خدا اور رسول ﷺ بننے کی کوشش نہ کرو

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں آج یہ کس طرح کے موضوع کو اپنی تحریر کا حصہ بنانے جارہا ہوں یعنی کوئی اہل ایمان مسلمان یہ سوچ بھی کیسے سکتا ہے کہ وہ خدا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم بن جائے (نعوذ و باللہ) یا بننے کی کوشش کرے لیکن آپ اگر اس بات کی گہرائی میں جاکر دیکھیں اور پھر اس کو سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس جملے کے اندر پوشیدہ کچھ حقیقتیں ہیں جن کو آپ تک پہنچانے کی میری کوشش ہے جب آپ یہ تحریر پڑھیں گے سمجھیں گے تو یقینی طور پر آپ اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کریں گے ان شاءاللہ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آیئے سب سے پہلے اس بات کو ہم ایک مختصر واقعہ کی شکل میں پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کے خلاصے کی طرف نظر دوڑائیں گے ایک شاگرد نے جب اپنے استاد سے مل کر رخصت ہوتے ہوئے عرض کیا کہ استاد محترم کوئی نصیحت فرمادیجئیے تو استاد محترم نے فرمایا کہ ویسے تو تمہیں نصیحت کی ضرورت تو کوئی نہیں مگر بس دو باتوں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہوئے اپنے پلو سے باندھ لینا " ایک یہ کہ خدا نہ بننا اور دوسرا یہ کہ رسولﷺ نہ بننا " شاگرد یہ بات سن کر حیران ہوگیا اور کہنے لگا کہ استغفرُللہ ایک اہل ایمان مسلمان اس کا تصور بھی کیسے کرسکتا ہے مجھے آپ کی یہ بات سمجھ نہیں آئی مجھے وضاحت سے سمجھائیے تو استاد نے فرمایا کہ اگر تم یہ چاہو کہ تمہیں زندگی میں جو چاہئے وہ مل جائے تم جو چاہو وہ حاصل کرلو اور دنیا کا ہر کام تمہاری مرضی سے ہو تو سمجھ لو کہ تم خدا بننے کی کوشش کررہے ہو جبکہ یہ صفات تو صرف اور صرف میرے رب العزت کی ہیں وہ جو چاہے جب چاہے کرسکتا ہے کیونکہ وہ مالک عرض و سماع ہے اور کائنات میں موجود ہر شہ کا خالق اور مالک وہ ہی ہے کسی انسان میں یہ صفات پیدا نہیں ہو ہی نہیں سکتی اسی طرح اگر تم چاہو کہ پوری دنیا تمہاری عقیدت مند ہو جائے اور وہ صرف تم سے عقیدت رکھے تو یہ تمہاری رسول بننے کی کوشش ہوگی کیونکہ یہ صفت تو صرف میرے حضور ﷺ کی ہی صفت ہے کہ کائنات کی ہر شہ اور رب العزت کی ہر مخلوق آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے عقیدت رکھتی ہے کسی انسان کو یہ صفت حاصل ہو ہی نہیں سکتی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے آج کے معاشرے میں اس کی کئی مثالیں ہمیں اکثر و بیشتر پڑھنے کو سننے کو اور دیکھنے کو ملتی ہیں جہاں لوگ دنیاوی خدا بن کر اپنے سے کمزور لوگوں کے ساتھ زیادتی ، ناانصافی اور ان کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ قرآن مجید میں بھی شداد ، فرعون ، نمرود ، قارون وغیرہ کی زندگیوں اور پھر ان کے انجام کا تذکرہ ہمیں بڑی تفصیل کے ساتھ ملتا ہے جو اپنی اپنی زندگی میں خدائی دعویٰ کر بیٹھے تھے اور پھر اس کائنات کی تخلیق کار اور اس کرہ ارض کے پورے نظام کو تن تنہا چلانے والے میرے رب نے ان کا جو حال کیا جو حشر کیا وہ رہتی دنیا تک آنے والے لوگوں کے لئے ایک مثال ہے کسی شاعر نے اس موقع پر کیا خوب کہا ہے کہ
ہر شخص خدا بننے میں ہے مصروف
یہ تماشہ بھی خدا دیکھ رہا ہے

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم آج کے اپنے معاشرے کا حال دیکھیں تو ہمیں جگہ جگہ ایسے لوگ ملتے ہیں جو اس بیماری میں مبتلا ہیں اور یہ شیطان کی طرف سے ان پر مسلط کی گئی ہے انسان خدائی دعویدار تب بنتا ہے جب اس کا علم اور اس کی طاقت اسے تکبر اور خود پسندی میں مبتلا کردے اب چاہے وہ آج کی جدید ترین لیبارٹری " سرن" ہو یا مائکروسافٹ کا بانی بل گیٹس ہو یہ سب اپنی آنا کی تسکین اور نفس کی خواہش کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں دوسرے الفاظ میں کہئے تو شیطان کے حکم کی تعمیل میں مصروف عمل ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دیکھنے والوں کو نظر یہ آتا ہے کہ یہ لوگ بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے کام کررہے ہیں لیکن ان کا مقصد پوری انسانیت پر قبضہ کرنا اور ان کو بتائے بغیر ان پر خدائی طاقت قائم کرنا ہے جس کی ایک مثال کرونا وائرس کی وباء اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نئی دنیا کا نظام ہے جس کی ویکسین دراصل انسان کو بچانے کے لئے نہیں بلکہ اپنی زندگی ان چند لوگوں کے ہاتھوں میں دینا ہے اب شداد ہو فرعون کو یا نمرود ان سب لوگوں نے خدائی کا دعویٰ اس وقت کیا جب ان کے علم اور ان کی طاقت نے انہیں غرور میں مبتلا کردیا اور وہ سمجھنے لگے کہ ہم وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو خدا کرسکتا ہے (نعوذباللہ) ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی طرح آج کے معاشرے میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اللاعلان خدائی کا دعویٰ نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے علم اور اللہ تعالی کی عطا کی ہوئی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے تکبر کے نشے میں آہستہ آہستہ لوگوں پر یہ تاثر قائم کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ سب کچھ کرسکتے ہیں گویا ان کی باتوں کو مان لیا جائے اور ان کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیا جائے پہلے کے لوگوں میں اور آج کے معاشرے کے لوگوں میں فرق یہ ہی ہے کہ وہ لوگ لوگوں کی کم عقلی اور دین سے دوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جادوئی کمالات دکھاکر انہیں مرعوب کرلیا کرتے تھے اور جب لوگ ان سے مرعوب ہوجاتے تو وہ اپنی خدائی کا دعویٰ کردیتے تھے جبکہ آج کے دور میں ایسے لوگوں کی تدبیر بدل چکی ہے لیکن مقصد سب کا ایک ہی ہے کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے دین سے دور کرکے انہیں شیطان کے راستے پر چلایا جائے اب وہ ابوجہل ہو یا ہاشم ابن منقع اور ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے یہاں کا دنیاوی پڑھا لکھا کم و بیش ہر شخص ان کی باتوں کو ماننے پر یا سچ سمجھنے پر بضد ہے جبکہ دینی طبقات کے لوگ یا جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی دی گئی ہدایت کا علم ہے وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی ان کے خلاف سیسا پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں اور یہ پڑھے لکھے لوگ انہیں وقت کے ترقی یافتہ ہونے کی وجہ سے جاہل ہونے کا طعنہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد ہمیں کئی ایسے لوگوں کا ذکر بھی ملتا ہے جنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ان لوگوں میں کچھ مسلمان تھے جو دعویٰ کرکے کافر ہوگئے جبکہ غیر مسلموں یعنی کافروں کی تعداد بھی ہمیں ملتی ہے ایک حدیث مبارکہ ہے کہ" حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ’’قیامت قائم نہ ہوگی حتی کہ دوگروہ لڑیں گے اور ان میں عظیم جنگ برپاہو گی، ان کا دعوی ایک ہو گا۔ اور قیامت قائم نہ ہو گی حتیٰ کہ تیس کے قریب جھوٹ بولنے والے دجال پیدا ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک یہ دعوی کرے گاکہ وہ اللہ کا رسول ہے۔‘‘.
( صحیح البخاری 3609)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں نبی کے دعویداروں میں کافر کے علاوہ مسلمان لوگ بھی شامل ہیں اور یہ ایک ناختم ہونے والی فہرست ہے کچھ مسلمان ایسے بھی ہیں جنہوں نے دعویٰ کرکے توبہ کرلی لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے توبہ نہیں کی اور اللہ تعالی نے انہیں ہلاک کردیا اس فہرست میں صرف ان کذابین یا دجالین کے نام لکھے گئے ہیں جنھوں نے نا اپنے موقف سے رجوع کیا نا توبہ کی یہاں تک کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کر دیا۔ جبکہ یہ جاننا چاہئیے کہ یہ سب وہ ہیں جنھوں نے امت میں ہوتے ہوئے ایسا دعویٰ کرکے یہ راستہ اختیار کیا ان لوگوں کے نام درج ذیل ہیں۔
1۔ مسیلمہ کذاب

2۔ عبہلہ بن كعب بن غوث العنسی المعروف اسود العنسی

3۔ حارث دمشقی

4۔ مغیرہ بن سعید

5۔ بیان بن سمعان

6۔ صالح بن طریف برغواطی

7۔ اسحاق اخرس

8۔ استاد سیس

9۔ علی بن محمد خارجی

10۔ حمدان بن اشعث قرمطی

11۔ علی بن فضل یمنی

12۔ حامیم بن من اللہ

13۔ عبد العزیز باسندی

14۔ ابو القاسم احمد بن قسی

15۔ عبد الحق بن سبعین مرسی

16۔ بایزید روشن جالندھری

17۔ میر محمد حسین مشہدی

18۔ سید علی محمد باب

19۔ بہاء اللہ

20۔ مرزا غلام احمد قادیانی

21۔ محمود پسی خانی گیلانی

22۔ ریاض احمد گوہر شاہی

23۔ یوسف کذاب

24۔ احمد عیسی
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے آج کے معاشرے میں ان زمینی خدائوں میں کئی اقسام کے لوگ شامل ہیں میں جانتا ہوں ایک ایسے ہی سائیں محبت علی خان صاحب کو جو اپنے علاقے کے ایک بہت بڑے رئیس زادے تھے بیشمار مال و دولت کی وجہ سے ان کے اندر غرور و تکبر صاف دکھائی دیتا تھا ان کی ایک بیٹی تھی اکلوتی ہونے کی وجہ سے اس کا دماغ بھی کچھ زیادہ ہی خراب تھا حالانکہ وہ ابھی چھوٹی تھی مال و دولت ہونے کی وجہ سے جناب محبت علی خان کے سیاسی اثرورسوخ بھی اچھے تھے ان کی بیٹی پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتی تھی لیکن اس کے باوجود وہ ہر سال پاس ہوکر آگے بڑھ جاتی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یکایک اسکول میں ایک نئے پرنسپل آئے اور وہ بڑے سخت تھے انہوں نے جب یہ معاملات دیکھے تو انہون ایکشن لینے کا ارادہ کیا اور جب امتحان ہوئے تو سائیں محبت علی خان کی بیٹی کو فیل کردیا گیا جب یہ خبر سائیں تک پہنچی تو انہوں نے اسی وقت پرنسپل صاحب کو بلوالیا اور غصے کے عالم میں اپنی بیٹی کے سامنے ان کی بیعزتی کی اور انہیں دھمکی دی کہ اگر ان کی بیٹی کو پاس نہ کیا گیا تو وہ ان کا یہاں سے تبادلہ کروادیا گے پرنسپل صاحب نے عرض کیا کہ اگر آپ اسی طرح اپنی بیٹی کو پاس کرواتے رہیں گے تو یہ آگے جاکر کیا کرے گی اس طرح تو آپ اس کا نقصان کررہے ہیں لیکن سائیں محبت علی خان پر پرنسپل صاحب کی کسی بات کا کوئی اثر نہیں تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب پرنسپل نے اپنے اصول سے نہ ہٹنے کی بات کی تو ان کا تبادلہ کروادیا گیا لیکن انہوں نے جاتے جاتے سائیں محبت علی خان کی بیٹی سے کہا کہ بیٹا یہ امتحانات تو چھوٹے چھوٹے امتحانات ہیں لیکن جب تم پریکٹیکل لائف میں آئو گی تو کیا کرو گی وہاں تمہاری یا تمہارے باپ کی مرضی نہیں چلے گی پھر کیا کرو گی لیکن دولت اور تکبر کے نشے نے اس کی آنکھوں میں پٹی باندھ دی تھی اور وہ کہنے لگی کہ میرے پاپا میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہیں وہ مجھے کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور ان کے لئے کوئی مشکل مشکل نہیں ہے وہ تکبرانہ انداز میں یہ کہتی ہوئی چلی گئی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس لڑکی کو ڈاکٹر بننے کا بڑا شوق تھا لیکن اسے داخلہ ملنا مشکل تھا یوں سائیں محبت علی خان کے تعلقات کی بنا پر اسے داخلہ مل گیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک دن وہ ڈاکٹر بن گئی اور ایک ہسپتال میں ہائوس جاب کرنے لگی اپنے باپ کی سفارش کی وجہ سے وہ آگے بڑھتی جارہی تھی اور یوں ایک دن وہ ایک سرجن بن گئی وہ سرجن جس کے نام کے ساتھ سرجن کا لفظ استعمال تو ہوتا تھا لیکن اسے کچھ بھی نہیں آتا تھا اور اب اس کے پریکٹیکل لائف کا آغاز ہوچکا تھا ایک دن یوں ہی وہ اپنے دوسرے ڈاکٹرز کے ساتھ بیٹھی محو گفتگو تھی کہ اس کے فون کی گھنٹی بھی اور جب اس نے فون اٹھایا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے باپ یعنی سائیں محبت علی خان کو اٹیک ہوا ہے اور انہیں ہسپتال لیکر آرہے ہیں وہ گھبرا گئی اور یہاں وہاں بھاگنے لگی تو دوسرے ڈاکٹروں نے اسے دلاسہ دیا اور کہا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا فکر نہ کرو سائیں محبت علی خان کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ ڈاکٹرز روم میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ اگر اسے آپریشن تھیٹر میں بلایا گیا تو وہ کیا کرے گی اسے تو کچھ بھی نہیں آتا وہ تو یہاں تک اپنے باپ کی سفارش پر پہنچی ہے اور جس باپ کی سفارش پر وہ یہاں تک پہنچی آج اس کے علاج کے لئے اس کی ضرورت ہے وہ یہ سوچ رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تب اسے اپنے اسکول کے پرنسپل کی بات یاد آتی ہے کہ "بیٹا یہ امتحانات تو چھوٹے چھوٹے امتحانات ہیں لیکن جب تم پریکٹیکل لائف میں آئو گی تو کیا کرو گی وہاں تمہاری یا تمہارے باپ کی مرضی نہیں چلے گی پھر کیا کرو گی" ۔
اسے اس بات کا شدت سے احساس ہوگیا تھا اور پھر اس نے سارے امتحانات دوبارہ دینے کا فیصلہ کیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس واقعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمینی خدا بننے سے وہ سب کچھ نہیں ہوسکتا جو انسان چاہتا ہے کیونکہ زندگی ، موت ، رزق اور ایسے کئی معاملات ہیں جو رب العزت نے صرف اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں زمینی خدا اپنے علم اور طاقت کے بل بوتے پر سب کچھ کرسکتے ہیں لیکن پھر بالآخر انہیں بھی موت کا مزہ چکھنا پڑتا ہے جیسے شداد ، فرعون ، قارون ، نمرود اور ہاشم بن منقع وغیرہ نے جو کرسکے وہ کیا لیکن جب میرے رب تعالیٰ کے شکنجے میں آئے تو موت کا مزہ چکھنا پڑا جبکہ میرے رب تعالی کی ذات ہمیشہ قائم رہنے والی ذات ہے وہ تھا وہ ہے اور وہ ہمیشہ باقی رہے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قرآن اور احادیث میں کئی جگہوں پر ہمیں یہ بتلایا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا اور اگر کوئی ایسا شخص سامنے آتا ہے تو وہ یقینی طور پر جھوٹا ، دھوکے باز ، شعبدہ باز اور گمراہ ہونے کے ساتھ ساتھ گمراہ کردینے والا ہوگا اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوگی اور رہتی قیامت تک رہے گی جیسے ایک حدیث مبارکہ ہے کہ ’’عنقریب میری امت میں تیس (30) اشخاص کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک کذاب کو گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا‘‘-
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایسا ہی ایک شخص جس نے اپنے شعبدہ بازی سے لوگوں کو حیران کر رکھا تھا یہاں تک کہ جب اسے زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا تو وہ انہیں کھولنے میں مہارت رکھتا تھا جبکہ ہلاکت نیزوں کا وار بھی اس پر کارگر ثابت نہ ہوتا اس شخص کا نام حارث تھا حارث کذاب اپنی مجاہدات اور ریاضت کی بدولت لوگوں کو حیران کردینے والے کام کرتا تھا وہ کہتا آئو میں تمہیں دمشق سے فرشتوں کو گزرتے ہوئے دکھائوں لوگ باقائدہ محسوس کرتے کہ آسمان پر گھوڑے پر فرشتے گزررہے ہیں یہ لوگوں کو سردی کے موسم میں گرمی کے پھل اور گرمی میں سردی کے پھل کھلاتا تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کی خبر جب خلیفہ وقت مالک بن مروان کے پاس پہنچی تو اس نے اس کی گرفتاری کا آرڈر دیا لیکن وہ وہاں سے فرار ہوچکا تھا لیکن بصرہ کا رہنے والا ایک شخص جس نے بادشاہ سے اجازت لی اور بیس سپاہیوں کو لیکر بیت المقدس پہنچ گیا اور موقع ملتے ہی اس نے حارث کذاب کو گرفتار کرکے زنجیروں میں باندھ کر روانہ ہوگیا بیت المقدس سے بصرہ تک کے راستے میں حارث نے تین بار اپنی زنجیریں کھول لی لیکن گرفتار کرنے والا شخص اس سے مرعوب نہیں ہوا اور بالآخر اس جھوٹے نبی کو خلیفہ کے دربار میں پیش کردیا خلیفہ کے دربار میں بھی وہ منحوس نبی ہونے کا دعویٰ کرتا رہا تب خلیفہ نے اس نیزے سے وار کرنے کا حکم دیا لیکن پھینکے گئے پہلے نیزے کے وار نے اس پر کوئی اثر نہیں کیا تو خلیفہ نے محافظ سے کہا کہ اب بسمہ اللہ پڑھ کر مارو پھر جب نیزہ مارا تو وہ حارث کے جسم سے آر پار ہوگیا اور یوں یہ بدکار اور جھوٹا نبی اپنے انجام کو پہنچا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کائنات کی تخلیق اور حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر آنے کے بعد آنے والے انبیاء کرام علیہم السلام کے زمانوں سے خدائی کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کا ذکر ہمیں قرآن و حدیث میں کئی جگہوں پر ملتا ہے جہاں یہ سلسلہ نمرود سے شروع ہوا یعنی خدائی دعویٰ کرنے والا پہلا انسان نمرود پھر فرعون ، شداد اور قارون کے قصے اور ان کے انجام ہمیں صاف اور واضح طور پر نظر آتے ہیں اور اسی طرح ایسے لوگوں کا ذکر بھی ہمیں ملتا ہے جو حضور ﷺ کے ظاہری وصال کے بعد جھوٹے نبی ہونے کا دعویٰ کر بیٹھے اور بعد میں ان کے انجام پوری دنیا نے دیکھے سنے اور پڑھے کیونکہ یہ بات صاف اور واضح ہے کہ خدا کا خدا کوئی نہیں جبکہ اس کے حبیب کریمﷺ اس رب تعالی کے آخری نبی ہیں اور نبوت کا سلسلہ ان پر ختم ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنا نائب بناکر بھیجا ہے اپنی تمام مخلوقات میں افضل اور اعلی مخلوق یعنی اشرف المخلوقات بناکر لہذہ ہمیں اس کے احکامات اور اس کے حبیب کریمﷺ کی باتوں پر عمل کرکے اس کا یہ حق ادا کرنا ہوگا نہ کہ زمینی خدا بن کر اپنے سے کمزور پر ظلم کرکے زندگی کو گزاریں اللہ سے دعا ہے کہ
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ
خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
اوپر مذکورہ ان لوگوں کی فہرست جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد یا ان کے سامنے نبوت کا دعویٰ کیا ان کے متعلق کچھ تفاصیل کوشش کروں گا کسی مضمون کی شکل میں آپ تک پہنچانے کی سعادت حاصل کروں آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صرف اپنے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے مجھے سچ لکھنے ہم سب کو پڑھنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 176 Articles with 159315 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.