انسانی تاریخ میں ہونے والی ہر ایجاد نے ثابت کیا کہ اس
کے اچھے اور برے اثرات استعمال کرنے والوں پر مرتب ہوۓ . پاکستان میں
متعارف ہونے والےالیکٹرانک نیوز میڈیا کابھی یہی حال ہے کہ وقت نے اسکے بہت
سے فوائد کے ساتھ ساتھ بے انتہا نقصانات پر سے بھی پردہ ہٹایا
الیکٹرانک نیوز میڈیا کا قیام اس دور کی آرمی اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت تھی جسکا
مقصد یقینن عوام کو باخبر رکھنا نہیں تھا ، کیونکہ آمریت کتنی بھی خوشگوار
محسوس کیوں نہ ہو حقیقت میں وہ ایسا خواب ہے جسکی تعبیر ہر حال میں خوفناک
نکلتی ہے سو نیوز میڈیا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی رہا
پاکستان کا اسٹیٹ چینل حکومتی خبریں دیکھاتا تھا اپوزیشن کو یکسر نظر انداز
کیا جاتا تھا اسی لیے جب نجی چینلز پر اختلاف راۓ کو کچھ جگہ ملی تو نجی
چینلز دیکھنے والی عوام جو زیادہ تر ملک کے شہروں اور بیرون ملک قیام پزیر
ہے کو یہ خوشفہمی ہو گئی کہ یہ نجی چینلز جو حقیقت میں اسٹیبلشمنٹ کی چھپر
چھاؤں میں بنے تھے ، شاید آزاد ہوچکے ہیں اور انپر غیر جانبدارانہ ٹاک شوز
اور بے لاگ خبریں دی جارہی ہیں مگر حقیقت کچھ اور ہی رہی
یہ راز کھلا بھی جمہوری ادوار میں کہ نہ تو یہ چینلز "آزاد "ہیں اور نہ ان
میں کام کرنے والے صحافی ، تجزیہ کار ، نیوز ایڈیٹرز وغیرہ غیر جانبدار اور
پروفیشنلز ہیں ایک مخصوص ایجنڈے پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور ریٹنگ کا
بہانہ بنا کر خاص علاقوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور کچھ کو اسی ایجنڈا کی
وجہ سے نظر انداز کیا جاتا ہے
اس بارے میں انگنت تحریریں لکھی جاچکیں ہیں کہ کس طرح پاکستان کی عوام کو
باخبر رکھنے کا زریعہ بننے والا میڈیا کم از کم ایک پوری نسل کو یقینی طور
پر گمراہ کرچکا ہے یہ نسل نہ پاکستان کی سیاسی تاریخ جانتی ہے نہ آئین و
قانون کے بارے میں اسکو کچھ اتہ پتہ ہے نہ ہی بین الاقوامی سیاسی حالات کے
بارے میں انکا مطا لعہ ہے نہ معلومات . بس کسی چینل سے آدھی خبر اٹھائی ،
کسی دوسرے چینل سے آدھی تصویر دونوں کو جوڑا اور سوشل میڈیا پر اپنی گالم
گلوچ برگیڈ کے ذریعے پھیلا دیا
ایسوں سے آپ معلومات ، حقایق ، دلائل پر کوئی بات کر ہی نہیں سکتے مگر سب
سے بڑا افسوسناک پہلو اسمیں میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ کردار ہے جس پر آج بھی
کچھ نامور صحافی موجود ہیں جنکو اس معلومات کی سونامی میں ڈوبتی ابھرتی نسل
کی سیاسی تربیت کرنی چاہیے تھی . سیاستدانوں پر یہ ذمہ داری ڈالنی پاکستان
جیسے ملک میں تقریبا '' ناممکن ہے کیوں کہ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ
سیاستدانوں کے خلاف جھوٹ پر مبنی ایک مکمل مہم ستر پچھتر سال سے چلا رہے
ہیں دوسری طرف سیاستدانوں میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو لیکر جنگ تک کا
ماحول بن جاتا ہے حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسی جنگ کو جو سمجھدار سیاستدان
"مفاہمت " کے سفید جھنڈے سے پرامن ماحول میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں انکی اس
کوشش کو " مک مکاؤ " جیسے الفاظ اور اپنے بھانڈ پن کے ذریعے یہی نیوز میڈیا
بدنام کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ جلتی پر تیل ڈالا جاۓ تاکہ اس بھڑکتی آگ
کو بیچ کر اپنے بال بچوں کا صرف پیٹ ہی نہ بھرا جاۓ بلکہ انکو بیرون ملک
تعلیم اور روزگار کے لیے سیٹل کروا دیا جاۓ
آپ کے مشاہدے میں بھی آیا ہوگا کہ بہت سے نامور صحافی برسوں تک "صحافت "
کرتے کرتے ایک دم سے اسٹیبلشمنٹ کی جمہوریت کش دکان پر بیٹھے دوکاندار کیسے
بن گیے ؟ اللہ کا فرمان ہے کہ "تمھا رے مال اور اولاد میں تمھارے لیے فتنہ
ہے " اور یہ حقیقت کھل کر آپ کے سامنے پچھلے دس بارہ برسوں سےآگئی ہے جب کہ
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بہت سے قلم کار اس نیوز میڈیا کی بے راہروی سے
پہلے بھی انہی راستوں پر چلے اور اولاد کی" ترقی " کے بدلے قلم بیچ دیا
ناخواندگی نے تو قلم بیچ قبیلے سے عوام کے ایک بڑے حصے کو بچا رکھا تھا،
سیاست و نظریات پر وہ اپنے دماغ کو استعمال کر کے فیصلے کرتے تھے مگر
اسکرینوں پر بیٹھے نام نہاد دانشوروں نے تو خواندہ افراد کو بھی سیاسی
بانجھ پن کا شکار کردیا ہے ایک ڈگری یافتہ نسل مستقل میڈیا کے گورکھ دھندے
میں الجھ کر پختہ عمر کو پہنچ چکی ہے اور ناخواندہ افراد کی بھی ایک بڑی
تعداد ہے جو دکانوں، ہوٹلوں حتی کہ کچی بستیوں میں چوبیس نہیں تو اٹھارہ
گھنٹے تجزئے کے نام پر بےمقصد مباحثے اور ذہنی خلفشار کا نشہ استعمال کرتی
رہی ہے
عوام کے ذہنوں کو مستقل کسی خوف ، فتنے اور بے سمت سفر میں مبتلا رکھنے کے
لیے یہ چینلز قائم کیے گیے او یقینن یہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے ہیں .
بیرون ملک پاکستان کی جو شکل اشرافیہ کا ایک خاص حلقہ تارکین وطن کے تصور
میں جمانا چاہتا تھا، اب وہ جم چکی ہے اور اگلے کتنے ہی برسوں میں یہ "شکل
" دھندلی ہونا بھی ناممکن لگتا ہے
جس نام نہاد نیوز میڈیا کو ہم معلومات کا زر یعہ سمجھے تھے، اسکرینوں پر
بیٹھے نوسربازوں کو تجزیہ کار جانا تھا اور خبروں کو توڑ مروڑ کر جھوٹ کو
سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے والے "اینکروں "کو صحافی سمجھا تھا ، وقت نے ان
چینلز کو عنکبوت کا گھر ثابت کیا. یہ کمزور ، الجھے ہوے تار سن دو ہزار دو
سے نہ پاکستان کی قومی زندگی میں بہتری لا سکے اور نہ کسی مسلے کا حل ڈھونڈ
سکے نہ وطن دشمنوں کی درپردہ سازشوں پر سے نقاب اٹھا سکے ان کے لیے آسان تر
مال بنانے کا طریقہ یہ تھا کہ جو سیاستدان بدنام نہیں انکو بدنام کرو اور
جو مخصوص اشرفیہ کے ہاتھوں بدنام ہوچکے تھے انکو بدنام ترین کردو .جمہوریت
کو "مذاق "بنانے کے لیے پنجاب اور کراچی میں اچھی ریٹنگ والی پارٹیوں کے
کچھ "چلتے پرزے "اپنے اسٹوڈیو میں منگوا کر ہوسٹ کے ہاتھ میں "ڈگڈگی " دے
دو اور بس ! ایسے میں کونسی خبر ؟ اور کونسا تجزیہ ؟
سو قارئین ! آج آپ کے سامنے ہے کہ مقاصد حاصل ہونے کے بعد وہی "ڈگڈگی "تھا
منے والے ہاتھ اب اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں . جن کو بدنام کرنا تھا کر دیا ،
جس ڈگری یافتہ شہری نسل کو لاعلم رکھنا تھا وہ سیاسی بانجھ پن ، تقسیم اور
نفرت کا شکار ہوچکی اور جوخبریں یا قبریں چھپانی تھیں وہ چھپا لی گئیں اب
مزید "اظہار آزادی " کی نہ ضرورت ہے اور نہ فایدہ سو " پروپر پاکستان "سے
کچھ صحافی غائب ہیں اور کچھ پر اداروں کی نظر کرم پڑنے کی قوی امید ہے
ہم میں سے بہت ہیں جو اس آنے والے وقت کی چاپ سن رہے تھے اور اپنی گفتگو
اور تحریروں سے عوام کو باخبر کرنے کی کوشش بھی کر رہے تھے مگر ہونی کو کون
ٹال سکا ہے ؟
|