حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا

ام المؤمنین حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللّٰہ (عربی: ميمونه بنت الحارث‎) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج میں سے ایک تھیں۔۔
ام المؤمنین حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللّٰہ 594ء میں پیدا ہوئیں۔
آپ رضی اللّٰہ کے والد کا نام حارث بن حزن تھا۔ میمونہ کا اصل نام "برہ" تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کا نام میمونہ رکھ دیا۔
ان کی ایک بہن ام امؤمنین زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہا ہلالیہ ہیں اور ان کی دیگر چار بہنیں اسماء بنت عمیس (زوجہ صحابیٔ رسول اور پہلے خلیفہ راشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ )،
سلمیٰ بنت عمیس (زوجہ صحابیٔ رسول اور دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ )،
لبابہ اور عزہ تھیں۔ ان سب کی والدہ ہند بنت عوف تھیں اسی لئے انہیں عرب میں عظیم ترین دامادوں کی ساس کہا جاتا ہے۔
ام المؤمنین حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللّٰہ کی پہلی شادی مسعود بن عمرو سے ہوئی، ان سے علیحدگی کے بعد ابورہم بن عبد العزی کے نکاح میں آئیں۔ ابورہم 7ھ ( 628ء ) میں وفات پا گئے اور اسی سال آپ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نکاح میں آئیں۔ نکاح کے وقت آپ کی عمر 36 برس اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک 60 برس تھی۔
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا نام برہ تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح میں آنے کے بعد آپ کا نام میمونہ رکھا جس کا معنی برکت دہندہ ہے ، آپ قبیلہ قیس بن عیلان سے تھیں۔
سلسلۂ نسب یہ ہے:
میمونہ بنت حارث بن حزن بن بحیر بن ہزم بن رویبہ بن عبداللہ بن ہلال بن عامر بن صعصعہ بن معاویہ بن ہوازن بن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس بن عیلان ۔ والدہ کا نام ہند بنت عوف بن زہیر بن حارث بن حماطہ بن جرش تھا۔
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح مسعود بن عمرو بن عمیر ثقفی سے ہوا، انہوں نے کسی وجہ سے طلاق دے دی،
پھر ابو رہم بن عبدالعزی کے نکاح میں آئیں۔ 7 ھ میں انہوں نے وفات پائی اور حضرت میمونہ بیوہ ہوگئیں، اسی سال حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاء کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے، تو حضور صلی الہ علیہ وسلم کے عم محترم حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرلینے کی تحریک دی،
حضور صلی اللہ علیہ وسلم رضامند ہوگئے۔ چنانچہ احرام کی حالت میں ہی شوال 7ھ میں 500 درہم مہر پر حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا۔ عمرہ سے فارغ ہوکر مکہ سے دس میل کے فاصلہ پر بمقام ‘‘سرف’’ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ ، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کو ساتھ لے کر اسی جگہ آگئے اور یہیں رسم عروسی ادا ہوئی، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری زوجۂ مطہرہ تھیں، ان سے نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اور نکاح نہیں فرمایا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نہایت خدا ترس اور متقی تھیں، ہم سب میں زیادہ خدا سے ڈرنے والی اور صلہ رحمی کا خیال رکھنے والی تھیں۔
مدینہ طیبہ میں ایک دفعہ ایک خاتون سخت بیمار ہوگئی، اس نے منت مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دی تو بیت المقدس جاکر نماز ادا کروں گی، اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کرلی، منت پوری کرنے کے لئے بیت المقدس جانے کا ارادہ کیا، سفر پر روانہ ہونے سے قبل حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے رخصت ہونے آئی اور تمام ماجرا بیان کیا، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے اسے سمجھایا کہ مسجد نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام میں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مساجد میں نماز پڑھنے سے ہزار گنا زیادہ ہے۔
بیت المقدس جانے کے بجائے مسجد نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام میں نماز پڑھ لو منت بھی پوری ہوجائے گی اور ثواب بھی زیادہ ملے گا۔ آپ رضی اللّٰہ کے اس مبارک مشورے سے سفر کی تکالیف سے بچ گئیں اور مسجد نبوی کی اہمیت سے بھی واقف ہوگئیں۔
ایک دن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جو آپ کے بھانجے تھے، اس حال میں آئے کہ بال پراگندہ اور بکھرے ہوئے تھے‘ آپ نے فرمایا: یہ حالت کیوں ہے؟ تو بولے میری بیوی ایام میں ہے، کیونکہ وہ ہی مجھے کنگھا کرتی تھی تو حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کبھی ہاتھ بھی ناپاک ہوتے ہیں اور فرمایا: کہ ہم اس حالت میں ہوتی تھیں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری گود میں سر رکھ کر لیٹتے تھے اور قرآن کریم تلاوت فرماتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو نہایت بلیغ انداز میں سمجھایا کہ عورتیں اس حالت میں حسی طور پر ناپاک نہیں ہوتیں بلکہ یہ ناپاکی حکمی ہوا کرتی ہے۔
شریعت کی خلاف ورزی پر جلال کا اظہار فرماتیں اور برائی سے بر وقت منع فرماتیں، چنانچہ ایک دفعہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا ایک قریبی رشتہ دار اس حالت میں حاضر ہوا کہ اس کے منہ سے شراب کی بو آرہی تھی، وہ سخت غضبناک ہوئیں اور اسے جھڑک کر کہا کہ آئندہ کبھی میرے گھر میں قدم نہ رکھنا۔
راہ خدا میں انہوں نے لونڈی کو آزاد کردیا، اس کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو فرمایا: خدا تم کو جزائے خیر دے۔
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بہت ہی مخیر اور فیاض تھیں، وقتاً فوقتاً قرض لینے کی نوبت آجاتی تھی۔ ایک دفعہ بہت زیادہ رقم قرض لے لیں، کسی نے پوچھا: ام المومنین! اتنی زیادہ رقم کی ادائیگی کی کیا صورت ہوگی؟ فرمایا: میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص قرض ادا کرنے کی نیت سے قرض لیتا ہے، اللہ تعالیٰ خود اس کے قرض کی ادائیگی کے اسباب مہیا کردیتا ہے۔
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے 51 ھ میں "سرف" کے مقام پر وصال فرمایا اور اسی چھپر میں آپ کی آرام گاہ ہے جہاں آپ کی رسم عروسی ادا ہوئی تھی۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے نماز جنازہ پڑھائی۔ محدث عطاء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب جنازہ اٹھایا گیا تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
جنازہ کو زیادہ حرکت نہ دو، یہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیقۂ حیات ہیں۔ چنانچہ عبداللہ بن عباس، یزید بن اصم، عبداللہ بن شداد اور عبداللہ خولانی رضی اللہ عنہم نے قبر شریف میں اتارا۔ (زرقانی، جلد 3)
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے 76 حدیثیں مروی ہیں،
ان میں سے 7 متفق علیہ ،
ایک صحیح بخاری میں اور ایک صحیح مسلم میں ہے، بعض کا کہنا ہے کہ 5 احادیث صحیح مسلم میں منفرد ہیں۔ ان کے راویوں میں حضرت عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن شداد ، عبدالرحمن بن سائب رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ ازواج مطہرت کے علاوہ دو بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں شامل ہوئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چار کنیزیں تھیں، جن میں سے دو مشہور ہیں۔
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا سے جن بزرگوں نے روایت کی ہے انکے نام یہ ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بن شداد بن الہاد، عبدالرحمن بن السائب، یزید بن اصم(یہ سب انکے بھانجے تھے) ابراہیم بن عبداللہ بن معبد بن عباس، کریب(ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے غلام) عبیدہ بن ساق، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، عالیہ بنت سبیع،
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں۔
"میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا خدا سے بہت ڈرتی اور صلہ رحمی کرتی تھیں۔"
احکام نبوی کی تعمیل میں ہر وقت پیش نظر رہتی تھیں، ایک دفعہ انکی کنیز بدیہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر گئی تو دیکھا کہ میاں بیوی کے بچھونے دور دور بچھے ہیں، خیال ہوا کہ شائد کچھ رنجش ہو گئی ہے لیکن دریافت سے معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ (بیوی کے ایام کے زمانہ میں) اپنا بستر ان سے الگ کر لیتے ہیں۔ آکر حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بیان کیا تو بولیں، ان سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ ولیہ وسلم کے طریقہ سے اس قدر کیوں اعراض ہے؟
آپ برابر ہم لوگوں کے بچھونوں پر آرام فرماتے تھے،
ایک عورت بیمار پڑی تو اس نے منت مانی کہ شفا ہونے پر بیت المقدس جا کر نماز پڑھے گی، خدا کی شان وہ اچھی ہو گئی اور سفر کی تیاریاں شروع کیں، جب رخصت ہونے کے لیے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس آئی، تو بولیں تم یہیں رہو، اور مسجد نبوی میں نماز پڑھ لو کیونکہ یہاں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں کے ثواب سے ہزار گنا زیادہ ہے۔
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کو غلام آزاد کرنے کا شوق تھا، ایک لونڈی کو آزاد کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تمکو اسکا اجر دے۔
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کبھی کبھی قرض لیتی تھیں، ایک بار زیادہ رقم قرض لی تو کسی نے کہا کہ آپ اسکو کسطرح ادا کرینگی؟ فرمایا"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص ادا کرنے کی نیت رکھتا ہے خدا خود اسکا قرض ادا کر دیتا ہے۔"
وہ 674ء میں خلافت امویہ کے پہلے خلیفہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی کے دور میں 80 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ آپ رضی اللہ کا مقام سرف میں نکاح ہواتھا اور اسی جگہ میں وفات بھی ہوئی
حضرت ابن عباس نے نماز جنازہ پڑھائی اور قبر میں بھی انھوں نے اتارا صحاح میں ہے کہ جب ان کاجنازہ اٹھایاگیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی نے کہایہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیںجنا زہ کو زیادہ حرکت نہ دوباادب آہستہ چلو
سال وفات میں اگرچہ اختلاف ہے ۔لیکن صحیح یہ ہے کہ آپ رضی اللّٰہ نےسنہ ھ۵۱ میں وفات فرمائی۔
(صحیح بخاری ج۲ص۷۵۸)

حوالہ جات

↑ (زرقانی ص288ج3)
↑ (بخاری ص611ج2)
↑ (نسائی ص513)
↑ (تہذیب 453ج12)
↑ (ابن سعد ص89ج2ق1)
↑ (ذیل المذیل طبری ج13ص2453)
↑ (صحیح بخاری ج2ص611، مسند ابن حنبل ج6ص333)
↑ (صحیح بخاری ج2ص758)
↑ (اصابہ ج8ص192بحوالہ ابن سعد)
↑ (مسندج6ص332)
↑ (ایضاً ص333)
↑ (ایضاً332)

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 900 Articles with 631834 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More