آہ رے موت

میں نے اُسے دیکھا، آخری بار۔ مگر یہ آخری بار اُس طرح نہیں تھا جیسے میں چاہتا تھا۔ نہ وہ لمحہ میرا تھا، نہ وہ مسکراہٹ، اُس کی آنکھوں میں کوئی اور تھا، اُس کے دل میں کوئی اور۔ اور میں؟ میں بس ایک سایہ تھا، یا شاید ایک انجان سایہ، ایک بھولا ہوا صفحہ، جس پر کبھی کچھ لکھا گیا تھا مگر اب صرف خاک بچی ہے۔ میں تھک گیا ہوں، نہ جسم میں تاب باقی رہی ہے، نہ دل میں کوئی خواہش، نہ آنکھوں میں کوئی روشنی، صرف ایک احساس باقی ہے، کہ میں ہار چکا ہوں۔ محبت میں، زندگی میں، وقت کے ہاتھوں، تقدیر کے فیصلوں میں، ہر جگہ، ہر میدان میں، میں ہارا ہوں۔ مجھے ماننے میں کوءی شرم نہیں کہ ہاں میں ناکام ہو چکا ہوں۔

اور وہ، وہ کسی اور کی تھی۔ کبھی میری تھی یا نہیں، میں نہیں جانتا، شاید کبھی تھی ہی نہیں، پر میں نے کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر چاہا اُسے، ایسا چاہا جیسے دعاؤں میں رزق مانگا جاتا ہے، ایسا چاہا جیسے تنہائی میں آنکھیں آسمان کو دیکھتی ہیں اور صرف ایک دعا مانگتی ہیں، کہ وہ رہے، سلامت رہے، خوش رہے، آباد رہے۔

میں نے اُسے دل میں بسایا، دعاؤں میں مانگا، لفظوں میں چھپایا، خوابوں میں سنوارا، سانسوں میں بُنا، میں نے اپنے ہر لمحے کو اُس کے تصور سے جوڑا، مگر اُس نے، وہ کسی اور کے ساتھ تھی، جیسے میرا دل کوئی کاغذ ہو، اور اُس پر کسی اور کا نام لکھ دیا گیا ہو۔ یہ منظر، یہ لمحہ، ایسا تھا جیسے میری سانسیں مجھ پر پتھر پھینک رہی ہوں، اور دل ایک ایک چیخ کے ساتھ خود کو چیرتا ہوا محسوس کر رہا ہو۔ جیسے ہر قدم، ہر لفظ، ہر منظر، ہر آواز مجھے میرے آخری انجام کی طرف لے جا رہی ہوں۔
میں دیکھتا رہا، ٹوٹتا رہا، بکھرتا رہا، اور وہ، وہ ہنس رہی تھی۔ مجھ پر نہیں، اپنی خوشیوں پر۔ میں نے اُسے اُس کی مسکراہٹ میں پایا، مگر اُس ہنسی کا سبب میں نہ تھا۔ یہی بات تھی جو مجھے اندر سے ختم کر گئی۔ کاش میں ہی وجہ ہوتا۔ مگر ایسا لگا جیسے دل میں کوئی کانچ کا گلاس ہو، اور کسی نے اُسے ہاتھ سے گرایا ہو، اور ہر کرچی اب میرے وجود میں چبھ رہی ہو۔

آہ رے موت، تُو آ گءی؟ تو میرے لیے ہمیشہ ایک خیال تھی، ایک اختتام کا وعدہ، تو کیسی مہربان ہے، کیسی خاموش، کیسی نرم، پر آج تیرے آنے کا وقت کچھ زیادہ سنگ دل ہے۔ مگر آج، تو میرا واحد راستہ ہے۔ تو ہی میری نجات ہے، میرا سکون، اور میری آخری پناہ۔ میں چاہتا تھا کہ اگر کبھی موت آئے تو میں مسکرا کر جا سکوں، لیکن آج میں صرف رو رہا ہوں۔ نہ آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں، نہ لبوں پر حرف، بس دل کے اندر ایک ایسا شور ہے جو روح کو نوچ رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں موت سکون ہے، لیکن وہ نہیں جانتے کہ موت اُس وقت بھی آ جاتی ہے جب دل کا ایک خواب ٹوٹتا ہے، اور میں وہ خواب ہوں، جو اُس کی آنکھ میں کبھی تھا ہی نہیں۔

یا اللہ، میں کچھ مانگنا چاہتا ہوں، نہیں، اپنے لیے نہیں، میرے پاس اب مانگنے کو کچھ نہیں بچا۔ میری تمنائیں، میرے خواب، میرے لفظ، سب اُس کے ساتھ رخصت ہو چکے ہیں۔ میں صرف اُس کے لیے مانگتا ہوں۔ اس حالت میں بھی میرے دل میں اب بھی اُس کے لیے دعا ہے۔

یا اللہ، اُسے اُس سے بہتر زندگی دے جسے اُس نے چُنا ہے۔ یا رب، تو اُسے محفوظ رکھنا، اُس کے قدم کبھی نہ لڑکھڑائیں، اُس کے دل کو کبھی تکلیف نہ ہو، اُس کی راتوں میں سکون ہو، اُس کی ہر صبح ہنسی سے شروع ہو، اُس کی ہر رات دعا سے مکمل ہو، اُس کی صبحیں تر و تازہ ہوں، اُس کے لبوں پر کبھی درد نہ ہو، اُسے اُس کے اپنے ہمیشہ چاہیں، اُس کا مقدر روشن ہو، اُس کا جیون اتنا ہلکا ہو جیسے بہار کی ہوا، اور اُس کی آنکھوں میں کبھی نمی نہ ہو، اور اگر کبھی ہو، تو وہ بھی خوشی کی ہو۔ اُس کی آنکھوں سے کوئی آنسو نہ گرے۔ یا رب، اگر وہ کبھی تنہا ہو، تو تُو اُسے اپنی محبت میں لے لینا، اگر کبھی وہ روئے، تو اُس کے آنسو تیرے عرش تک پہنچیں اور تُو اُسے وہ سکون دے جو میں کبھی نہ دے سکتا۔ میں تجھ سے اُس کی سلامتی مانگتا ہوں، اُس کی مسکراہٹ، اُس کے خواب، اُس کی دنیا مانگتا ہوں، کہ میں اب اپنے لیے کچھ نہیں مانگتا، سوائے موت کے۔

میں چاہتا ہوں کہ جس کو اُس نے چُنا ہے، وہ اُس کا سب کچھ بنے، اُس کا مان ہو، اُس کی پناہ ہو، اُس کی روشنی ہو، اُس کی خوشی ہو، اُس کی عزت ہو، جو میں نہ بن سکا، وہ بن جائے۔
یا اللہ، اگر کبھی وہ میری دعا کو محسوس کرے، تو اُسے یہ نہ لگے کہ میں نے اُسے بددعائیں دی ہیں، میں نے تو ہمیشہ اُس کی بھلائی چاہی، اُس کے سکون کی التجا کی۔ میری ذات کی قربانی، میری تنہائی، میرے آنسو، سب تیری رضا کے حوالے، بس تُو اُسے خوش رکھنا۔

اور مجھے؟ مجھے اب کچھ نہیں چاہیے، نہ دنیا، نہ رشتہ، نہ جسم، نہ روح، میرا دل بوجھ بن چکا ہے، میری سانسیں بوجھ بن چکی ہیں۔ میں وہ نہیں تھا جو جیتا رہا، میں تو وہ تھا جو روز مرتا رہا۔ مگر آج کی موت کچھ اور ہے، یہ فیصلہ کن ہے، مکمل ہے، خاموش ہے، مگر سب کچھ کہہ دینے والی۔ میری ہڈیاں تھک چکی ہیں، میری آنکھیں خشک ہو گئی ہیں، میرے دل میں اب خون نہیں، صرف ایک ٹھنڈی سی ٹھنکن ہے جس میں نہ تپش ہے نہ زندگی۔

یہ لمحے، کچھ سست ہوتے جا رہے ہیں، سانسیں رک رک کر چل رہی ہیں جیسے اب اُن میں ہمت باقی نہیں۔ میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں، اور جسم جیسے برف میں لپٹا ہوا ہو۔ دل کی دھڑکن بھی اب تھک چکی ہے۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا گہرا ہو رہا ہے، اور مجھے اُس اندھیرے میں بھی صرف ایک چہرہ نظر آ رہا ہے، اُس کا۔ اُس کا چہرہ، اُس کی مسکراہٹ، اُس کی آواز۔

میری روح جیسے اُس کی یادوں سے الجھ رہی ہے، اور موت مجھے کھینچ رہی ہے، ایک ایک لمحے میں ایسا لگ رہا ہے جیسے میں بکھر رہا ہوں، دل کی ٹوٹ پھوٹ اب زبان پر آ رہی ہے۔

اب سانسیں بوجھ لگنے لگی ہیں، اور وقت جیسے مجھے میرے انجام کی طرف دھکیل رہا ہے۔ آخری لمحے ہیں شاید، یا اللہ، تُو گواہ رہنا، کہ میں تجھ سے ناراض نہیں، میں نے تیری رضا کو قبول کیا، میں نے اپنی چاہت کو تیرے فیصلے پر قربان کیا، میں نے اُس کی خوشی کو اپنی زندگی سے زیادہ چاہا۔ یا اللہ، میری خطائیں معاف کر دے، میری تنہائی پر رحم کر، میری شکست کو قبول کر۔
بس تُو مجھے معاف کر دینا، میری خطاؤں کو درگزر کر دینا، مجھے اپنی رحمت میں لے لینا، کہ اب میرے جسم میں کچھ نہیں بچا، میری روح صرف تیرا نام لینے کے لیے تڑپ رہی ہے۔

اب لب خشک ہو چکے ہیں، مگر ایک آخری طاقت جمع کر کے، بس ایک حرف کہنا چاہتا ہوں، وہ حرف، جو ساری زندگی میرے دل کی دھڑکن تھا، جو میری ہر دعا کی ابتدا تھا، جو میرے رب کا نام ہے۔ تُو مجھے وہ آخری ہمت دے، کہ میں تیرا نام لے کر اس دنیا کو الوداع کہہ سکوں، اور بس اُس کی سلامتی چاہتا ہوں۔
لا الٰہ الا اللہ، محمدٌ رسول اللہ!

 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 12 Articles with 4164 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.