ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کی سیرت و
فضائل
از۔۔۔۔بابرالیاس
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ والدہ کا نام زینب تھا۔
ان کا نام عائشہ لقب صدیقہ اور کنیت ام عبد اللہ تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سن 11 نبوی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے
نکاح کیا اور 1 ہجری میں ان کی رخصتی ہوئی۔
رخصتی کے وقت ان کی عمر تقریبا ساڑھے گیارہ برس یا بعض روایات کے مطابق 14
برس تھی ۔
آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے کم عمر زوجہ مطہرہ تھیں۔ انہوں نے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نو برس گذارے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے 48 سال بعد 66 برس کی عمر میں 17 رمضان
المبارک 57یا56، یا 58 ہجری میں وصال فرمایا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو علمی حیثیت سے عورتوں میں سب سے زيادہ
فقیہہ اور صاحب علم ہونے کی بناء پر بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم پر بھی
فوقیت حاصل تھی۔
ایک روایت کے مطابق آپ کم و بیش 200 صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی استاد
بھی تھیں۔
شرعی مسائل پر فتوے دیتی تھی اور بے شمار احادیث ان سے مروی ہیں۔ فصیح و
بلیغ مقرر بھی تھیں۔ سخاوت اور وسیع القلبی انکا بڑا وصف تھا۔
ذیل میں*احادیث نبوی میں سے کچھ احادیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فضائل
و مناقب پر پیش خدمت ہیں۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو سلام کہنا
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ : إِنَّ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ
رَسُولُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْمًا : يَا عَائِشَةُ، هَذَا
جِبْرِيْلُ يُقْرِئُکِ السَّلَامَ. فَقُلْتُ : وَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ
رَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُةُ، تَرَي مَا لَا أَرَي تُرِددُ رَسُولَ اﷲِ صلي
الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَ مُسْلِمٌ وَ
التِّرْمِذِيُّ.
البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي، باب : فضل عائشة، 3 / 1374،
الرقم : 3557، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : في فضل
عائشة، 4 / 1895، الرقم؛ 2447، و الترمذي في السنن، کتاب : الاستئذان، باب
: ما جاء في تبليغ السلام، 5 / 55، الرقم : 2693.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اﷲ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! یہ جبرائیل تمہیں سلام کہتے ہیں۔ میں
نے جواب دیا : ان پر بھی سلام ہو اور اﷲ کی رحمت اور برکات ہوں۔ لیکن آپ
(یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ دیکھ سکتے ہیں وہ میں نہیں
دیکھ سکتی۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری، امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم
وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَي مَعْرَفَةِ فَرَسٍ وَ هُوَ يُکَلِّمُ رَجُلًا،
قُلْتُ : رَأَيْتُکَ وَاضِعًا يَدَيْکَ عَلَي مَعْرَفَةِ فَرَسِ دِحْيَةَ
الْکَلْبِيِّ وَ أَنْتَ تُکَلِّمُهُ، قَالَ : وَ رَأَيْتِ؟ قَالَتْ :
نَعَمْ قَالَ : ذَاکَ جِبْرِيْلُ عليه السلام وَ هُوَ يُقْرِئُکِ
السَّلَامَ، قَالَتْ : وَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اﷲِ وَ
بَرَکَاتُهُ، جَزَاهُ اﷲُ خَيْراً مِنْ صَاحِبٍ وَ دَخِيْلٍ، فَنِعْمُ
الصَاحِبُ وَ نِعْمَ الدَّخِيْلُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 674، الرقم : 24506، 2 / 871، الرقم : 1635، و
الحميدي في المسند، 1 / 133، الرقم : 277، و أبونعيم في حلية الأولياء، 2 /
46، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 20.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو دیکھا :
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھوڑے کی گردن پر اپنا دست اقدس رکھا ہوا ہے
اور ایک آدمی سے کلام فرما رہے ہیں، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے
آپ کو دیکھا کہ آپ نے دحیہ کلبی کے گھوڑے کی گردن پر اپنا دست اقدس رکھا
ہوا ہے اور ان سے کلام فرما رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
: کیا تو نے یہ منظر دیکھا؟ آپ نے عرض کیا : ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : وہ جبریل علیہ السلام تھے اور وہ تجھے سلام پیش کرتے ہیں،
آپ نے فرمایا : اور ان پر بھی سلامتی ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور
برکتیں ہوں، اور اللہ تعالیٰ دوست اور مہمان کو جزائے خیر عطا فرمائے، پس
کتنا ہی اچھا دوست (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس)
اور کتنا ہی اچھا مہمان (حضرت جبریل علیہ السلام) ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام
احمد نے روایت کیا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عائشہ صدیقہ رضی اللہ سے نکاح کی
الوہی بشارت !!
عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ لِي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله
عليه وآله وسلم : أُرِيْتُکِ فِي الْمَنَامِ مَرَّتَيْنِ أَرَي أَنَّکِ فِي
سَرَقَةٍ مِّنْ حَرِيْرٍ وَ يُقَالُ : هَذِهِ امْرَأَتُکَ، فَاکْشَفْ
عَنْهَا فَإِذَا هِيَ أَنْتِ فَأَقُوْلُ إِنْ يَکُ هَذَا مِن عِنْدِ اﷲِ
يُمْضِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي، باب : تزويج النبي عائشة، 3
/ 1415، الرقم : 3682، و في کتاب : النکاح، باب : قول اﷲ ولا جناح عليکم
فيما عرضتم به من خطبة النساء، 5 / 1969، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل
الصحابة، باب : فضل عائشة، 4 / 1889، الرقم : 2438، و أحمد بن حنبل في
المسند، 6 / 41، الرقم : 24188.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : میں نے خواب میں دو مرتبہ تمہیں دیکھا
میں نے دیکھا کہ تم ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی ہو اور مجھے کہا گیا کہ یہ
آپ کی بیوی ہے۔ سو پردہ ہٹا کر دیکھیے، جب میں نے دیکھا تو تم تھی۔ تو میں
نے کہا کہ اگر یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ ایسا کر کے ہی رہے گا۔‘‘ یہ
حدیث متفق علیہ ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ : أَنَّ جِبْرِيْلَ جَاءَ بِصُوْرَتِهَا فِي خِرْقَةِ
حَرِيْرٍ خَضْرَاءَ إِلَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم. فَقَالَ :
إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُکَ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ. رَوَاهُ
التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب
: من فضل عائشة، 5 / 704، الرقم : 3880، و ابن حبان في الصحيح، 16 / 6،
الرقم : 7094، و ابن راهويه في المسند، 3 / 649، الرقم : 1237، و الذهبي في
سير أعلام النبلاء، 2 / 140، 141.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام
ریشم کے سبز کپڑے میں (لپٹی ہوئی) ان کی تصویر لے کر حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول
اللہ! یہ دنیا و آخرت میں آپ کی اہلیہ ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور
ابن حبان نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب زوجہ ہونا
عَنْ أَبِي عُثْمَانَ : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَعَثَ
عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ عَلَي جَيْشٍ ذَاتِ السُّلَاسِلِ قَالَ :
فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ : أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْکَ؟ قَالَ :
عَائِشَةُ. قُلْتُ : مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ : أَبُوْهَا. قُلْتُ : ثُمَّ
مَنْ؟ قَالَ : عُمَرُ. فَعَدَّ رِجَالًا فَسَکَتُّ مَخَافَةَ أَنْ
يَجْعَلَنِي فِي آخِرِهِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة ذات السلاسل، 4 / 1584،
الرقم : 4100، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل أبي
بکر، 4 / 1856، الرقم 2384، و الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : فضل
عائشة، 5 / 706، الرقم : 3885، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 308، الرقم :
6885.
’’حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے غزوہ ذات السلاسل کے لئے حضرت عمرو بن العاص کو امیر لشکر مقرر
فرمایا۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! آپ کو انسانوں
میں سب سے پیارا کون ہے؟ فرمایا : عائشہ، میں عرض گزار ہوا : مردوں میں سے؟
فرمایا : اس کا والد، میں نے عرض کیا : ان کے بعد کو ن ہے؟ فرمایا : عمر،
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند دیگر حضرات کے نام لئے لیکن
میں اس خیال سے خاموش ہو گیا کہ کہیں میرا نام آخر میں نہ آئے۔‘‘ یہ حدیث
متفق علیہ ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها : أَنَّ النَّاسَ کَانُوْا يَتَحَرَّوْنَ
بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ يَبْتَغُوْنَ بِهَا أَوْ يَبْتَغُوْنَ
بِذَلِکَ مَرْضَاةَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. مُتَّفَقٌ
عَلَيْهِ.
البخاري في الصحيح، کتاب : الهبة و فضلها و التحريض عليها، باب : قبول
الهدية، 2 / 910، الرقم : 2435، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة،
باب : في فضل عائشة، 4 / 1891، الرقم : 2441، و النسائي في السنن، کتاب :
عشرة النساء، باب : حب الرجل بعض نسائه أکثر من بعض، 7 / 69، الرقم : 3951،
و البيهقي في السنن الکبري، 6 / 169، الرقم : 11723.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ لوگ اپنے تحائف حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کیلئے میرے (ساتھ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخصوص کردہ) دن کی تلاش میں رہتے تھے، اور اس
عمل سے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا چاہتے تھے۔‘‘ یہ
حدیث متفق علیہ ہے۔
عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ جَارًا لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم
فَارِسِيًا کَانَ طَيبَ الْمَرَقِ فَصَنَعَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه
وآله وسلم، ثُمَّ جَاءَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ : وَ هَذِهِ لِعَائِشَةَ
فَقَالَ : لاَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَا،
فَعَادَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : وَ
هَذِهِ قَالَ : لَا، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَا،
ثُمَّ عَادَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم :
وَ هَذِهِ، قَالَ : نَعَمْ، فِي الثَّالِثَةِ، فَقَامَ يَتَدَافِعَانِ
حَتَّي أَتَيَا مَنْزِلَهُ. ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ أَحْمَدُ.
مسلم في الصحيح، کتاب : الأشربة، باب : ما يفعل الضيف إذا تبعه غير من دعاه
صاحب الطعام و استحباب إذن صاحب الطعام للتابع، 3 / 1609، الرقم : 2037، و
أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 123، الرقم : 12265.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا ایک فارسی پڑوسی بہت اچھا سالن بناتا تھا، پس ایک دن اس نے
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے سالن بنایا، پھر آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دینے کیلئے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا : اور یہ بھی یعنی عائشہ (بھی میرے ساتھ مدعو ہے یا نہیں) تو اس
نے عرض کیا : نہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں
(میں نہیں جاؤں گا) اس شخص نے دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت
دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بھی (یعنی عائشہ) تو اس
آدمی نے عرض کیا : نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر انکار فرما
دیا۔ اس شخص نے سہ بارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی، آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بھی، اس نے عرض کیا : ہاں یہ بھی، پھر
دونوں (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا) ایک
دوسرے کو تھامتے ہوئے اٹھے اور اس شخص کے گھر تشریف لے کر آئے۔‘‘ اس حدیث
کو امام مسلم اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بوقتِ وصال سیدہ عائشہ صدیقہ کے ہاں
قیام !!
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ : إِنْ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله
وسلم لَيَتَعَذُّرُ فِي مَرَضِهِ أَيْنَ أَنَا الْيَوْمَ؟ أَيْنَ أَنَا
غَدًا؟ اسْتِبْطَاءً لِيَوْمِ عَائِشَةَ فَلَمَّا کَانَ يَوْمِي قَبَضَهُ
اﷲُ بَيْنَ سَحْرِي وَ نَحْرِي وَ دُفِنَ فِي بَيْتِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
البخاري في الصحيح، کتاب : الجنائز، باب : ما جاء في قبر النبي صلي الله
عليه وآله وسلم، 1 / 486، الرقم : 1323، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل
الصحابة، باب : في فضل عائشة رضي اﷲ عنها، 4 / 1893، الرقم؛ 2443.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم (مرض الوصال) میں (میری) باری طلب کرنے کے لیے پوچھتے کہ میں آج کہاں
رہوں گا؟ کل میں کہاں رہوں گا؟ پھر جس دن میری باری تھی آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا سرانور میری گود میں تھا کہ اللہ عزوجل نے آپ کی روح مقدسہ
قبض کرلی اور میرے گھر میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدفون ہوئے۔‘‘ یہ
حدیث متفق علیہ ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے مقام و
مرتبہ کا ذکر کرنا۔
عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ. قَالَ : اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قُبَيْلَ
مَوْتِهَا عَلَي عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوْبَةٌ. قَالَتْ : أَخْشَي أَنْ
يُثْنِيَ عَلَيَّ، فَقِيْلَ : ابْنُ عَمِّ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله
وسلم وَ مِنْ وُجُوْهِ الْمُسْلِمِيْنَ قَالَتْ : ائْذَنُوا لَهُ؟ فَقَالَ
: کَيْفَ تَجِدِيْنَکِ؟ قَالَتْ : بِخَيْرٍ إِنْ اتَّقَيْتُ. قَالَ :
فَأَنْتِ بِخَيْرٍ إِنْ شَاءَ اﷲُ تَعَالَي، زَوْجَةُ رَسُولِ اﷲِ صلي الله
عليه وآله وسلم وَلَمْ يَنْکِحْ بِکْرًا غَيرَکِ وَ نَزَلَ عُذْرُکِ مِنَ
السَّمَاءِ، وَ دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلَافَهُ فَقَالَتْ : دَخَلَ
ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثَنَي عَلَيَّ وَ وَدِدْتُ أَنِّي کُنْتُ نَسْيًا
مَنْسِيًّا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
البخاري في الصحيح، کتاب : التفسير، باب : ولولا إذ سمعتموه، 4 / 1779،
الرقم : 4476.
’’امام ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے اندر آنے کی اجازت مانگی جبکہ وفات سے
پہلے وہ عالم نزع میں تھیں۔ انہوں نے فرمایا : مجھے ڈر ہے کہ یہ میری تعریف
کریں گے۔ حاضرین نے کہا : یہ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا
زاد اور سرکردہ مسلمانوں میں سے ہیں۔ انہوں نے فرمایا : اچھا انہیں اجازت
دے دو۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے؟
جواب دیا : اگر پرہیزگارہوں تو بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا : ان شاء اﷲ بہترہی
رہے گا کیونکہ آپ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور
آپ کے سوا انہوں نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا اور آپ کی براءت
آسمان سے نازل ہوئی تھی۔ ان کے بعد حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ اندر
آئے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضرت عبد اﷲ بن عباس آئے
تھے وہ میری تعریف کر رہے تھے اور میں یہ چاہتی ہوں کہ کاش! میں گمنام
ہوتی۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
عَنْ ذَکْوَانَ حَاجِبِ عَائِشَةَ : أَنَّهُ جَاءَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ
عَبَّاسٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَي عَائِشَةَ. . . فَقَالَتْ : ائْذِنْ لَهُ إِنْ
شِئْتَ، قَالَ : فَأَدْخَلْتُهُ فَلَمَّا جَلَسَ، قَالَ : أَبْشِرِي،
فَقَالَتْ : أَيْضًا، فَقَالَ : مَا بَيْنَکِ وَ بَيْنَ أَنْ تَلْقَي
مُحَمَّدًا صلي الله عليه وآله وسلم وَ الْأَحِبَّةَ إِلَّا أَنْ تَخْرُجَ
الرُّوْحُ مِنَ الْجَسَدِ، کُنْتِ أَحَبَّ نِسَاءِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله
عليه وآله وسلم إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، وَ لَمْ
يَکُنْ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يُحِبُّ إِلَّا طَيِّبًا وَ
سَقَطَتْ قِلاَدَتُکِ لَيْلَةَ الْأَبْوَاءِ فَأَصْبَحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي
الله عليه وآله وسلم حَتَّي يُصْبِحَ فِي الْمَنْزِلِ وَ أَصْبَحَ النَّاسُ
لَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَأَنْزَلَ اﷲُ عزوجل (فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا
طَيِّبًا) فَکَانَ ذَلِکَ فِي سَبَبِکِ، وَ مَا أَنْزَلَ اﷲُ عزوجل
لِهَذِهِ الْأُمَّةِ مِنَ الرُّخْصَةِ، وَ أَنْزَلَ اﷲُ بَرَاءَ تَکِ مِنْ
فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ جَاءَ بِهِ الرُّوْحُ الْأَمِيْنُ، فَأَصْبَحَ
لَيْسَِﷲِ مَسْجِدٌ مِنْ مَسَاجِدِ اﷲِ يُذْکَرُ اﷲُ فِيْهِ إِلَّا يُتْلَي
فِيْهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، فَقَالَتْ : دَعْنِي مِنْکَ
يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَ الَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي کُنْتُ
نَسْيًا مَنْسِيًا. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُويَعْلَي.
أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 276، الرقم : 2496، و ابن حبان في الصحيح في
الصحيح، 16 / 41، 42، الرقم : 7108، و الطبراني في المعجم الکبير، 10 /
321، الرقم : 10783، و أبو يعلي في المسند، 5 / 5765، الرقم : 2648.
’’حضرت ذکوان جو کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے دربان تھے، روایت کرتے
ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے ملنے
کی اجازت طلب کرنے کیلئے تشریف لائے۔ . . تو آپ نے فرمایا : اگر تم چاہتے
ہو تو انہیں اجازت دے دو، راوی بیان کرتے ہیں پھر میں ان کو اندر لے آیا پس
جب وہ بیٹھ گئے تو عرض کرنے لگے : اے ام المومنین! آپ کو خوشخبری ہو، آپ نے
جواباً فرمایا : اور تمہیں بھی خوشخبری ہو، پھر انہوں نے عرض کیا : آپ کی
آپ کے محبوب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات میں سوائے آپ
کی روح کے قفس عنصری سے پرواز کرنے کے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔
آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام ازواج مطہرات سے بڑھ کر
عزیز تھیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوائے پاکیزہ چیز کے
کسی کو پسند نہیں فرماتے تھے، اور ابوا والی رات آپ کے گلے کا ہار گر گیا
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح تک گھر نہ پہنچے اور صحابہ
کرام رضی اللہ عنھم نے صبح اس حال میں کی کہ ان کے پاس وضو کرنے کیلئے پانی
نہیں تھا تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمائی ’’پس تیمم کرو
پاکیزہ مٹی کے ساتھ۔‘‘ اور یہ سارا آپ کے سبب ہوا اور یہ جو رخصت اللہ
تعالیٰ نے (تیمم کی شکل میں) نازل فرمائی (یہ بھی آپ کی بدولت ہوا) اور
اللہ تعالیٰ نے آپ کی براءت سات آسمانوں کے اوپر سے نازل فرمائی جسے حضرت
جبریل امین علیہ السلام لے کر نازل ہوئے پس اب اللہ تعالیٰ کی مساجد میں سے
کوئی مسجد ایسی نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے جس میں اس
(سورئہ براءت) کی رات دن تلاوت نہ ہوتی ہو۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : اے ابن
عباس! بس کرو میری اور تعریف نہ کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں
میری جان ہے! مجھے یہ پسند ہے کہ میں کوئی بھولی بسری چیز ہوتی (جسے کوئی
نہ جانتا ہوتا)۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد، ابن حبان اور ابویعلی نے روایت
کیا ہے۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سخاوت و فیاضی
عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ : کَانَتْ عَائِشَةُ رضي اﷲ عنها
لَا تُمْسِکُ شَيْئًا مِمَّا جَاءَ هَا مِنْ رِزْقِ اﷲِ تَعَالَي إِلَّا
تَصَدَّقَتْ بِهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : مناقب قريش، 3 / 1291، الرقم :
3314.
’’حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا
کے پاس اللہ کے رزق میں سے جو بھی چیز آتی وہ اس کو اپنے پاس نہ روکے
رکھتیں بلکہ اسی وقت (کھڑے کھڑے) اس کا صدقہ فرما دیتیں۔‘‘ اس حدیث کو امام
بخاری نے روایت کیا ہے۔
عَنْ أُمِّ ذَرَّةَ وَ کَانَتْ تَغْشَي عَائِشَةَ، قَالَتْ : بَعَثَ ابْنُ
الزُّبَيْرِ إِلَيْهَا بِمَالٍ فِي غَرَارَتَيْنِ ثَمَانِيْنَ أَوْ مِائَةَ
أَلْفٍ فَدَعَتْ بِطَبْقٍ وَهِيَ يَوْمَئِذٍ صَاءِمَةٌ فَجَلَسَتْ تَقْسِمُ
بَيْنَ النَّاسِ فَأَمْسَتْ وَ مَا عِنْدَهَا مِنْ ذَلِکَ دِرْهَمٌ
فَلَمَّا أَمْسَتْ، قَالَتْ : يَا جَارِيَةُ، هَلُمِّي فِطْرِي فَجَاءَ
تْهَا بِخُبْزٍ وَ زَيْتٍ، فَقَالَتْ لَهَا أُمُّ ذَرَّةَ : أَمَا
اسْتَطَعْتِ مِمَّا قَسَمْتِ الْيَوْمَ أَنْ تَشْتَرِي لَنَا لَحْمًا
بِدِرْهَمٍ نَفْطُرُ عَلَيْهِ، قَالَتْ : لاَ تُعَنِّفِيْنِي، لَوْ کُنْتِ
ذَکَرْتِيْنِي لَفَعَلْتُ. رَوَاهُ أَبُونُعَيْمٍ وَابْنُ سَعْدٍ.
أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 47، و هناد في الزهد، 1 / 337، 338، و
الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 187، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 8 /
67.
’’حضرت ام ذرہ، جو کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خادمہ تھیں، بیان کرتی ہیں
کہ حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے دو تھیلوں میں آپ کو اسی ہزار یا
ایک لاکھ کی مالیت کا مال بھیجا، آپ نے (مال رکھنے کے لئے) ایک تھال
منگوایا اور آپ اس دن روزے سے تھیں، آپ وہ مال لوگوں میں تقسیم کرنے کے لئے
بیٹھ گئیں، پس شام تک اس مال میں سے آپ کے پاس ایک درہم بھی نہ بچا، جب شام
ہو گئی تو آپ نے فرمایا : اے لڑکی! میرے لیے افطار کیلئے کچھ لاؤ، وہ لڑکی
ایک روٹی اور تھوڑا سا گھی لے کر حاضر ہوئی، پس ام ذرہ نے عرض کیا : کیا آپ
نے جو مال آج تقسیم کیا ہے اس میں سے ہمارے لیے ایک درہم کا گوشت نہیں خرید
سکتی تھیں جس سے آج ہم افطار کرتے، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : اب
میرے ساتھ اس لہجے میں بات نہ کر اگر اس وقت (جب میں مال تقسیم کر رہی تھی)
تو نے مجھے یاد کرایا ہوتا تو شاید میں ایسا کر لیتی۔‘‘ اس حدیث کو امام
ابونعیم اور امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ : مَا رَأَيْتُ امْرَأَ تَيْنِ
أَجْوَدَ مِنْ عَائِشَةَ وَ أَسْمَاءَ وَ جُوْدُهُمَا مَخْتَلِفٌ : أَمَّا
عَائِشَةُ، فَکَانَتْ تَجْمَعُ الشَّيْئَ إِلَي الشَّيْيئِ حَتَّي إِذَا
کَانَ اجْتَمَعَ عِنْدَهَا قَسَمَتْ وَ أَمَّا أَسْمَاءُ فَکَانَتْ لَا
تُمْسِکُ شَيْئًا لِغَدٍ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.
البخاري في الأدب المفرد، 1 / 106، الرقم : 286، و ابن الجوزي في صفوة
الصفوة، 2 / 58، 59.
’’حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ
اور حضرت اسماء رضی اﷲ عنہما سے بڑھ کر سخاوت کرنے والی کوئی عورت نہیں
دیکھی اور دونوں کی سخاوت میں فرق ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا تھوڑی
تھوڑی اشیاء جمع فرماتی رہتی تھیں اور جب کافی ساری اشیاء آپ کے پاس جمع ہو
جاتیں تو آپ انہیں (غربا اور محتاجوں میں) تقسیم فرما دیتیں، جبکہ حضرت
اسماء (بھی) اپنے پاس کل کیلئے کوئی چیز نہیں بچا کر رکھتی تھیں۔‘‘ اس حدیث
کو امام بخاری نے الادب المفرد میں بیان کیا ہے۔
عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ : بَعَثَ مُعَاوِيَةُ إِلَي عَائِشَةَ بِطَوْقٍ مِنْ
ذَهَبٍ فِيْهِ جَوْهَرٌ قُوِّمَ بِمِائَةِ أَلْفٍ، فَقَسَّمَتْهُ بَيْنَ
أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ هُنَادُ وَابْنُ
الْجَوزِيِّ.
هناد في الزهد، 1 / 337، الرقم : 618، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 29.
’’حضرت عطا سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو سونے کا ہار بھیجا جس میں ایک ایسا جوہر لگا ہوا
تھا جس کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی، پس آپ نے وہ قیمتی ہار تمام امہات
المومنین میں تقسیم فرما دیا۔‘‘ اس حدیث کو امام ہناد اور ابن الجوزی نے
روایت کیا ہے۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی علمی و فقہی ثقاہت و فصاحت و بلاغت
عَنْ أَبِي مُوْسَي، قَالَ : مَا أَشْکَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُوْلِ
اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَدِيْثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلَّا
وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ :
هَذَا حَدِيْثٌ حَسَن صَحِيْحٌ.
الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب
: من فضل عائشة، 5 / 705، الرقم : 3883، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2
/ 179، و المزي في تهذيب الکمال، 12 / 423، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2
/ 32، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18.
’’حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے لئے جب کبھی بھی کوئی حدیث مشکل ہو جاتی تو ہم ام
المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے اس کے بارے میں پوچھتے تو ان کے ہاں اس
حدیث کا صحیح علم پالیتے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور
فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
عَنْ مُوْسَي بْنِ طَلْحَةَ، قَالَ : مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْصَحَ مِنْ
عَائِشَةَ. ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.
الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب
: من فضل عائشة، 5 / 705، الرقم : 3884، و الحاکم في المستدرک، 4 / 12،
الرقم : 6735، و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 182، و الذهبي في سير
أعلام النبلاء، 2 / 191، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 876، الرقم
: 1646، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243، و قال : رجاله رجال الصحيح.
’’حضرت موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ
عنہا سے بڑھ کر کسی کو فصیح نہیں دیکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم
نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ : کَانَتْ عَائِشَةُ أَفْقَهَ النَّاسِ وَ أَعْلَمَ
النَّاسِ وَ أَحْسَنَ النَّاسِ رَأْيًا فِي الْعَامَّةِ. رَوَاهُ
الْحَاکِمُ.
الحاکم في المستدرک، 4 / 15، الرقم : 6748، و الذهبي في سير أعلام النبلاء،
2 / 185، و العسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب
الکمال، 35 / 234، و ابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1883، و العسقلاني في
الإصابة، 8 / 18.
’’حضرت عطا بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا تمام لوگوں سے
بڑھ کر فقیہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر جاننے والیں اور تمام لوگوں سے بڑھ
کر عام معاملات میں اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے
روایت کیا ہے۔
عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ : مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَعْلَمَ بِشِعْرٍ، وَلَا
فَرِيْضَةٍ، وَلَا أَعْلَمَ بِفِقْهٍ مِنْ عَائِشَةَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي
شَيْبَةَ.
ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 276، الرقم : 26044، و العسقلاني في تهذيب
التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 234، و ابن عبد البر في
الاستيعاب، 4 / 1883، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18.
’’حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ
عنہا سے بڑھ کر، شعر، فرائض اور فقہ کا عالم کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ اس حدیث
کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
عَنِ الزُّهْرِيِّ : أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ :
لَوْ جُمِعَ عِلْمُ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ فِيْهِنَّ أَزْوَاجُ
النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ عِلْمُ عَائِشَةَ أَکْثَرُ مِنْ
عِلْمِهِنَّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 184، الرقم : 299، و العسقلاني في تهذيب
التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 235، وابن الجوزي في
صفوة الصفوة، 2 / 33، و الخلال في السنة، 2 / 476، و الذهبي في سير أعلام
النبلاء، 2 / 185، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243، و قال : رجال هذا
الحديث ثقات.
’’حضرت زہری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : اگر اس امت کی تمام عورتوں کے جن میں امہات المومنین بھی
شامل ہوں علم کو جمع کر لیا جائے تو عائشہ کا علم ان سب کے علم سے زیادہ
ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ : قَالَ مُعَاوِيَةُ : مَا رَأَيْتُ
خَطِيْبًا قَطُّ أَبْلَغَ وَلَا أَفْطَنَ مِنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 183، الرقم : 298، و الشيباني في الآحاد و
المثاني، 5 / 398، الرقم : 3027، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243.
’’قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں
نے کسی بھی خطیب کو عائشہ رضی اﷲ عنہا سے بڑھ کر بلاغت و فطانت (ذہانت)
والا نہیں دیکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عبادت، زہد و تقوی
عَنْ عُرْوَةَ : أَنَّ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها، کَانَتْ تَسْرَدُ الصَّوْمَ.
وَ عَنِ الْقَاسِمِ، أَنَّ عَائِشَةَ کَانَتْ تَصُوْمُ الدَّهْرَ وَ لاَ
تَفْطُرُ إِلَّا يَوْمَ أَضْحَي أَوْ يَوْمَ فِطْرٍ.
و في رواية عنه : قَالَ : کُنْتُ إِذَا غَدَوْتُ أَبْدَأُ بِبَيْتِ
عَائِشَةَ أُسَلِّمُ عَلَيْهَا، فَغَدَوْتُ يَوْمًا فَإِذَا هِيَ قَائِمَةٌ
تَسَبِّحُ وَ تَقْرَأُ : (فَمَنَّ اﷲُ عَلَيْنَا وَ وَقَانَا عَذَابَ
السَّمُوْمِ) وَ تَدْعُوْ وَ تَبْکِي وَ تُرَدِّدُهَا فَقُمْتُ حَتَّي
مَلَلْتُ الْقِيَامَ فَذَهَبْتُ إِلَي السُّوْقِ لِحَاجَتِي ثُمَّ رَجَعْتُ
فَإِذَا هِي قَائِمَةٌ کَمَا هِيَ تُصَلِّي وَ تَبْکِي. رَوَاهُ عَبْدُ
الرَّزَّاقِ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ الْجَوزِيِّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
عبد الرزاق في المصنف، 2 / 451، الرقم : 4048، والبيهقي في شعب الإيمان، 2
/ 375، الرقم : 2092، وابن أبي عاصم في کتاب الزهد، 1 / 164، وابن الجوزي
في صفوة الصفوة، 2 / 31.
’’حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا مسلسل روزے سے ہوتی
تھیں۔ اور قاسم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ مسلسل روزہ سے ہوتی تھیں اور
صرف عید الاضحی اور عید الفطر کو افطار فرماتی تھیں۔
اور ان ہی سے روایت ہے کہ میں صبح کو جب گھر سے روانہ ہوتا تو سب سے پہلے
سلام کرنے کی غرض سے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس جاتا، پس ایک صبح میں
آپ کے گھر گیا تو آپ حالت قیام میں تسبیح فرما رہی تھیں اور یہ آیہ کریمہ
پڑھ رہی تھیں (فَمَنَّ اﷲُ عَلَيْنَا وَ وَقَانَا عَذَابَ السَّمُوْمِ) اور
دعا کرتی اور روتی جا رہی تھیں اور اس آیت کو بار بار دہرا رہی تھیں، پس
میں (انتظار کی خاطر) کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ میں کھڑا ہو ہو کر اکتا گیا
اور اپنے کام کی غرض سے بازار چلا گیا، پھر میں واپس آیا تو میں نے دیکھا
کہ آپ اسی حالت میں کھڑی نماز ادا کر رہیں ہیں اور مسلسل روئے جا رہی
ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام عبدالرزاق، امام بیہقی اور ابن جوزی نے روایت کیا
ہے یہ الفاظ ابن جوزی کے ہیں۔
اسم
حضرت عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا)
اُم المومنین، حبیبۃ الرسول، حبیبۃ المصطفیٰ، حبیبۃ الحبیب، المُبرۃ، طیبہ،
صدیقہ، مُوَفقہ، اُم عبداللہ، حمیراء،
ولادت
ماہِ شوال 9 سال قبل ہجرت/ ماہِ جولائی 614ء
مکہ مکرمہ، حجاز، موجودہ سعودی عرب
وفات منگل 17 رمضان 58ھ/ 13 جولائی 678ء
(مدت حیات: 64 سال شمسی، 66 سال 11 ماہ قمری)
حجرہ عائشہ، مسجد نبوی، مدینہ منورہ، حجاز، خلافت امویہ، موجودہ سعودی عرب
قابل احترام..
تمام اہل اسلام کے لیے
المقام الرئيسي ...
جنت البقیع، مدینہ منورہ، حجاز، موجودہ سعودی عرب
رموز 2210 احادیث، 174 متفق علیہ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) 54 صحیح بخاری
میں منفرد، 69 صحیح مسلم میں منفرد۔
نسب * والد: حضرت ابوبکر صدیق
والدہ: حضرت ام رومان
بہن اور بھائی:
عبد الرحمن بن ابی بکر، عبداللہ بن ابی بکر، محمد بن ابی بکر، اسماء بنت
ابی بکر، ام کلثوم بنت ابی بکر
شوہر:
پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (مدت زوجیت 619ء— 8 جون
632ء)
حضرت عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت
بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47
سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات
ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ
آپ سے ہی روایت کیاگیا ہے۔
آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی
تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ
فرمائے۔ سنہ 58ھ/ 678ء میں آپ کا اِنتقال مدینہ منورہ میں ہوا۔ آپ کے مناقب
و فضائل کثیر ہیں جن سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔
نام و القاب
آپ کا نام عائشہ ہے۔خطاب اُم المومنین ہے۔ القاب صدیقہ، حبیبۃ الرسول،
المُبرۃ، المُوَفقہ، طیبہ، حبیبۃ المصطفیٰ اور حمیراء ہیں۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے بنت الصدیق سے بھی آپ کو خطاب فرمایا ہے, علاوہ ازیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یَا عَائشُ کے نام سے بھی خطاب
فرمایا ہے۔
کنیت
آپ کی کنیت اُمِ عبداللہ ہے۔ عرب میں کنیت اشراف کی شرافت کا نشان ہے اور
چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوئی اولاد نہ تھی، اِس لیے کنیت بھی نہ
تھی۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ازراہِ حسرت عرض کرنے لگیں
کہ اور خواتین نے تو اپنی سابقہ اولادوں کے نام پر اپنی اپنی کنیت رکھ لیں،
میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟۔ فرمایا: اپنے بھانجے عبداللہ کے نام پر
۔
چنانچہ اُسی دن سے آپ کی کنیت اُمِ عبداللہ قرار پائی۔ حضرت عبداللہ اپنے
والد زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے نام سے زیادہ مشہور ہیں یعنی حضرت
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، اِن کی والدہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی
اللہ عنہا ہیں جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی بہن ہیں۔
نسب
آپ والد کی طرف سے قریشیہ تیمیہ ہیں اور والدہ کی طرف سے کنانیہ ہیں۔ والد
کی طرف سے قبیلہ قریش کی شاخ بنو تمیم سے تعلق ہے اور والدہ کی طرف سے
قبیلہ قریش کی شاخ کنانہ سے تعلق ہے۔
والد کی طرف سے نسب یوں ہے:
حضرت عائشہ بنت ابی بکر الصدیق بن ابی قحافہ عثمان بن عامر بن عمر بن کعب
بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک۔
والدہ کی طرف سے نسب یوں ہے:
حضرت عائشہ بنت اُمِ رومان زینب بنت عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب بن
اذینہ بن سبیع بن وہمان بن حارث بن غنم بن مالک بن کنانہ۔
والد کی طرف سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے نسب سے مرہ بن کعب پر آٹھویں پشت پر ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب سے
مالک بن کنانہ پر گیارہویں پشت پر ملتا ہے .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب یوں ہے :
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن
عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن
کنانہ۔
حلیہ و ہیئت مبارکہ اور لباس
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خوش رو اور صاحب جمال تھیں۔ رنگ سفید تھا جس میں
سرخی غالب تھی، اِسی لیے لقب حمیراء سے مشہور ہیں -
لڑکپن میں دبلی پتلی تھیں, مگر بعد ازاں فربھی غالب آگئی تو بدن کسی قدر
بھاری ہوگیا تھا۔ زہد و قناعت کی وجہ صرف ایک جوڑا لباس کا اپنے پاس رکھتی
تھیں، اور اُسی کو دھو دھو کر پہن لیا کرتی تھیں۔ ایک کرتا جس کی قیمت پانچ
درہم تھی اور یہ اُس زمانہ کے لحاظ سے اِس قدر بیش قیمت تھا کہ تقاریب میں
دلہن کے واسطے عاریتاً مانگ لیا جاتا۔ زعفران میں رنگ کر کپڑے پہن لیا کرتی
تھیں۔
بعض اوقات سرخ رنگ کا کرتا زیب تن فرماتیں۔ اکثر سیاہ رنگ کا دوپٹہ استعمال
فرماتیں۔ کبھی کبھی زیور بھی پہن لیا کرتیں، گلے میں یمن کا بنا ہوا خاص
قسم کا سیاہ و سفید مہروں کا ہار ہوا کرتا۔ انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں
بھی پہنا کرتی تھیں۔ طوافِ کعبہ کے دوران میں چہرہ اقدس پر ایک پردہ نقاب
جیسا اوڑھ لیا کرتیں تاکہ لوگوں سے پردے میں رہیں۔ ایک ریشمی چادر آپ کے
پاس تھی، بعد ازاں وہ چادر آپ نے اپنے بھانجے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ
کو دے دی۔ یہ ریشمی چادر آپ اوڑھا کرتی تھیں۔آپ فرماتی ہیں : ہم عہد رسالت
میں سیراء کے کپڑے پہنا کرتے تھے، سیرا میں کچھ ریشم ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی مہندی استعمال فرماتی
رہیں اور زعفران میں رنگے ہوئے لباس میں حج اداء کرلیا کرتیں۔ حالتِ احرام
میں سرخ لباس زیب تن بھی فرماتیں۔ تابعی عطاء بن ابی الرباح کہتے ہیں کہ
میں اور عبید بن عمیر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا جایا کرتے تھے
جبکہ آپ کوہِ ثبیر پر ٹھہری ہوئی تھیں (یعنی موسم حج میں) ابن جریج کہتے
ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا: اُس دِن آپ کا پردہ کیا تھا؟ فرمایا: آپ اُس
وقت اپنے ترکی خیمہ میں تھیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان میں خیمہ کی
قناتیں حائل تھیں لیکن میں نے دیکھا کہ آپ زعفران میں رنگا ہوا کرتا پہنے
ہوئے ہیں، اُس وقت میں بچہ تھا۔
سر اقدس پر اکثر خوشبو لگا لیا کرتیں۔ خود فرماتی ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کے ساتھ روانہ یوئے حتیٰ کہ ہم مقام قاحہ میں پہنچے تو میرے سر
سے زردی بہہ کر چہرے پر آئی کیونکہ میں نے روانہ ہونے سے قبل سر پر خوشبو
لگائی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب تمہارا رنگ بڑا پیارا ہے۔
تابعی اسحٰق اعمیٰ جو نابینا تھے، کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا کے پاس گیا، آپ نے مجھ سے پردہ کیا، میں بولا: آپ مجھ سے پردہ کرتی
ہیں حالانکہ میں آپ کو دیکھ نہیں سکتا۔ آپ نے فرمایا: اگر تم مجھے نہیں
دیکھتے تو میں تو تمہیں دیکھتی ہوں۔
والدین
آپ کے والد حضرت ابوبکر صدیق ابن ابی قحافہ عثمان رضی اللہ عنہ ہیں جو سب
سے پہلے اسلام لائے اور اُن کا اِنتقال بروز پیر 22 جمادی الثانی 13ھ مطابق
22 اگست 634ء کو 63 سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں ہوا، تب حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہ کی عمر مبارک قریباً 22 سال تھی۔
آپ کی والدہ حضرت ام رومان زینب بنت عامر ہیں جن کا سنہ وفات اختلافی ہے۔
بعض مورخین کے مطابق حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کی وفات حضرت عثمان بن
عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ہوئی۔
بعض مورخین نے اُن کا سال وفات 5ھ اور 6ھ بھی لکھا ہے، معتبر احادیث کی
روشنی میں یہ صریحاً غلط معلوم ہوتا ہے کیونکہ 6ھ میں پیش آنے والے واقعہ
اِفک میں اُن کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے اور اِس سلسلے میں تمام روایات میں
اِن کا نام آیا ہے۔ 9ھ میں پیش آنے والے واقعہ تخییر کے وقت بھی وہ زِندہ
تھیں۔ صحیح بخاری میں تو مسروق تابعی کی روایت حضرت ام رومان سے متصلاً
مروی ہے۔
امام بخاری نے تاریخ الصغیر میں اِن کا نام اُن لوگوں میں لکھا ہے جنہوں نے
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں وفات پائی اور پہلی روایت
یعنی 5ھ اور 6ھ پر اعتراض کیا ہے۔یہ بھی مصدقہ ہے کہ حضرت ام رومان رضی
اللہ عنہا کی وفات بعہد نبوی میں نہیں ہوئی، ایسا کسی روایت میں نہیں ملتا۔
الحافظ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں اِس پر محققانہ نقد لکھا ہے
اور ثابت کیا ہے کہ امام بخاری کا بیان بالکل صحیح ہے ۔امام بخاری کے بیان
کے مطابق حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کی وفات غالباً ماہِ ربیع الاول 11ھ
مطابق جون 632ء سے ماہِ جمادی الثانی 13ھ مطابق اگست 634ء کے وسطی زمانہ
میں ہوئی جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت ہے۔
ولادت
آپ کی ولادت بعثت کے پانچویں سال ماہِ شوال المکرم مطابق ماہِ جولائی 614ء
بمقام مکہ مکرمہ، حجاز مقدس میں ہوئی ]۔ ابن سعد نے طبقات میں آپ کی ولادت
نبوت کے چوتھے سال کے آغاز میں لکھی ہے مگر پہلی روایت پر تمام مورخین کا
اتفاق ہے۔ آپ بحالتِ مسلمانی پیدا ہوئیں ہیں کیونکہ آپ کے والد حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ آپ کی ولادت سے قریباً پانچ سال قبل اسلام لے آئے تھے۔
آپ کا بچپن مکہ مکرمہ میں ہی گزرا۔ اور قریباً 9 سال کی عمر میں ہجرت کرکے
مدینہ منورہ لائی گئیں۔
بچپن
غیر معمولی اشخاص اپنے بچپن میں ہی اپنی حرکات و سکنات اور نشوونما میں
ممتاز ہوتے ہیں، اُن کے ایک ایک خط و خال میں کشش ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا کا بچپن بھی روشن اور سعادت مندی سے بھرپور گزرا۔ حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا کو لڑکپن میں کھیل کود کا شوق تو تھا مگر دو شوق مرغوب تھے:
گڑیاؤں سے کھیلنا اور جھولا جھولنا۔
گڑیائیں تو مدت مدید تک آپ کے پاس رہیں۔ سنن ابوداؤد کی ایک حدیث سے معلوم
ہوتا ہے کہ غزؤہ خیبر یا غزؤہ تبوک سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے آپ کے پاس گڑیائیں دیکھیں تھیں جو ایک طاق میں رکھی ہوئی تھیں اور
اُن کھلونوں میں ایک پروں والا گھوڑا بھی تھا۔ اگر یہ روایت غزؤہ خبیر
(محرم 7ھ) سے متعلق ہے تو غالباً اُس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 14 برس
کی تھیں اور اگر یہ روایت غزؤہ تبوک (رجب 9ھ) سے متعلق ہے تو اُس وقت حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا ساڑھے 16 برس کی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا
خود بیان ہے کہ: میں گڑیاؤں سے کھیلتی تھی۔
آپ فرماتی ہیں کہ:
"میں گڑیاؤں سے کھیلا کرتی تھی، بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
میرے پاس آتے اور میرے پاس چھوٹی چھوٹی بچیاں بیٹھی ہوتی تھیں، جب آپ داخل
ہوتے تو وہ بچیاں باہر نکل جاتیں اور جب آپ تشریف لے جاتے تو وہ داخل
ہوجاتیں (یعنی میرے پاس واپس آ جاتیں)۔"
رخصتی کے بعد بھی آپ گڑیاؤں سے کھیلا کرتی تھیں، خود بیان فرماتی ہیں کہ:
رخصتی کے بعد بھی میں بچیوں کے ساتھ گڑیاؤں سے کھیلا کرتی تھی، جب رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تو آپ سے میری سہیلیاں چھپ جاتیں، پھر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے ہٹ کر اُنہیں بھیج دیا کرتے تھے
(یعنی جب میرے پاس سے چلے جاتے تو میری سہیلیوں کو واپس میرے پاس بھیج
دیتے)۔ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کہہ دیا کرتے: اپنی
اپنی جگہ پر رہو۔ عروہ بن زبیر تابعی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا فرماتی ہیں کہ: میں عہد رسالت میں گڑیاؤں سے کھیلا کرتی تھی.
آپ فرماتی ہیں کہ: میری گڑیائیں تھیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس
تشریف لاتے تو میں ان پر کپڑا ڈال دیا کرتی تھی۔
جھولا جھولنے سے متعلق کئی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جھولا جھولنا
مرغوب تھا۔ سنن ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح سے
تھوڑی دیر قبل تک آپ جھولا جھول رہی تھیں۔[ اور جھولا جھولنے میں اکثر آپ
کی سانس پھول جایا کرتی۔
عموماً ہر زمانہ کے بچوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل کے بچوں کا ہے کہ سات
یا آٹھ سال کی عمر تک تو اُنہیں کسی بات کا مطلق بھی ہوش نہیں رہتا اور نہ
ہی وہ کسی بات کی تہہ تک ہی پہنچ سکتے ہیں لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
لڑکپن میں بھی ایک ایک بات یاد رکھتی تھیں، اُن باتوں کی روایت بھی کردیا
کرتی تھیں اور اُن سے اکثر احکام بھی اِستنباط فرما لیا کرتیں۔ لڑکپن کے
جزئی جزئی واقعات کی مصلحتوں کو بیان فرمایا کرتیں۔ اِسی زمانہ میں اگر
کھیل کود کے دوران میں کوئی سن لیتیں تو اُس کو یاد رکھتی تھیں۔
خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: مکہ مکرمہ میں جب یہ آیت بَلِ
السَّاعَۃُ مَوْعِدُھُمْ وَ السَّاعَۃُ اَدْھٰی وَ اَمَرُّ نازل ہوئی تو
میں (اُس وقت) بچی تھی اور کھیل رہی تھی۔ یہ سورۃ القمر کی آیت 46 ہے اِس
کا ترجمہ یہ ہے: " اصل میں اُن کے وعدے کا وقت تو قیامت ہے اور قیامت بڑی
سخت اور بہت تلخ ہوگی۔"
ہجرت کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سن محض 8 سال کا تھا مگر اِس کم
سنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوتِ حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرت نبوی
صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام واقعات بلکہ جزئیات بھی یاد تھیں، آپ سے بڑھ کر
کسی صحابی نے ہجرت کے واقعات کا تمام مسلسل بیان محفوظ نہیں رکھا۔ امام
بخاری نے صحیح بخاری میں باب الہجرۃ کے تحت اِن تمام روایات کو نقل کردیا
ہے۔
نکاح کے بارے میں تاریخی اوراق!!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ
عنہا ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آئیں تو اُس وقت
اُن کا سن 40 سال کا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سن مبارک 25
سال کا تھا۔ اور حضرت خدیجہ بنت خویلد مزید 25 سال تک شرفِ زوجیت میں رہیں۔
ماہِ رمضان 10 نبوی مطابق اپریل 619ء میں حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ
عنہا نے 65 سال کی عمر میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔ اُس وقت رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کا سن 50 سال تھا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
غمگین رہنے لگے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ہمراہ ہر موقع پر
ساتھ دیتی رہیں، آپ کے ساتھ ہمدردی کرتی رہیں، مصائب میں آپ کا ہاتھ بٹاتی
رہیں، سب سے پہلے آپ کے رسول و نبی ہونے کا اقرار کیا، ایسی غمگسار اور
رفیق زوجہ کی جدائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ملول رہا کرتے،
بلکہ تنہائی کے غم میں زندگی میں دشواری آنے لگی۔
جانثاران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت فکر لاحق ہوئی، مشہور صحابی
حضرت عثمان بن مظعون (متوفی 2ھ/ 624ء) کی زوجہ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا بنت
حکیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کی: یا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم! آپ دوسرا نکاح کرلیں۔ آپ نے فرمایا: کس سے؟ خولہ رضی
اللہ عنہا کہنے لگیں: بیوہ اور کنواری دونوں طرح کی لڑکیاں موجود ہیں، جس
کو آپ پسند فرمائیں اُسی کے متعلق گفتگو کی جائے۔ فرمایا: وہ کون ہیں؟ خولہ
رضی اللہ عنہا نے کہا: بیوہ تو سودہ بنت زمعہ ہیں اور کنواری ابوبکر ( رضی
اللہ عنہ) کی بیٹی عائشہ (رضی اللہ عنہا)۔ ارشاد ہوا: بہتر ہے تم اِن کی
نسبت گفتگو کرو۔
حضرت خولہ رضی اللہ عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی پا کر حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر آئیں اور اُن سے تذکرہ کیا۔ دورِ جاہلیت
میں دستور تھا کہ جس طرح سگے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز نہیں، اِسی طرح
عرب اپنے منہ بولے بھائی کی اولاد سے بھی شادی نہیں کیا کرتے تھے۔ اِس بناء
پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: خولہ! عائشہ (رضی اللہ عنہا) تو
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بھتیجی ہے، آپ سے اُس کا کیونکر نکاح
ہوسکتا ہے؟
حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اِستفسار کیا تو
آپ نے فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے دینی بھائی ہیں اور اِس قسم کے
بھائیوں سے نکاح جائز ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم
ہوا تو اُنہوں نے قبول کرلیا۔
لیکن اِس سے قبل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جبیر بن مطعم کے بیٹے سے
ہوچکی تھی، اِس لیے اُن سے پوچھنا بھی ضروری تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ نے جبیر سے جا کر پوچھا کہ تم نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی نسبت
اپنے بیٹے سے کی تھی، اب کیا کہتے ہو؟ جبیر نے اپنی بیوی سے پوچھا۔ جبیر بن
مطعم کا خاندان ابھی اسلام سے آشنا نہیں ہوا تھا، اُس کی بیوی نے کہا: اگر
یہ لڑکی (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) ہمارے گھر آگئی تو ہمارا بچہ بے
دِین ہوجائے گا (یعنی بت پرستی چھوڑ دے گا)، ہم کو یہ بات منظور نہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہوا
تو تب آپ کی عمر 6 سال تھی۔ یہ نکاح ماہِ شوال 10 نبوی مئی 619ء میں ہوا۔
تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سن 49 سال 7 ماہ تھا۔ یہ ہجرت نبوی صلی
اللہ علیہ وسلم سے تین سال قبل کا واقعہ ہے۔
آپ کا مہر 500 درہم تھا۔ آپ کی رخصتی ہجرت کے پہلے سال ماہِ شوال 1ھ/ اپریل
623ء میں عمل میں آئی۔ اُس وقت آپ کی عمر مکمل 9 سال تھی۔تابعی عروہ بن
زبیر (جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں) نے آپ سے نکاح کے متعلق
پوچھا تو بیان فرمایا کہ: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا تو
میں بچیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی، مجھے معلوم نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کرلیا ہے حتیٰ کہ مجھے میری والدہ پکڑ کر گھر میں
لے گئیں اور گھر ہی مجھے روک دیا، اب مجھے خیال آیا کہ میرا نکاح ہوگیا ہے۔
میں نے اِس بارے میں اپنی والدہ سے نہیں پوچھا، ہاں اُنہوں نے خود ہی مجھے
بتادیا کہ تمہارا نکاح ہوگیا ہے۔
تابعیہ عمرہ بنت عبدالرحمٰن (جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھتیجی ہیں)
نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ فرماتی تھیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے مجھ سے شوال 10 نبوی میں ہجرت سے تین سال قبل نکاح کیا، اُس وقت
میں 6 سال کی تھی ، پھر آپ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پیر کے دن 12 ربیع الاول
کو آئے اور ہجرت سے آٹھویں ماہ میں آپ نے مجھ سے بیاہ کیا (یعنی رخصتی) اور
خلوت کے وقت میں 9 سال کی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ماہ ربیع الاول 1ھ کو پہنچے اور
ربیع الاول سے آٹھواں مہینہ شوال ہوتا ہے ۔جس کے مطابق یہ رخصتی ماہِ شوال
1ھ/ اپریل 623ء میں عمل میں آئی اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
عمر مبارک 53 سال 10 ماہ تھی۔ اِس لحاظ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں 9 سال 6 ماہ رہیں۔
بکثرت احادیث میں آیا ہے کہ نکاح سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر آپ کے سامنے کوئی
چیز پیش کر رہا ہے، پوچھا: کیا ہے؟ جواب دیا کہ آپ کی زوجہ ہیں۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کھول کر دیکھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
تھیں۔ آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:
میں تم کو دو بار خواب میں دیکھ چکا ہوں، میں نے دیکھا کہ ایک شخص ریشمی
کپڑے میں تم کو میرے پاس لایا ہے اور کہہ رہا ہے: یہ آپ کی اہلیہ ہیں، اِن
کا پردہ اُٹھا کر دیکھئیے، میں نے پردہ اُٹھا کر دیکھا تو تم تھیں۔ میں نے
کہا: اگر یہ اللہ کے پاس سے ہے تو اللہ اِسے ضرور نافذ فرما دے گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: حضرت جبرئیل امین علیہ السلام
ریشم کے سبز کپڑے میں (لپٹی ہوئی) اُن کی تصویر لے کر رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
یا رسول اللہ! یہ دنیاء و آخرت میں آپ کی اہلیہ ہیں۔ آپ رضی اللہ فرماتی
ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ: میں نے خواب
میں تمہیں دو بار دیکھا، میں نے فرمایا کہ تم ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی ہو
اور مجھے کہا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں۔ سو پردہ ہٹا کر دیکھیے، جب میں نے
دیکھا تو تم ہی تھی۔ تو میں نے کہا: اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ
ایسا کرکے ہی رہے گا۔
کم سنی کی شادی کے حوالے سے سید سلیمان ندوی کہتے ہیں:
کم سنی کی اِس شادی کا اصل منشاء نبوت اور خلافت کے درمیان میں تعلقات کی
مضبوطی تھی۔
ایک تو عرب کی گرم آب و ہوا میں خواتین کی غیر معمولی نشوونماء کی طبعی
صلاحیت موجود ہے، دوسرے عام طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح ممتاز
اشخاص کے دماغی اور ذہنی قویٰ میں ترقی کی غیر معمولی استعداد ہوا کرتی ہے،
اِسی طرح قد و قامت میں بھی بالیدگی کی خاص قابلیت ہوتی ہے، انگریزی میں
اِسے Precocious بھی کہتے ہیں۔ بہرحال اِس کمسنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنی زوجیت میں قبول کرنا اِس بات کی
صریح دلیل ہے کہ لڑکپن سے اُن میں نشوونماء، ذکاوت، جودتِ ذہن اور نکتہ رسی
کے آثار نمایاں تھے۔
بہت سے مسلمان مصنفین نے حضرت عائشہ رضی اللّٰہ کی عمر کا حساب اُن کی بہن
حضرت اسماء رضی اللّٰہ کی عمر کی معلومات سے بھی نکالا ہے۔
جس کے مطابق شادی کے وقت اُن کی عمر 13، 17 یا 19 سال کے درمیان تھی۔
محمد نکنام عرب شاہی، جو ایرانی اسلامی محقق اور تاریخ دان ہیں، نے 6 مختلف
طریقوں سے بیان کیا ہے کہ منگنی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللّٰہ کی عمر 17 یا
19 سال اور رخصتی کے وقت 20 یا 22 سال تھی۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ کی عمر کو بنیاد بنا کر لاہور احمدیہ تحریک کے محقق
محمد علی نے اندازا لگایا ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ کی عمر 10
سال سے زیادہ اور رخصتی کے وقت 15 سال سے زیادہ تھی۔
|