حفصہ نام، قریش کے خاندان عدی سے تھیں۔ نسب نامہ یہ ہے۔
حفصہ بنت عمر فاروق بن خطّاب بن نفیل بن عبدالعزّیٰ بن رباح بن عبداللہ بن
قرطہ بن زراح بن عدی بن کعب بن لُوَئ۔
والدہ حضرت زینب بن مظعون رضی اللہ عنہا تھیں، جو بڑی جلیل القدر صحابیہ
تھیں۔ عظیم المرتبت صحابی حضرت عثمان بن مظعون حضرت حفصہ کے ماموں اور فقیہ
اسلام حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ انکے حقیقی بھائی تھے۔ حضرت حفصہ
رضی اللہ عنہا بعثت نبوی سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں۔۔
تاریخی کتب کے اعتبار سے پہلا نکاح حضرت خنیس بن حذیفہ رضی اللہ عنہ بن قیس
بن عدی سے ہوا جو بنو سہم سے تھے، وہ دعوت حق کی ابتدا میں شرف اسلام سے
بہرور ہوگئے اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بھی انکے ساتھ ہی سعادت اندوز
اسلام ہو گئیں۔
حضرت خنیس رضی اللہ عنہ سنہ ۶ بعد بعثت میں ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے۔ ہجرت
نبوی سے کچھ عرصہ پہلے مکہ واپس آئے اور پھر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے
ساتھ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے۔
وہ راہ حق کے جانباز سپاہی تھے، سنہ ۲ ہجری میں غزوہ بدرپیش آیا تووہ اس
میں بڑے جوش وجذبے کے ساتھ شریک ہوئے، پھر سنہ ۳ ہجری میں غزوہ اُحد میں
اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے اور مردانہ وار لڑتے ہوئے شدید زخمی ہوگئے۔ اسی
حالت میں انہیں مدینہ لے جایا گیا لیکن جانبر نہ ہوسکے اور حضرت حفصہ رضی
اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں۔
جب ان کی عدت کا زمانہ پورا ہو گیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ان
کے نکاح ثانی کی فکر ہوئی۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تخلیہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ سے حضرت حفصہ رضی اللّٰہ کا ذکر کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس
کا علم نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ کو حفصہ رضی اللّٰہ
سے نکاح کر لینے کیلئے کہا وہ خاموش رہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ناگوار
گزرا۔ پھر وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اسی زمانے میں حضرت
رقیّہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنی لخت جگر سے نکاح کر لینے کیلئے کہا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں ابھی نکاح نہیں کرنا چاہتا۔ اب حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر
ہوئے اور تمام حالات بیان کئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ حفصہ کا نکاح ایسے شخص سے کیوں نہ
ہوجائے جو ابوبکر اور عثمان دونوں سے بہتر ہے۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ حفصہ کی شادی
اس شخص سے ہوگی جو عثمان سے بہتر ہے اور عثمان کا نکاح اس سے ہوگا جو حفصہ
سے بہتر ہے۔‘‘
اسکے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح
کرلیا اور اپنی دوسری بیٹی حضرت امّ کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ سے کردیا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو امّ المؤمنین حضرت زینب بنت جحش کے ہاں معمول سے
زیادہ دیر ہوگئی کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں شہد کھانے میں مصروف
رہے جو کسی نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ہدیہ میں بھیجا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بہ تقاضائے فطرت رشک ہوا، ان میں اور حضرت
حفصہ میں بہناپا تھا، چنانچہ وہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں،صورت
واقعہ بیان کی اور کہا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس تشریف
لائیں تو ان سے کہنا۔’’ یا رسول اللہ کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟‘‘
یہ ایک لطیف اشارہ ہے۔ مغافیر ایک قسم کا پھول ہے جب شہد کی مکھی اسے چوستی
ہے اس سے جو شہد بنتا ہے اس میں ذرا ناگوار سی بو ہوتی ہے، اور رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کی بو ناپسند تھی۔ مقصد یہ کہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں سے جو شہد کھایا اسکی وجہ سے
مغافیر کی بو دہن مبارک سے آتی ہے۔
حضرت حفصہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ویسا ہی کہا۔حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے اسے سخت ناپسند فرمایا کہ مغافیر کی بو آپ کے دہن مبارک سے آئے۔
فرمایا:’’ آئندہ میں کبھی شہد نہ کھاؤں گا۔ اس بات پر آیت تحریم نازل
ہوئی:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ
تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ترجمہ: اے نبی جس چیز کو اللہ نے آپ کیلئے حلال کردیا ہے اسے آپ کیوں
حرام کرتے ہیں؟ کیا آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور
اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ سورۃ التحریم:۱)
بعض ارباب سیئر آیت ’’ وَاِذَا اَسَرَّالنِّبِیُّ اِلیٰ بَعْضِ اَزْوَاجِہ
حَدِیْثاً ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے کوئی راز کی بات کہی اور وہ انہوں نے فاش کردی،
قاضی سلمان پوری نے ’’ رحمتہ للعالمین‘‘ میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ جب ربّ
العزّت کو اپنے حبیب کے گھرانے کی عزت و حرمت کا اتنا پاس ہے کہ کسی کا نام
نہیں لیا تو ہم کو بھی اس بارے میں جرأت نہیں کرنی چاہئے۔
صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے
مزاج میں کسی قدر تیزی تھی اور وہ کبھی کبھار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کو بھی بےباکی سے جواب دے دیا کرتی تھیں، ایک دن حضرت عمرفاروق رضی اللہ
عنہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے حضرت حفصہ سے پوچھا: ’’ میں نے سنا ہے کہ تم
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برابر کا جواب دیتی ہو کیا ہے ٹھیک ہے؟‘‘
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ’’ بیشک میں ایسا کرتی ہوں۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا:’’ بیٹی خبردار! میں تمہیں
اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں، تم اس خاتون حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ریس
نہ کرو جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے اپنے حسن پر
ناز ہے۔‘‘
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر قسم کے مسائل
پوچھنے میں بھی بےباک تھیں۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اصحاب بدر و حدیبیہ جہنّم میں داخل نہ ہونگے۔‘‘
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’ یا رسول اللہ! اللہ تو قرآن میں
فرماتا ہے وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلاَّ وَارِدُھاَ تم میں سے ہر ایک وارد جہنّم
ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں مگر یہ بھی تو ہے:
ثُمَّ نُنَجِّیْ الََّّذِیْنَ اتَّقُوْا وَّتَذَّرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْھَا
جِثِیاًّ ’’ پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دینگے اور ظالموں کو اس میں گرا ہوا
چھوڑ دینگے۔‘‘
مزاج کی فطری تیزی کے باوجود حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نہایت خدا ترس تھیں
اور اپنا بیشتر وقت عبادت الٰہی میں گزارتی تھیں۔ حافظ ابن البر رحمہ اللہ
نے ’’الاستیعاب‘‘ میں یہ حدیث ان کی شان میں بیان کی ہے ایک مرتبہ حضرت
جبرائیل علیہ السلام نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ الفاظ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہے:
وہ بہت عبادت کرنے والی، بہت روزے رکھنے والی ہیں، (اے محمّد) وہ جنّت میں
بھی آپ کی زوجہ ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی تعلیم کا خاص
بندوبست فرمایا۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے
مطابق حضرت شفاء بنت عبداللہ عدویہ نے ان کو لکھنا سکھایا۔ امام احمد نے یہ
بھی لکھا ہے کہ حضرت شفاء نے ان کو چیونٹی کے کاٹنے کا منتر بھی سکھایا۔
بعض اہل سیئر نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن حکیم کے
تمام کتابت شدہ اجزاء کو یکجا کرکے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس رکھوا
دیا۔ یہ اجزاء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تا زندگی ان کے پاس
رہے۔ یہ ایک عظیم الشّان شرف تھا جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو حاصل ہوا۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا دجّال کی شر سے بہت ڈرتی تھیں۔ صحیح مسلم میں
روایت ہے کہ مدینہ میں ایک شخص ابن صیاد تھا۔اس میں دجّال کی بعض علامات
پائی جاتی تھیں۔ ایک دن حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو راستے میں مل
گیا، انہوں نے اسکی بعض حرکتوں پر اظہار نفرت کیا۔ عبداللہ ابن صیاد حضرت
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا، انہوں نے اسے
پیٹنا شروع کردیا۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو خبر ہوئی تو بھائی سے کہنے
لگیں۔
’’ تم اس سے کیوں الجھتے ہو،تمہیں معلوم نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا ہے کہ دجّال کے خروج کا محرّک اس کا غصہ ہوگا۔‘‘
حضرت حفصہ نے سنہ ۴۵ ہجری میں مدینہ میں وفات پائی۔ مدینہ کے گورنر مروان
نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک جنازہ کو کندھا دیا۔ اسکے بعد
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جنازہ کو قبر تک لے گئے پھر امّ المؤمنین کے
بھائی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور بھتیجوں نے قبر میں اتارا۔
وفات سے پہلے حضرت عبداللہ رضی اللہ کو وصیّت کی کہ ان کی غابہ کی جائداد
کو صدقہ کرکے وقف کردیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی کوئی اولاد نہیں
ہوئی۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا علم و فضل کے لحاظ سے بھی بڑے مرتبے پر فائز تھیں۔
ان سے ساٹھ احادیث مروی ہیں۔ ان میں چار متفق علیہ ہیں۔ چھہ صحیح مسلم میں
اور باقی دیگر کتب احادیث میں ہیں۔
---------------------------------------------------------------- تاریخ
اسلام کی روشنی سیرت مبارکہ کا جائزہ
نام و نسب
حفصہ نام، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی صاحبزادی تھیں، سلسلہ نسب یہ
ہے،(حفصہ بنت عمررضی اللہ تعالی عنہ بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن رباع
بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن لوی بن فہر بن مالک)والدہ کا نام زینب
بنت مظعون تھا، جو مشہور صحابی حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بن مظعون کی
ہمشیرہ تھیں، اور خود بھی صحابیہ تھیں، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا اور
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ حقیقی بھائی بہن ہیں۔ حضرت حفصہ
بعثت نبوی سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں، اس وقت قریش خانہ کعبہ کی تعمیر میں
مصروف تھے،
نکاح
پہلا نکاح حنیس بن حذافہ سے ہوا۔ جو خاندان بنو سہم سے تھے
اسلام
ماں باپ اور شوہر کے ساتھ مسلمان ہوئیں
ہجرت اور نکاح ثانی
شوہر کے ساتھ مدینہ کو ہجرت کی، غزوہ بدر میں خنیس رضی اللہ تعالی عنہ نے
زخم کھائے اور واپس آ کر انہی زخموں کی وجہ سے شہادت پائی، عدت کے بعد حضرت
عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح کی فکر
ہوئی، اسی زمانہ میں حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا انتقال ہو چکا تھا،
اسی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سب سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ
تعالی عنہ سے ملےاور ان سے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح کی خواہش
ظاہر کی، انہوں نے کہا میں اس پر غور کرونگا، چند دنوں کے بعد ملاقات ہوئی،
تو انہوں نے صاف انکار کیا، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مایوس ہو کر
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے ذکر کیا انہوں نے خاموشی اختیار کی،
حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کو انکی بےالتفاتی سے رنج ہوا، اسکے بعد خود
رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح
کی خواہش کی، نکاح ہو گیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عمر رضی
اللہ تعالی عنہ سے ملے اور کہا کہ جب تم نے مجھ سے حفصہ رضی اللہ تعالی
عنہا کے نکاح کی خواہش ظاہر کی اور میں خاموش رہا، تو تمکو ناگوار گزرا،
لیکن میں نے اسی بنا پر کچھ جواب نہیں دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے انکا ذکر کیا تھا اور میں انکا راز فاش نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اگر رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے نکاح کا قصد نہ ہوتا تو میں اسکے لیے
آمادہ تھا،
وفات
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے شعبان سن پنتالیس ہجری میں مدینہ میں
انتقال کیا، یہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا۔
مروان نے جو اس وقت مدینہ کا گورنر تھا، نماز جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک
جنازہ کو کندھا دیا، اسکے بعد ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ جنازہ کو قبر تک
لے گئے، انکے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور انکے لڑکوں
عاصم، سالم ، عبداللہ ، حمزہ نے قبر میں اتارا.
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سن وفات میں اختلاف ہے، ایک روایت ہے کہ
جمادی الاول سن 41 ہجری میں وفات پائی، اس وقت انکا سن 59 سال کا تھا۔ لیکن
اگر سن وفات 45 ہجری قرار دیا جائے۔ تو انکی عمر 63 سال کی ہو گی، ایک
روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں انتقال
کیا، یہ روایت اس بنا پر پیدا ہو گئی کہ وہب نے ابن مالک سے روایت کی ہے کہ
جس سال افریقہ فتح ہوا، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اسی سال وفات
پائی اور افریقہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں سن 27 ہجری
میں فتح ہوا۔ لیکن یہ سخت غلطی ہے۔ افریقہ دو مرتبہ فتح ہوا۔ اس دوسری فتح
کا فخر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو حاصل ہے، جنہوں نے امیر معاویہ کے عہد
میں حملہ کیا تھا۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے وفات کے وقت حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا کر وصیت کی اور غابہ میں جو
جائیداد تھی جسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ انکی نگرانی میں دے گئے تھے،
اسکو صدقہ کر کے وقف کر دیا،
اولاد
کوئی اولاد نہیں چھوڑی،
فضل و کمال
معنوی یادگاریں بہت سی ہیں، اور وہ ہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ
حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ(ابن عبداللہ) صفیہ بنت ابو عبید رضی اللہ تعالی
عنہ(زوجہ عبداللہ) حارثہ بن وہب، مطلب ابی وادعہ، ام مبشر انصاریہ، عبداللہ
بن صفوان بن امیہ، عبدالرحمن بن حارث بن ہشام،
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ساٹھ حدیثیں منقول ہیں، جو انہوں نے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے سنی تھیں
تفقہ فی الدین کے لیے واقعہ ذیل کافی ہے، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ اصحاب بدر و حدیبیہ جہنم میں داخل نہ
ہونگے، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اعتراض کیا کہ خدا تو فرماتا ہے
"تم میں سے ہر شخص وارد جہنم ہو گا"آپ نے فرمایا ہاں لیکن یہ بھی تو
ہے۔"پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دینگے اور ظالموں کو اس پر زانووں پر گرا
ہوا چھوڑ دینگے"
اسی شوق کا اثر تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انکی تعلیم کی فکر
رہتی تھی، حضرت شفا رضی اللہ تعالی عنہا کو چیونٹی کے کاٹے کا منتر آتا
تھا، ایکدن وہ گھر میں آئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم
حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کو منتر سکھلا دو،
اخلاق
"وہ(یعنی حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا) صائم النہار اور قائم الیل ہیں۔"
دوسری روایت میں ہے۔
"انتقال کے وقت تک صائم رہیں۔"
اختلاف سے سخت نفرت کرتی تھیں، جنگ صفین کے بعد جب تحکیم کا واقعہ پیش آیا
تو انکے بھائی عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسکو فتنہ سمجھکر خانہ
نشین رہنا چاہتے تھے، لیکن حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا کہ گو اس
شرکت میں تمھارا کوئی فائدہ نہیں، تاہم تمہیں شریک رہنا چاہیے، کیونکہ
لوگوں کو تمھاری رائے کا انتظار ہو گا، اور ممکن ہے کہ تمھاری عزلت گزینی
ان میں اختلاف پیدا کر دے۔
دجال سے بہت ڈرتی تھیں، مدینہ میں ابن صیاد نامی ایک شخص تھا، دجال کے
متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو علامتیں بتائی تھیں، اس میں بہت سی
موجود تھیں، اس سے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ایکدن راہ میں
ملاقات ہو گئی، انہوں نے اسکو بہت سخت سست کہا، اس پر وہ اس قدر پھولا کہ
راستہ بند ہو گیا، ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسکو مارنا شروع کیا حضرت
حفصہ کو خبر ہوئی تو بولیں، تمکو اس سے کیا غرض، تمہیں معلوم نہیں کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال کے خروج کا محرک اسکا غصہ
ہوگا،
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا مے مزاج میں ذرا تیزی تھی، آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم سے کبھی کبھی دوبدو گفتگو کرتیں، اور برابر کا جواب دیتی تھیں،
چنانچہ صحیح بخاری میں خود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ "ہم
لوگ جاہلیت میں عورت کو ذرہ برابر بھی وقعت نہ دیتے تھے، اسلام نے انکو
درجہ دیا، اور قرآن میں انکے متعلق آیتیں اتریں، تو انکی قدرومنزلت معلوم
ہوئی، ایکدن میری بیوی نے کسی معاملہ میں مجھکو رائے دی، میں نے کہا،"تمکو
رائے و مشورہ سے کیا واسطہ" بولیں،" ابن خطاب تمکو ذرا سی بات کی بھی
برداشت نہیں حالانکہ تمھاری بیٹی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو برابر
کا جواب دیتی ہے، یہاں تک کہ آپ دن بھر رنجیدہ رہتے ہیں،"میں اٹھا اور حفصہ
کے پاس آیا، میں نے کہا"بیٹی میں نے سنا ہے تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کو برابر کا جواب دیتی ہو"بولیں"ہاں ہم ایسا کرتے ہیں "میں نے کہا
خبردار میں تمہیں عذاب الہی سے ڈراتا ہوں،تم اس عورت(حضرت عائشہ رضی اللہ
تعالی عنہا ) کی ریس نہ کرو جسکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی
وجہ سے اپنے حسن پر ناز ہے،
ترمذی میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا رو رہی تھیں،
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور رونے کی وجہ پوچھی، انہوں نے کہا
کہ مجھکو حفصہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ہے کہ"تم یہودی کی بیٹی ہو"آپ نے
فرمایا حفصہ (رضی اللہ تعالی عنہا)خدا سے ڈرو، پھر حضرت صفیہ رضی اللہ
تعالی عنہا سے ارشاد ہوا"تم نبی کی بیٹی ہو۔ تمھارا چاچا پیغمبر ہے اور
پیغمبر کے نکاح میں ہو، حفصہ (رضی اللہ تعالی عنہا) تم پر کس بات میں فخر
کر سکتی ہے۔"
ایک بار حضرت عائشہ اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہما نے حضرت صفیہ رضی
اللہ تعالی عنہا سے کہا کہ"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک تم سے
زیادہ معزز ہیں، ہم آپکی بیوی بھی ہیں اور چچا زاد بہن بھی، حضرت صفیہ رضی
اللہ تعالی عنہا کو ناگوار گزرا، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس
کی شکایت کی، آپ نے فرمایا تم نے یہ کیوں نہیں کہا، کہ تم مجھ سے زیادہ
کیونکر معزز ہو سکتی ہو، میرے شوہر محمد صلی اللہ علیہ وسلم، میرے باپ
ہارون علیہ السلام اور میرے چچا موسی علیہ السلام ہیں۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی اور
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی بیٹی تھیں
جو تقریب نبوی میں دوش بدوش تھے، اس بنا پر حضرت عائشہ و حضرت حفصہ رضی
اللہ تعالی عنہما بھی دیگر ازواج کے مقابلہ میں باہم ایک تھیں۔ چنانچہ
واقعہ تحریم جو سن نو ہجری میں پیش آیا تھا، اسی قسم کے اتفاق کا نتیجہ
تھا، ایک دفعہ کئی دن تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ
تعالی عنہا کے پاس معمول سے زیادہ بیٹھے، جسکی وجہ یہ تھی کہ حضرت زینب رضی
اللہ تعالی عنہا کے پاس کہیں سے شہد آ گیا تھا، انہوں نے آپکو پیش کیا آپکو
شہد بہت مرغوب تھا۔ آپ نے نوش فرمایا، اس میں وقت مقررہ سے دیر ہو گئی،
حجرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو رشک ہواحضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا
سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے اور تمھارے گھر میں آئیں
تو کہنا کہ آپکے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے،(مغافیر کے پھولوں سے شہد کی
مکھیاں رس چوتی ہیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا لی کہ میں سہد
نہ کھاؤں گا۔ اس پر قرآن مجید کی یہ آیت اتری،
"اے پیغمبر اپنی بیویوں کی خوشی کے لیے تم خدا کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام
کیوں کرتے ہو؟"
کبھی کبھی (حضرت حفصہ و حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما) میں باہم رشک و
رقابت کا اظہار ہو جایا کرتا تھا،
ایک مرتبہ حضرت عائشہ و حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہما دونوں آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھیں، رسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
راتوں کو عائشہ رضی اللّٰہ کے اونٹ پر چلتے تھے اور ان سے باتیں کرتے تھے،
ایک دن حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا
سے کہا کہ آج رات کو تم میرے اونٹ پر اور میں تمھارے اونٹ پر سوار ہوں تا
کہ مختلف مناظر دیکھنے میں آئیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا راضی ہو
گئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اونٹ
کے پاس آئے جس پر حفصہ رضی اللّٰہ سوار تھیں جب منزل پر پہنچے اور حضرت
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپکو نہیں پایا تو اپنے پاؤں کو اذخر(ایک
گھاس ہے) کے درمیان لٹکا کر کہنے لگیں،"خداوندا! کسی بچھو یا سانپ کو متعین
کر جو مجھے ڈس جائے۔"
حوالہ جات
↑ (صحیح بخاری ج2ص571واصابہ ج8ص51)
↑ (زرقانی ج3ص271)
↑ (ایضاً)
↑ (ایضاً)
↑ (مسند ابن حنبل ج6ص285)
↑ (ایضاً ص281)
↑ (اصابہ ج8ص52)
↑ (صحیح بخاری ج2ص589)
↑ (مسند ج6ص283ومسلم کتاب الفتن ذکر ابن صیاد)
↑ (بخاری ج2ص کتاب التفسیروفتح الباری ج8ص504)
↑ (ترمذی بال فضل ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم
↑ (صحیح بخاری ج2ص29)
↑ (صحیح بخاری(وسیرة النبی جلد دوم)
یہ حضرت حفصہ رضی اللّٰہ سے رقابت کا اظہار نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کی رفاقت سفر جسکو حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللّٰہ کے
ساتھ پسند کرتے تھے اس سے محرومی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدگی
کی بجائے حضرت حفصہ رضی اللّٰہ کو حضور کی مرضی کے خلاف اونٹ پر بٹھانا
تھا۔
|