھنا چاہیے کہ "ریئلٹی صرف ایک
پرسپیکٹو ہے، چاہے وہ کتنا ہی مستحکم کیوں نہ لگے۔"
|