(13 اپریل 2025ء، یوم وفات پر خصوصی تحریر)
پروفیسر خورشید احمد کی شخصیت برصغیر پاک و ہند کی اس علمی و فکری روایت کا
تسلسل ہے جس نے علامہ اقبال، سید مودودی اور ڈاکٹر محمد حمید اللہ جیسے
مفکرین کو جنم دیا۔ وہ ایک ماہر معاشیات، فلسفی، اسلامی مفکر، معلم، محقق،
مصلح، مبلغ اور مخلص سیاسی کارکن تھے جنہوں نے علم و عمل کے سنگم پر کھڑے
ہو کر اپنی پوری زندگی اسلام، علم، امت مسلمہ اور پاکستان کی خدمت کے لیے
وقف کی۔
خورشید احمد 23 مارچ 1932ء کو دہلی کے ایک تعلیم یافتہ اردو بولنے والے
گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کی تربیت ایسے ماحول میں ہوئی جہاں دین، علم اور
تہذیب ایک دوسرے سے جدا نہ تھے۔ تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان
ہجرت کر کے لاہور میں آباد ہوا۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے معاشیات
میں فرسٹ کلاس آنرز کے ساتھ بی اے کیا اور بعد ازاں جامعہ کراچی سے ایم اے
اسلامیات اور معاشیات میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔
خورشید احمد کی فکری تربیت میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں نے بنیادی
کردار ادا کیا۔ وہ نہ صرف جماعت اسلامی کے سرگرم رکن بنے بلکہ بعد ازاں
جماعت کے نائب امیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ان کا شمار ان اولین افراد
میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلامی معاشی نظام کو محض ایک تصور کے بجائے ایک
باقاعدہ علمی و عملی شعبے کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ 1949ء میں
پروفیسر خورشید احمد نے اپنا پہلا انگریزی مضمون مسلم اکانومسٹ میں شائع
کیا۔
1965ء میں انہوں نے برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیسٹر سے اسلامی معاشیات کے
موضوع پر ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ ان کا تحقیقی مقالہ اسلامی اقتصادیات کی بنیادوں
پر تھا، جو بعد ازاں جدید اسلامی معیشت کے فکری ڈھانچے کی تشکیل میں سنگ
میل ثابت ہوا۔ ان کی تحریریں نہ صرف اردو بلکہ عربی، انگریزی، ترکی، بنگالی،
جرمن، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوئیں اور دنیا
بھر کی جامعات میں پڑھائی گئیں۔
انہوں نے اسلامک فاؤنڈیشن (لیسٹر)، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (اسلام
آباد) اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) جیسے اداروں کی
بنیاد رکھی، جو آج بھی علمی تحقیق کے مراکز سمجھے جاتے ہیں۔
پروفیسر خورشید احمد صرف نظریاتی میدان کے شہسوار نہ تھے، بلکہ انہوں نے
سیاست کے عملی میدان میں بھی قدم رکھا۔ 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر
سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور 2012ء تک ایوان بالا میں اسلامی و جمہوری
قانون سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ 1980ء کی دہائی میں وہ وفاقی وزیر
منصوبہ بندی اور پلاننگ کمیشن کے وائس چیئرمین رہے، جہاں انہوں نے معاشی
پالیسیوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق تشکیل دینے میں فعال کردار ادا کیا۔
1990ء میں سعودی عرب کی جانب سے اسلامی خدمات پر شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا
گیا۔ 2011ء میں حکومت پاکستان نے انہیں اعلیٰ ترین سول اعزاز "نشانِ
امتیاز" عطا کیا۔ دنیا کی کئی جامعات نے ان کی علمی خدمات کو تسلیم کرتے
ہوئے ان پر ڈاکٹریٹ کے مقالے لکھوائے۔
13 اپریل 2025ء کو وہ 93 برس کی عمر میں برطانیہ کے شہر لیسٹر میں اس دارِ
فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی وفات پر علمی، سیاسی اور دینی حلقوں نے گہرے رنج
و غم کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم پاکستان سمیت ملک و بیرون ملک کی اہم شخصیات
نے ان کی خدمات کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔
پروفیسر خورشید احمد کی زندگی صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک نظریے، ایک
تحریک، ایک علم، ایک بصیرت کی علامت ہے۔ ان کا چھوڑا ہوا فکری ورثہ آئندہ
نسلوں کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ وہ ان مفکرین میں سے تھے جنہوں نے اسلام کو
معاصر دنیا کے سامنے قابل عمل، مدلل اور مربوط نظام کے طور پر پیش کیا۔
ان کی علمی، فکری اور سیاسی زندگی ہم سب کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔ بلاشبہ،
پروفیسر خورشید احمد کا نام تا دیر زندہ رہے گا، ان کے نظریات اور خدمات
آنے والی نسلوں کے لیے ایک رہنما چراغ کی حیثیت رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان
کے درجات بلند فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے
کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
|