محکمہ صحت کا بگڑا نظام اور عوامی سرجن خواجہ حسان

گذشتہ روز صحت کا عالمی دن تھا تو مجھے اپنے ملک میں لوگوں کی صحت اور انکی صحت کے متعلق سہولیات کے بارے میں جان کر حیرت کے کئی جھٹکے لگے کہ عوام کے ووٹوں سے عوام کے حقوق کی محافظ حکومت نے عوام کی صحت کا کتنا خیال رکھاہوا ہے اور تو اور ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں بیٹھے ہوئے سرکاری ملازم عوام کو کتنی عزت دیتے ہیں صحت کا عالمی دن تھا پہلے اس کے بارے کچھ جان لیتے ہیں اسکے بعد سرکاری ہسپتالوں کا آپریشن کرتے ہیں دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن ’’ورلڈ ہیلتھ ڈے‘‘ 7اپریل کو منایاگیا دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن سب سے پہلے 1950ء میں منایا گیاتھا 1948ء میں عالمی ادارہ صحت (WHO) کے ذیلی ادارے ہیلتھ اسمبلی نے ہر سال 7اپریل کو صحت کا عالمی دن منانے کی منظوری دی جس کے بعد دنیا بھر میں 7اپریل کو ’’ورلڈ ہیلتھ ڈے‘‘ منایا جاتا ہے لیکن اس حوالہ سے پاکستان میں یہ دن بھی حسب سابق تمام بین القوامی دنوں کی طرح خاموشی سے گذر گیا نہ ہی کسی ہسپتال نے اس حوالہ سے کوئی آگاہی مہم چلائی اور نہ ہی مریضوں کو کوئی سہولت دی گئی بلکہ ہمارے ہاں تو سرکاری سطح پر صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور بجٹ اتنا محدود ہے کہ وہ ہسپتال والوں کی اپنی عیاشیوں میں لگ جاتا ہے ایک ایم ایس جسکا کام ہی ہسپتال میں مریضوں کو سہولیات پہنچانا ہوتی ہیں سب سے پہلے تو وہ اپنے دفتر میں مریضوں کا داخلہ بند کردیتا ایک سیکیورٹی گارڈ دروازے پر جم کے کھڑا رہتا ہے اور کسی کو بھی صاحب سے ملنے کی اجازت نہیں دیتا دیہی علاقوں میں یہ صورتحال اور بھی سنگین ہے بہت سے علاقوں میں مناسب ہسپتالوں، کلینکوں اور طبی سہولیات کا فقدان ہے اکثرہسپتالوں میں بوسیدہ اور ناکافی آلات ہیں اسکے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبی پیشہ ور افراد کی ملک بھر میں قلت ہے دیہی علاقوں میں کام کرنے کے لیے طبی عملہ رضامندنہیں ہوتا غریب اور پسماندہ طبقات کو معیاری صحت کی سہولیات ہی نہیں ملتی اور مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ علاج کروانے سے قاصر رہتے ہیں بہت سے لوگوں میں صحت اور بیماریوں سے بچاؤ کے بارے میں مناسب آگاہی نہیں ہے صحت کے شعبے میں کرپشن بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے مختص فنڈز کا غلط استعمال ہوتا ہے اور وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ ہے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے موجودہ طبی سہولیات پر مزید دباؤ پڑ رہا ہے ان مسائل کے نتیجے میں عام لوگوں کو بروقت اور معیاری علاج معالجہ میسر نہیں آتا جس سے بیماریوں کا پھیلاؤ بڑھتا ہے تاہم حکومت اور مختلف تنظیمیں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں صحت سہولت پروگرام حکومت کا ایک اہم اقدام ہے جس کا مقصد تمام شہریوں کو صحت کی انشورنس فراہم کرنا ہے اس کے علاوہ، طبی تعلیم کو بہتر بنانے اور دیہی علاقوں میں طبی سہولیات کو بڑھانے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے پنجاب کے وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر ہیں ان دونوں خواجگان میں سے خواجہ سلمان رفیق خواجہ عمران نذیر سے کہیں بہتر کام کررہے ہیں جنکی کوششوں سے محکمہ صحت میں بہتری بھی آئی ہے لیکن خواجہ عمران نذیر کی عدم دلچسپی سے محکمہ صحت کاماحول بگڑ رہا ہے انکے بارے میں ایک عوامی رائے یہ بھی پائی جارہی ہے کہ انہیں محکمہ صحت کی بجائے کوئی اور محکمہ دیدیا جائے تو یہ محکمہ صحت کے لیے بہت اچھاہوگا جبکہ خواجہ سلمان رفیق صحیح معنوں میں ایک عوامی لیڈر ہیں جو ہر وقت عوام میں ہی رہتے ہیں اور انکی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح محکمہ صحت کا بگڑا ہوا نظام درست ہوسکے اس وقت پاکستان میں 1200 سے زیادہ سرکاری ہسپتال اور تقریبا اتنے ہی نجی ہسپتال ہیں جو انتہائی مہنگے ترین ہیں جہاں غریب آدمی علاج کروانے تو کیا کسی کی تیمارداری کے لیے بھی نہیں جاتا پنجاب میں اس وقت 58بڑے سرکاری ہسپتال ہیں اگر ہم پاکستان کے دل لاہور کی بات کریں تو یہاں پر 17 بڑے سرکاری ہسپتال موجود ہیں جن میں لاہور جنرل ہسپتال، پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ،انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ،لیڈی ایچی سن ہسپتال،دی چلڈرن ہسپتال اینڈ دی انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ،جناح ہسپتال،لیڈی ولنگڈن ہسپتال،میو ہسپتال،پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی،سروسز ہسپتال،سر گنگا رام ہسپتال، محمد نواز شریف ہسپتال،پنجاب ڈینٹل ہسپتال،میاں منشی ہسپتال، کوٹ خواجہ سعید ٹیچنگ ہسپتال، شاہدرہ سٹی ہسپتال، پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز پنجاب اورسید میٹھا ہسپتال شامل ہیں ان ہسپتالوں میں تعینات ہونے والے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس کی اکثریت سفارشی ہے اس لیے وہ کام نہیں کرتے لاہور کے بلکل درمیان میں دو ہسپتال ہیں میو اور گنگا رام ان دونوں کی حالت قابل غور ہے یہ دونوں ہسپتال پنجاب اسمبلی ،وزرا ،سیکریٹریٹ اور عوامی نمائندوں کے ہاسٹلز کے بلکل پاس ہیں اور ان ہسپتالوں میں تقریبا سبھی کلاس کے لوگوں کا آناجانا لگا رہتا ہے یہاں کا سٹاف انتہائی بدتمیز لیبارٹریوں میں کام کرنے والے لاپرواہ اور بدمعاش جنکا رویہ انتہائی قابل مزمت رہی بات ڈاکٹروں اور پروفیسروں کی وہ تو اپنے آپ کو ان ہسپتالوں کے خالق اور مالک سمجھتے ہیں ان ہسپتالوں میں مریضوں اور سٹاف کا لڑائی جھگڑا معمول کی بات ہے ان ہسپتال والوں کو یہ نہیں علم کی عزت نفس بھی کوئی چیز ہوتی ہے یہ دو وہ ہسپتال ہیں جو ہر وقت حکمرانوں کی ناک کے نیچے ہیں اسی کو مثال بنا کر آپ پنجاب کے باقی ہسپتالوں کا موازہ کریں تو وہاں کا سٹاف بدتمیزی میں ان سے کتنا آگے ہوگا پنجاب چونکہ پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا اور صنعتی صوبہ ہے اس لیے ہمارے حکمرانوں کو صحت کی سہولت اگر بہتر انداز میں عوام تک پہنچانی ہے تو سب سے پہلے ان ہسپتالوں میں عوامی سوچ کے حامل افراد کو اہم ذمہ داریاں دی جائیں جنکا نہ صرف اخلاق متاثر کن حد تک عوامی ہو بلکہ ایک عام آدمی بھی ان تک پہنچ کر اپنا آدھا دکھ بھول جائے اس سلسلہ میں لاہور کی ہر دلعزیز شخصیت خواجہ احمد حسان کو اس عوامی کام کی ذمہ داری دی جائے جو ہر ہسپتال میں اپنے جیسے شخص کو ایم ایس کی ذمہ داریاں دیں تاکہ عام آدمی بھی ہسپتال میں آکر اطمینان محسوس کرے اس حوالہ سے راجہ ذوالقرنین بھی ایک خوبصورت اور مزیدار شخصیت ہیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں آزمائشی طور پر انہیں لاہور کے کسی ایک ہسپتال کا قبلہ درست کرنے کا ٹاسک دیدیا جائے تو صرف ایک ہفتہ میں واضح تبدیلی نہیں بلکہ تبدیلیاں محسوس ہونے کے ساتھ ساتھ نظر بھی آنا شروع ہو جائینگی وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ نے محکمہ صحت پر اپنی بھر پور توجہ کی ہوئی ہے لیکن اسکے وہ رزلٹ نہیں آرہے جو وہ چاہتی ہیں اس کے لیے محکمہ صحت میں ایک بڑے آپریشن کی ضرورت ہے اور اس کے لیے بڑے عوامی سرجن خواجہ احمد حسان بھی موجود ہیں بس انکے ذمہ کام لگائیں اسکے بعد حالات خود بخود بہتری کی طرف بھاگنا شروع ہوجاتے ہیں انکے علاوہ کوئی دوسرا شخص محکمہ صحت کے فنا ہوتے ہوئے نظام کو درست کربھی نہیں سکتا ۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 839 Articles with 684700 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.