ہم اکثر اپنے بڑے بزرگوں سے ایک لفظ سنتے آئے ہیں ''چغد''
جب چھوٹے تھے تو کبھی سمجھ نہیں آیا کہ آخر یہ ''چغد'' ہے کیا بلا، بہت سے
ایسے جاندار ہیں جن سے ہم بچپن سے ہی واقف ہیں بلکہ ایک تخیلاتی تصویر بھی
ان کی ہمارے اذہان میں محفوظ ہے، جیسے باگڑ بلا،اللہ بابا،وغیرہ وغیرہ
حقیقت میں نا تو کسی نے اسے دیکھا ہے کہ وہ کیسا ہے پر ہےایک ہیبتناک
جانداراور چغد بھی ان میں سے ایک ہے۔ چونکہ تحقیق کا کیڑا بچپن سے ہی دماغ
میں کلبلاتا رہا ہےاس لئے سوچا اس ''چغد'' نامی جاندار پر کچھ تحقیق کی
جائےاور آخرکار پکڑلیا اسے بھی۔
تحقیق کرنے پر پتا چلا یہ نہاہت چالاک،عیار،مکار،اوربےایمان ہے،اس نے مختلف
ناموں کا ملمع خودپر چڑھارکھا ہےیہ ہے ایک ہی جنس، پاگل اور بےوقوف کی سب
سے پوشیدہ قسم ہے یعنی عموماًادیب اوراہل علم قسم کے لوگ اسے اصطلاحی طورپر
استعمال کرتے ہیں۔کسی کولعنت ملامت اور پھٹکار کا تحفہ دینا ہو تو اس کی
خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔اکثراوقات چغد نا بھی کہاجائے تو محض چ کہنےپر بھی
اکتفاکرلیاجاتاہے۔جیسے کہ لوگ کہتے ہیں اؤئےتو مجھے چ سمجھ رہاہےکیا؟ ابے
اومیں کوئی چ نہیں ہوں سمجھا چل پھوٹ!
اب تک کی تحقیق پر پتا چلا کہ ''چغد'' تین قسم کے ہوتے
بےوقوف
کم عقل
گاؤدی
ایک اورچوتھی قسم بھی ہے مگرسازشی عناصر نے کسی ذہین فطین کی کردارکشی کرنے
کے لئے اس کی ذہانت سے خائف ہوکر پراپیگنڈےکے طور پر اسے اس صف میں شامل
کردیا ورنہ دنیا معترف ہے اس کی ذہانت کی، اور وہ ہے الوکا ''پٹھا''
''چغد'' کی اس کے علاوہ بھی تین اقسام ہیں اور وہ بھی آپ لوگوں کے سامنے
ہیں
لسانی چغد، سیاسی چغد، سماجی چغد
ایک اور قسم بھی ہے مگر میں اس کا یہاں نہیں لکھوں گا اس سے ایک خطرناک جنگ
چھڑسکتی ہے اور وہ جنگ صرف پیروکارلڑتے ہیں جن کے وہ معتقد ہوتے ہیں لہٰذا
سمجھنے والے سمجھ جائیں گے لکھنا ضروری نہیں۔
لسانی چغد
وہ ہوتے ہیں جو بنا کچھ سوچے بنا سمجھےاپنی ڈگرپرقائم رہتے ہیں ان کے نذدیک
وہ ہی سب سے اہم ہوتے ہیں حالانکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ماحول،وقت
اورحالات تبدیل ہوچکے ہیں مگران کی رٹ ایک ہی ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک ان کی
زبان سب سے اہم ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان ہماری پہچان ہوتی ہے
مگر محض زبان کے بل پر آپ کسی کوکمتربابرتر ثابت نہیں کرسکتے۔
سیاسی چغد
وہ ہوتے ہیں جو اپنا سب کچھ اپنے لیڈروں پر نچھاور کردیتے ہیں۔لیڈر جلسوں
میں میٹنگزمیں عوامی اجتماعات میں چیخ چیخ کر کہ رہے ہوتے ہیں ہم آپ کے
خادم، ہم آپ کے نوکرہم آپ کے چاکر ہیں، اور مزے کی بات اختتم جلسہ پر
مالک،آقا،زمین سے اٹھتے ہیں تشریف جھاڑتے ہیں اپنی جوتیاں پہنتے ہیں اور
کھڑتے ہوجاتے ہیں جبکہ خادم،نوکر،چاکر،اپنی چمچماتی گاڑیوں میں بیٹھ کے
اگلے علاقے میں جلسے کیلئے چلے جاتے ہیں ان کے جانے کے بعد بھی ان کے مالک
ان کے حق میں نعرے بازی کرتے رہتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ جب یہ منتخب
ہوجائیں گے تو کوئی مائی کالال ان سے مل کےدکھائے۔
سماجی چغد
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے تیئں معاشرے کی اصلاح کابیڑہ اٹھائے ہوئے ہوتے
ہیں، انہوں نے اپنے حلقے بنارکھے ہوتے ہیں اور گاہے بگاہے عوام کو ان کے
مسائل کے حل کیلئے ٹوٹکے بتاتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پے آجکل مرغی کا گوشت
550 کے بجائے670چل رہاہےایسے لوگ اپنے واٹس ایپ گروپس میں علاقائی یا
صوبائی حکومتی نوٹیفیکیشن بھیجتے رہتے ہیں کہ اگرکوئی قصاب مہنگے داموں
گوشت فروخت کرے تواس کی دکان پر ہی کھڑے ہوکر دئے گئے نمبر پر شکائت درج
کرائیں،ابے عقل کے اندھو عوام کو جو شعوردے رہے ہو یہی شعورسرکاری مشینری
کو دو کہ جو دکاندار،مہنگی چیزبیچے یا کوئی آڑھتی ذخیرہ اندوزی کرے بجائے
اسے گرفتار اور جرمانہ عائد کرنے کے اسی کی دکان کے سامنےاسی کا سامان قیمت
خرید پر ہی موقع پر فروخت کردیا جائے،میں دعوے سے کہتا ہوں آدھے آڑھتی اسی
صدمے کو دل پر لیتے ہوئے راہی ملک عدم نا ہوئےتو بسترعلالت پر ضرورآجائیں
گے۔ اور نہ پھر ذخیرہ اندوزی ہوگی نا مہنگا گوشت بکے گا، مگرچغد کواس کا
کیا علم کیونکہ وہ چغد ہے۔
اب رہی بات چوتھی قسم کے چغدوں کی تو آپ اکثر ٹیلی وژن پر ایسے لوگوں کے
کارنامے دیکھ سکتے ہیں کہ دم کرانے بیگم کو بھیجا لیکن وہاں دم کے چکر میں
ایک دم ہوگیا۔ اس لیئے اس قسم کازکر خیر کرنے کا مطلب لوگوں کو اپنے خلاف
کرنا ہے لہٰذا مٹی پاؤ۔
|