ایک شخص کہنے لگا بیٹیوں کے اتنے مسئلے ہوتے ہیں اچھا ہوا
میری بیٹی نہیں ہے
جواب دیا گیا کہ اللہ بیٹی بھی اُسی کو دیتا ہے جس کی اُسے پالنے کی اوقات
ہوتی ہے
سوشل میڈیا پر جا بجا یہ پوسٹ نظر آتی ہے ایک حقیقی واقعے کے تناظر میں دیا
جانے والا یہ جواب غیر منطقی مگر اُس وقت کی ضرورت تھا مگر نا سمجھ لوگوں
نے اسے معیار بنا کر وائرل کر دیا ۔ اور اب زیر گردش یہ پوسٹ مجھ سمیت نا
جانے اور کتنے ہی لوگوں کی دل آزاری کا سبب بنتی ہو گی جو بہن بیٹی جیسی
رحمت سے محروم ہیں ۔ پہلی بات سے تو کوئی بھی اتفاق نہیں کر سکتا مگر مجھے
تو دوسری بات سے بھی اختلاف ہے ۔ ایک عام سا مشاہدہ ہے کہ بہت سے لوگ غربت
یا کسی بھی وجہ سے بیٹیوں کو بیچ دیتے ہیں کچھ لوگ ان کی شادی قرآن سے کرتے
ہیں جائیداد بچانے کے لئے ۔ کچھ لوگ اپنے کرتوتوں کی سزا بیٹیوں کو ونی اور
سوارہ کر کے دیتے ہیں مگر اللہ انہیں بیٹیاں دینا بند نہیں کرتا بلکہ دیئے
چلا جاتا ہے ۔ میرے باپ نے پردیس میں محنت کر کے اپنی تین بہنوں کی شادیاں
کیں مگر میری کوئی بہن نہیں ہے تو کیا میرا باپ بیٹی کو پالنے کے قابل نہیں
تھا؟ جس نے بہنوں کو ڈھیروں جہیز دیا اور خود اپنی ہی محنت کی کمائی سے
بنائی ہوئی جائیداد میں سے اپنا حصہ بھی انہی میں بانٹ دیا ۔ قدم قدم پر
ایسے کیس نظر آتے ہیں کہ اللہ نے ایسے ایسے لوگوں کو بیٹیاں عطا فرمائیں جو
انہیں پالنے کے قابل تو کیا باپ بھی کہلانے کے مستحق نہیں ہیں ۔ بات کا
مقصد یہ ہے کہ اللہ کی یہ عطا مشروط نہیں ہے بلکہ ایک آزمائش ہے وہ دونوں
طرح سے آزماتا ہے اُس کی مرضی وہ جسے چاہے بیٹی دے اور جسے چاہے نہ دے اور
اس کا تعلق کسی بھی باپ کی اوقات سے نہ جوڑا جائے ۔
✍️ عاصم الدین
|