آج کے دور میں ایک تشویشناک رجحان یہ ہے کہ مذہبی علامات،
عبادات، اور ان پر عمل کرنے والوں کا تمسخر اُڑایا جاتا ہے۔ داڑھی، سنت پر
عمل، یا مسجد سے وابستگی کو پسماندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ رویہ
دراصل ایک بڑی فکری غلطی کا نتیجہ ہے، وہ غلطی جو مذہب کو انسانی ترقی کی
راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
اگر ہم دنیا کی مجموعی تاریخ کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انسانیت کو
سب سے زیادہ نقصان ان ہاتھوں سے پہنچا ہے جو دنیاوی اعتبار سے "تعلیم یافتہ"
کہلاتے ہیں۔ ایٹمی جنگیں، ماحولیاتی تباہی اور سوشل میڈیا پر پھیلتی بے راہ
روی۔ یہ سب جدید علم و ٹیکنالوجی کے وہ ثمرات ہیں جنہوں نے انسان کو مادی
لحاظ سے تو آگے بڑھایا، مگر اخلاقی اور روحانی طور پر تنزلی کا شکار کیا۔
اس کے برعکس، مذہب نے ہمیشہ انسان کو ایک اعلیٰ اخلاقی معیار، دوسروں کے
حقوق کا خیال، اور زندگی کے مقصد سے روشناس کروایا۔ قرآن، حدیث، اور دینی
تعلیمات نے انسان کو جو ضابطۂ حیات دیا، وہ نہ صرف فرد کی اصلاح کرتا ہے
بلکہ معاشرے کی بھی بنیاد بنتا ہے۔
اسلامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جن ادوار میں دینی اور دنیاوی علم کا امتزاج
تھا، مسلمانوں نے دنیا کو قیادت دی۔ ابنِ سینا، الرازی، البیرونی، الغزالی،
یہ وہ نام ہیں جنہوں نے سائنس کو روحانیت کے ساتھ ہم آہنگ کر کے ایک مثالی
تہذیب تشکیل دی۔ علامہ اقبال نے بھی اپنے خطبات میں اس توازن کی شدید ضرورت
پر زور دیا اور مسلمانوں کی زبوں حالی کی وجہ دین و دنیا کے درمیان خلیج کو
قرار دیا۔
آج ہمیں اسی پیغام کی تجدید کی ضرورت ہے۔ مذہبی تعلیم کو محدود دائرے میں
بند کر دینا، یا دنیاوی علم کو ہی کامیابی کی کنجی سمجھنا، دونوں رویے
خطرناک ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سائنس "کیسے" کا جواب دیتی ہے، جب کہ
مذہب "کیوں" کا۔ زندگی کی معنویت، اخلاقی رہنمائی اور انصاف پر مبنی
سوسائٹی کی تشکیل مذہب ہی کی دین ہے۔
نورمن ونسنٹ پیل نے اپنی کتاب The Power of Positive Thinking میں مذہبی
ایمان اور مثبت سوچ کو کامیاب زندگی کی بنیاد قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق خدا
پر بھروسہ انسان کو زندگی کی مشکلات سے نمٹنے کی اصل قوت فراہم کرتا ہے۔
سید حسین نصراپنی کتاب Science and Civilization in Islam میں لکھتے ہیں کہ
اسلام میں دینی و دنیاوی علم ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ تکمیل کرنے والے
پہلو ہیں۔ جب دونوں ساتھ ہوں تو تہذیب فروغ پاتی ہے، ورنہ زوال آتا ہے۔
مشہور ماہرینِ نفسیات جیسے وکٹر فرینکل، ایم اسکاٹ پیک اور اسٹیفن کووی نے
اپنی کتابوں میں بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ کامیاب، باوقار اور بامقصد
زندگی کے لیے صرف مہارت کافی نہیں، بلکہ ایک مضبوط روحانی و اخلاقی بنیاد
بھی ضروری ہے۔
میری ذاتی زندگی اس تضاد کی عکاسی کرتی ہے۔ میں ایک ادنیٰ تعلیم یافتہ
سرکاری ملازم ہوں، لیکن نماز، روزہ اور دینی شعور میں کمی کو ایک خلا کے
طور پر محسوس کرتا ہوں۔ میرے بچے مجھ سے بہتر قرآن پڑھتے ہیں، اور یہ احساس
مجھے دینی تعلیم کی اہمیت کی طرف بار بار متوجہ کرتا ہے۔ ہم جیسے کئی تعلیم
یافتہ افراد دینی تعلیم سے دور رہ کر معاشرے کو صرف اپنی دنیاوی مہارت سے
فائدہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، مگر وہ اخلاقی اور روحانی پہلو نظر انداز کر
بیٹھتے ہیں جو دراصل انسان کو مکمل بناتے ہیں۔
اپنے پیشہ ورانہ تجربے کی روشنی میں میں کہہ سکتا ہوں کہ بہت سے دنیاوی
تعلیم یافتہ افراد اخلاقی پستی کا شکار ہیں۔ معاشرتی مسائل کی جڑ اکثر ان
افراد میں پائی جاتی ہے جو اعلیٰ دنیاوی تعلیم رکھتے ہیں مگر دینی علم اور
خوفِ خدا سے خالی ہیں۔ اگر ان عہدوں پر وہ لوگ بیٹھے ہوتے جو اللہ سے ڈرتے،
تو شاید انصاف، شفافیت اور دیانت داری کا معیار مختلف ہوتا۔
بدقسمتی سے آج کل زیادہ تر تعلیم مادہ پرستی اور دنیاوی سوچ کو فروغ دیتی
ہے، جس کے تحت معاشرے میں صرف نفع و نقصان کو معیار بنایا جاتا ہے۔ اور اسی
سوچ پر عمل کرتے ہوئے ان برائیوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے جو اس رویے کے
نتیجے میں جنم لیتی ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں ہمیں ایک نئی فکری بیداری کی ضرورت ہے: ایک ایسا نصاب،
ایسی سوچ، اور ایسا نظام تعلیم جو دنیاوی علوم کو دین کے تابع کرے، نہ کہ
متضاد سمجھے۔ ہمیں اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر یا افسر بنانے سے پہلے
انسان، مسلمان اور بااخلاق شہری بنانا ہوگا۔ یہی سوچ ہمیں ایک مہذب، ترقی
یافتہ اور روحانی طور پر متوازن قوم بنا سکتی ہے۔
انسانی ترقی کے لیے دینی اور دنیاوی علم کا توازن ناگزیر ہے، لیکن اس توازن
میں روحانی علم کو بنیادی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ کیونکہ یہی وہ ذریعہ ہے
جو انسان کو اس کے خالق سے جوڑتا ہے، اسے زندگی کا مقصد دیتا ہے، اور اُسے
ظلم، ناانصافی اور خودغرضی سے روکتا ہے۔ ہمیں بطور معاشرہ اب یہ فیصلہ کرنا
ہوگا کہ ہم صرف ترقی یافتہ بننا چاہتے ہیں یا مہذب بھی؟
|