تشہیر کہانی: شناخت
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
ازقلم: ذوالفقار علی بخاری ”23اپریل کو ورلڈ بک اینڈ کاپی رائٹ ڈے ہے۔ کیا خیال ہے ہم کچھ نئی کتب خریدنے چلیں؟“باسط نے عامر سے پوچھا۔ ”ہمارے پاس تو پہلے ہی بہت سی کتب ہیں۔جو ابھی تک پڑھی نہیں ہیں۔“ عامر نے موبائل فون کی اسکرین سے نظریں ہٹاتے ہوئے جواب دیا۔ ”ہم اپنے لیے کیوں خریدیں گے؟ اِس بار نئی کتابیں اپنے دوستوں، والدین اوراُن فلاحی اداروں میں رہنے والے بچوں کے لیے خریدیں گے،جنھیں نئی کتب اوررسائل میسر نہیں ہیں لیکن وہ مطالعے کا شوق رکھتے ہیں۔“ باسط نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”لیکن اِس کارخیر کے لیے رقم کون دے گا؟“ عامر نے استفسار کیا۔ ”دادا ابو نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بیس ہزار روپے دیں گے۔“باسط نے ہاتھ پر بندھی گھڑی کے ڈائل کو گھورتے ہوئے جواب دیا۔ ”لیکن ایک مسئلہ پھر بھی باقی ہے کہ ہم کون سی کتب خریدیں گے اورکہاں سے خریدیں گے؟“ عامر نے اپنی پریشانی عیاں کرتے ہوئے سوال کیا۔ ”سرائے اردو پبلی کیشن سے۔۔۔۔“باسط اپنی بات مکمل کرنے والا ہی تھا کہ عامر بول اُٹھا۔ ”وہ تو نیا ادارہ ہے۔۔۔۔کہیں اُس کا معیار۔“ عامر کی بات ادھوری رہ گئی تھی کہ باسط نے کتابوں کے نام گنوانا شروع کر دیے۔ ”ستمبر2022سے اب تک بچوں کے لیے کئی معیاری کتب شائع ہو چکی ہیں۔جن میں انمول خزانہ، صدیوں کے آسیب،مریم کا عزم،بے وقوف پومی،تلاش،امی جی کا آنگن،قوس قزح،پھوپھوکان اقبال،کوئل کی دانائی،صدیوں کے مسافر،کہانی خزانہ،نقطوں کا کھیل،خوابوں کی شہزادی،انوکھے دوست، بھروسہ،عہد وفا،کامیابی کی کنجی،بچوں کا قرآن اور رب کا مہمان شامل ہیں۔اور معیار کی بات کے لیے یہی کافی ہے کہ نہ صرف قارئین بلکہ ادیبوں نے بھی تعریف کی ہے۔“ ”بہت خوب۔۔۔اِن میں سے چند کتب میرے پاس ہیں۔کچھ پاکٹ سائز کہانیوں کے مجموعے روح کا راز، عالیان پہ کیا گزری، سنہری بال، سچائی کی تلاش،شرمساری، اچھے لوگ، باغی، میں اقبال ہوں، فرسٹ ایڈ بکس،سچی خوشی، میں اسکول جاؤں گی،جادوئی چھڑی، ٹیڈی،بیڈی، تمبوڑی،ڈڈو اور کچھو،جینی اور مینا کی چھپن چھپائی،سنہری بیج،محل کا راز،قائد کا پاکستان،ہمارا چاند میرے کتب خانے میں محفوظ ہیں۔“ باسط کی بات ختم ہوتے ہی عامر نے بتایا۔ ”اور تو اورکچھ ناول ٹین ایجرز کے لیے جیسا کہ قرض مٹی کا، آخری وار، تلاش گمشدہ، مارخور، بھیڑے کی چال،حاتم طائی اورسند باد،علی بابا پچاس چور سرائے اردو پبلی کیشن شائع کرچکا ہے۔ جن میں سے دو کے نئے ایڈیشنز بھی شائع ہوئے ہیں۔“ باسط نے عامر کی معلومات میں اضافہ کیا۔ ”اگر ہم بچوں کے لیے کوئی رسالہ خریرنا چاہئیں تو پھر۔۔۔“عامر نے اپنی بات ادھوری چھوڑی تاکہ باسط مکمل کرے۔ ”پھر۔۔۔ہم سہ ماہی باغیچہ اطفال، سیالکوٹ خریدیں گے۔“ باسط نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ”میرا ایک سوال تو بیچ میں ہی رہ گیا ہے۔۔۔کہ کن ادیبوں کی کتب شائع ہوئی ہیں؟“ عامر نے اُداسی سے کہا۔ ”ارے۔۔۔بھئی۔۔۔عینی عرفان، ناجیہ شعیب احمد،علیزہ آصف،محمد سراج عظیم، دانیال حسن چغتائی، ام محمد،فاکہہ قمر،یاسمین کنول،غزالہ اسلم،رحمت عزیز چترالی،شمیم فضل خالق،ثمر عباس لنگاہ، عصمت اسامہ، فہمینہ ارشد، بشریٰ فرخ،ڈاکٹر سیما شفیع، مریم شہزاد، شہلا خضر،محمد فیصل علی، بہرام علی وٹو، افروز عنایت، عائشہ گل، طیبہ سجاد، اسماء صدیقہ، حمیرا بنت فرید، شاہ نواز بخاری، وردہ اسلم، عظمیٰ یاسر، تابندہ فرخ،ویرکیف،حمیرا خالد،چوہدری عبدالرحمن، طلعت نفیس، محمد جنید صدیقی،اقصیٰ کنول،سونیا سحرش، محمد حذیفہ حیدر،محمد تجمل بیگ، احمد ذیشان چغتائی، مفتی ارشاد احمد، ہما اسلم، شمائل عبداللہ، سحرش اعجاز، عرفان حیدر،نمرہ شہزاد، حسن ابن ساقی، عشرت زاہد، آدرش نواز، عبدالواحد کاظم،شفیق احمد،پیر محمد اقبال، ذیشان کریم، ساجدہ فرحین فرحی، خبیب زئی اور احمد رضا انصاری کے علاوہ کئی ادیبوں کی کتب شائع ہو چکی ہیں۔“ باسط نے دھیرے دھیرے کچھ نام گنوائے اورگہری سانس لینے لگا۔ کافی دیر سے خاموش بیٹھے عارف نے بولنا شروع کیا تو تینوں دوست اُس کی جانب متوجہ ہو گئے۔ ”عالمی ادیب اطفال اردو ڈائریکٹری کے دو حصے شائع کرنے کا اعزاز سرائے اردو پبلی کیشن کے پاس ہے۔اِس کے ذریعے اب تک 280کے لگ بھگ بچوں کے ادیبوں کی معلومات یکجا کی جا چکی ہیں۔خاتم النبین ﷺ کے نام سے سوسے زائد قلم کاروں کی تحریروں پر مبنی کتاب بھی منظرعام پر لا چکے ہیں۔“ ”مجھے بھی علم ہے کہ سہ ماہی باغیچہ اطفال اورسہ ماہی سرائے اردو کے کئی خاص نمبرز شائع ہو چکے ہیں۔“ عامر نے چہکتے ہوئے بتایا۔ ”اِن سے رابطہ کیسے ممکن ہوگا؟“ارسلان نے اچانک سوال کیا۔ ”بھئی۔۔۔ای میل ([email protected])اورواٹس ایپ نمبر (03338631428) پرکتب کی اشاعت اورخریداری کے لیے معلومات لی جا سکتی ہیں۔“باسط نے گہری سنجیدگی سے جواب دیا۔ ”چلیں دیکھتے ہیں کہ بیس ہزار میں کیا کچھ ملتا ہے۔“ ارسلان نے عامر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ”بیس ہزار روپے میں چھوٹا سا کتب خانہ بن سکتا ہے، آزمائش شرط ہے۔“عامر نے لقمہ دیا۔ اچانک باسط زور سے چیخا۔ ”سرائے اردو۔۔۔ادیبوں اورمعیار کی پہچان۔“ نعرہ سن کر ارسلان اورعامر مسکرانے لگے۔ ۔ختم شد۔ |