رب کا یہ خاص کرم ہے کہ اس ملک میں سارے سیاستدان منفی
رویے کا ساتھ ہی جیتے ہیں ۔ انہوں نے مثبت رویہ دیکھا اور جانا ہی نہیں یا
شاید یہ رویہ ان کی لیڈری کو راس ہی نہیں آتا۔ کچھ قوم کا مزاج بھی ایسا ہے
کہ منفی چیزیں جلد قبول کرتی ہے۔ مثبت ہمارے عوام کو جلد پسند نہیں آتا۔ بد
قسمتی اور مجبوری ہے اس ملک میں کوئی چیز اپنی جگہ پر رہنا پسند ہی نہیں
کرتی۔آج کل نہریں اس ملک میں تختہ مشق ہیں۔ پانی رب کی ایک بڑی نعمت ہے۔
پوری دنیا پانی کو محفوظ کرنے کی جدوجہد میں ہے۔ دنیا بھرکے ہر ملک میں ڈیم
بن رہے ہیں، نہریں نکالی جا رہی ہیں۔ کسی نے کبھی اس پر تنقید نہیں کی ۔
وہاں کے لوگ اوراس ملک کے سیاستدان خوش ہوتے ہیں کہ خوش حالی کے اقدامات ہو
رہے ہیں غربت دور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ ہمارے سیاست دان ڈیم یا نہر کا
سن کر پریشان ہی نہیں،فوت ہونے لگتے ہیں۔
1947 میں پنجاب تقسیم ہو گیا ۔پنجاب کا 3/5 حصہ پاکستان کے پاس اور 2/5
بھارت کا حصہ ٹھہرا۔ تقسیم سے قبل پاکستانی پنجاب میں موجودہ فیصل آباد اور
اس کے گردونواح کے علاقے پورے برصغیر کی غذائی ضروریات پوری کرتے تھے۔
بھارت کے حصے آنے والا پنجاب عملاً بنجر تھا۔ وہاں فصل بہت کم ہوتی تھی۔آج
صورت حال بہت الٹ ہے۔ ہماری آبادی بڑھ چکی مگر ہماری فی ایکڑ کاشت میں کوئی
فرق نہیں آیا۔پانی کی صورت حال بد سے بد ترین ہوتی جا رہی ہے۔ محمد شاہ
تغلق اور پھر انگریزوں کی بنائی ہوئی نہروں پر ہی قوم کاگزارہ ہے۔یہ صورت
حال ہماری بد حالی میں اضافے کا باعث ہے۔بھارتی پنجاب جسے کبھی ہم بنجر
گردانتے تھے، وہاں صرف دو ایکڑ کا مالک بھی انتہائی خوشحال ہے۔پورے بھارتی
پنجاب میں کہیں چند گز زمین بھی بنجر نظر نہیں آتی۔وہاں آپ کو کھیت مزدور
نہیں ملتا۔ مزدوری کے لئے جنوبی بھارت کے باشندے کھیتوں میں جھونپڑیاں بنا
کر رہ رہے ہیں۔ ہم ایکڑ سے پچاس من گندم حاصل کرتے ہیں وہ ڈیڑھ سو من تک کو
چھو رہے ہیں۔ان کی یونیورسٹیاں حقیقی ریسرچ کر رہی ہیں۔ بھارت کی سب سے بڑی
نہر اندرا گاندھی نہرجو آزادی کے بعد وجود میں آئی ہے،650 کلو میٹر لمبی ہے
، وہ نہرستلج اور بیاس کو مکمل چوس کر پنجاب، ہریانہ اور راجستان کو سیراب
کرتی ہے۔وہاں کی غربت دور کرتی ہے۔ وہاں کا بنجر پن دور کرتی ہے۔ وہاں کوئی
سیاستدان ڈیم کی مخالفت نہیں کرتا۔ اپنی لاش کا نذرانہ دینے کی بات نہیں
کرتا کیونکہ پتہ ہوتا ہے کہ لاش گل سڑ جائے گی مگر کوئی توجہ نہیں دے
گا۔نہر بھی کسی کو گراں نہیں گزرتی، کوئی نہر کے نام پر حکومت کو بلیک میل
نہیں کرتا حکومت بھی کسی دباؤ میں نہیں آتی۔اسی لئے وہاں خوشحالی ہے ،
بہتری ہے اور لوگ ڈیموں اور نہروں سے مستفید ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں پنجاب کے علاقے بہاولپور، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان بھکر،
خوشاب اور لیہ بہت اچھی زمینیں ہونے کے باوجود پانی کی کمی کا شکار ہیں۔کوہ
سلیمان پر بارشوں اور سیلاب کی صورت میں ڈیرہ غازی خان کے کچھ علاقے کھل
اٹھتے ہیں وگرنہ وہی ویرانہ جو وہاں کا معمول ہے۔ بلوچستان میں بارشوں اور
سیلاب کا تمام پانی ہم ضائع کر دیتے ہیں۔ تھر، چولستان، خاران اور چاغی کے
صحراؤ ں پر ہماری کوئی توجہ نہیں۔پورے سال میں ملنے والے پانی کا ساٹھ فیصد
ہم ضائع کر دیتے ہیں جب کہ ہماری ساٹھ فیصد سے زیادہ زمینوں کو بہت پانی
درکار ہے۔ پاکستان میں کل رقبہ جو کاشت کیا جا سکتا ہے تقریباً 80 ملین
ہیکٹر ہے مگر ہم پانی سے فقط 18 ملین ہیکٹر رقبہ کاشت کرتے ہیں۔ 12 ملین
ہیکٹر رقبہ ٹیوب ویل اور دیگر ذرائع کے پانی سے سیراب ہوتا ہے 7 ملین ہیکٹر
بارانی ہے جو بارش کا محتاج ہوتا ہے۔ 1991 کے معاہدے کے تحت خریف اور ربیع
کے پانی کو ملا کر پنجاب کو 55.94 (MAF)، سندھ کو 48.76 (MAF)، خیبر
پختونخواہ کو 8.78 (MAF) اور بلوچستان کو 3.87 (MAF) دریائے سندھ کاپانی
دئیے جانے کا فیصلہ ہوا تھا۔MAF ملین ایکڑ فیٹ کا مطلب ہے پانی کی وہ مقدار
جو ایک ایکڑ زمین کو ایک فٹ اونچائی تک پانی میں ڈبونے کے لئے درکار ہوتی
ہے۔ یہ عام طور پر 325,851 گیلن یا 1233 مکعب میٹرپانی ہوتا ہے۔تمام صوبوں
کو گلہ ہے کہ اس معاہدے پر پوری طرح عمل نہیں ہوتا۔ لیکن کون خلاف ورزی
کرتا ہے، یہ وہ الزام ہے جو ہر ایک دوسرے پر عائد کرتا ہے۔اس معاہدے کے
باوجود سندھ کا 29 (MAF) پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ اور ایک (MAF) پانی کے ضائع
ہونے سے ہمیں ایک بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت انسانی ہاتھوں سے بنایا سب سے بڑا نہری سسٹم ہے ۔ یہ
نہریں مل کر کل 48 ملین ایکڑ زمین کو سیراب کرتی ہیں۔اس وقت پاکستان میں
پانی کے تین بڑے ذخائر، منگلاڈیم، تربیلا ڈیم اور چشمہ بیراج ہیں۔اکیس ہیڈ
ورکس ہیں جو دریا کے پانی کو نہروں میں منتقل کرتے ہیں۔ جن میں مشہور خانکی،
مرالہ، قادر آباد، سلیمانکی،غازی بروتھا، رسول، پنجند وغیرہ شامل ہیں۔پانی
کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لئے میلسی اور لاہور میں دو سائیفن ہیں۔پاکستان
بھر میں 45 مین یا بڑی نہریں ہیں جن میں 24 نہریں پنجاب میں ہیں۔ پنجاب کی
سب سے پرانی نہر اپر باری دواب ہے جسے شاہ جہان نے 1693 میں تعمیر کرایا۔
1850 میں انگریزوں نے اسے بہتر بنایا اور پورے نہری سسٹم کو بہت سے علاقوں
تک پھیلایا۔ پنجاب میں 22700 کلومیٹر لمبی چھوٹی نہریں اور 51990 موگھے ہیں۔
سندھ میں14 بڑی نہریں ہیں جن سے 1446چھوٹی نہریں اور 45000موگے نکلتے ہیں،
جو سندھ کے 5 ملین ہیکٹر رقبے کو سیراب کرتی ہیں۔ ایک ہیکٹر تقریباً 2.48
ایکڑ کے برابر ہوتا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں چھ بڑی نہریں ہیں۔جو چار لاکھ
ایکڑ سے زیادہ رقبے کو سیراب کرتی ہیں
سندھ کے سکھر بیراج سے پاکستان میں سب سے زیادہ سات نہریں نکلتی ہیں جن میں
نارہ نہر سب سے بڑی اور 364 کلو میٹر لمبی ہے۔ اس نہر میں پانی کا ڈسچارج
لندن کے دریائے ٹیمز کے برابر ہے اور اس کی زمینی چوڑائی 364 فٹ ہے جو مصر
کی نہر سویز سے ڈیڑھ گنا چوڑا ہے۔ دریائے سندھ نے کسی زمانے میں اپنا راستہ
بدل لیا تھا۔ وہ پرانا دریا یا اس دریا کی باقیات اب دریائے پران کہلاتا ہے۔
یہ نہر پران دریا میں راستہ بناتے ہوئے سمندر تک جاتی ہے۔ بہر حال یہ سب جو
کچھ جو آج زراعت میں ہو رہا ہے پرانی نہروں کی بدولت ہے۔ اب نہریں نہیں
بنیں گی۔اس لئے کہ نہریں بنیں گی تو لوگوں میں خوش حالی آئے گی، شعور آئے
گا، علم آئے گا، علم ان کے سلیکشن کے معیار بدل دے گا۔ سلیکشن کاروباری
انداز میں نہیں ہو گی۔ موجودہ قیادتیں اپنا وقار کھو دیں گی۔اس لئے نہر
نہیں بنے گی۔ نہروں کا نیا جال تو موجودہ قیادتوں کے لئے ایک پھندہ ہے۔ اس
پھندے میں کون کیوں پھنسے۔ اس سے فرار ہی بہتر ہے۔ |