حضرت ام سلمہ (ہند) بنت ابی امیہ رضی اللہ تعالی

نام و نسب کے اعتبار سے تاریخی اوراق بتاتے ہیں کہ تعلق بنو مخزوم سے تھا ،
ام سلمہ بنت ابی اميہ حذيفہ بن مغیرہ بن عبد الله بن عمر بن مخزوم
آپ رضی اللّٰہ کا لقب ام المومنین اور
کنیت ام سلمہ،
تاريخ کے اوراق میں ولات نحو 29 قبل ہجرت / 580ء میں ہوئی ،اور مقام ولادت مكہ مکرمہ ہے ،
آپ رضی اللّٰہ کی تاريخ وفات 61 ہجری / 680ء مقام وفات المدينة المنورہ اور مقام دفن جنت البقیع ہے ،
آپ شریک حیات تھی
حضرت ابو سلمہ رضی اللّٰہ بن عبد الاسد اور ان کے بعد
سرور کائنات محمد بن عبد الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
تاريخ قبول اسلام السابقين میں سے (ہاجرت الہجرتين)۔
آپ رضی اللّٰہ سے تقریباً 158 احادیث کی روایت ہیں ،

ام المومنین ہند بنت ابی امیہ رضی اللہ عنہا آپ رضی اللّٰہ ام سلمہ ان کی کنیت ہے اور اسی سے مشہور ہیں، آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ تھیں۔
ماں کا نام عاتکہ بنت عامر تھا اور وہ خاندان فراس سے تھیں۔حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے والد ابو امیّہ ایک دولت مند اور فیاض آدمی تھے۔ان کی سخاوت اور دریا دلی کی شہرت ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اگر کبھی سفر کرتے تو اپنے تمام ہمراہیوں کی خوراک اور دوسری ضروریات کی کفالت ان ہی کے ذمے ہوتی۔
ان فیاضیوں کی بدولت لوگوں نے انہیں ’’زاد الراکب‘‘ کا لقب دے رکھا تھا اور وہ تمام قبائل قریش میں نہایت عزّت و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔
حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح ان کے چچازاد ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بن عبدالاسد سے ہوا۔وہ نہایت سلیم الطّبع نوجوان تھے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ حق کا آغاز فرمایا تو ناممکن تھا کہ ان کی پاکباز طبیعت اس سے متاثر نہ ہوتی۔
انہوں نے اپنے قبیلے کی مخالفت اور دوسرے مصائب کے علی الغم فی الفور اسلام قبول کرلیا۔
حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا بھی اسی زمانے میں اسلام کی دولت سے بہرہ یاب ہو گئیں۔ اس طرح یہ دونوں میاں بیوی ان عظیم پاک فطرت انسانوں میں شامل ہوگئے جنہیں سابقون الاوّلون بننے کا شرف حاصل ہوا۔ ان سعید روحوں نے اسلام کی خاطر بڑی مصیبتیں اٹھائیں لیکن جادہ حق سے ان کے قدم ذرّہ برابر بھی نہیں ڈگمگائے۔
جوں جوں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جاتی تھی کفار بھی اپنی ایذا رسانیوں میں اضافہ کرتے جاتے تھے۔ جب ان کا ظلم حد سے گزر گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو اجازت دے دی کہ جو شخص اپنے دین اور جان کے بچاؤ کیلئے ہجرت کرنا چاہے وہ حبشہ چلا جائے جہاں ایک نیک دل عیسائی بادشاہ کی حکومت ہے۔ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا اور ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اس وقت اسلام قبول کر چکے تھے چنانچہ ( بعض روایتوں کے مطابق) وہ بھی دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ عازم حبش ہوئے۔ کچھ دن وہاں گزارنے کے بعد واپس آگئے اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کا قصد کیا۔ اس وقت حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس صرف ایک اونٹ تھا۔ اس پر انہوں نے حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا اور اپنے ننھے بچے سلمہ کو سوار کرایا اور خود اونٹ کی نکیل پکڑ کر پا پیادہ ہی چل پڑے۔ ابھی چند قدم ہی چلے ہونگے کہ امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے خاندان کے لوگوں یعنی بنو مغیرہ کو پتہ چل گیا۔ انہوں نے اونٹ کو گھیر لیا اور ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے کہا تم جا سکتے ہو لیکن ہماری لڑکی تمہارے ساتھ نہیں جا سکتی۔ یہ کہہ کر انہوں نے اونٹ کی نکیل ابو سلمہ کے ہاتھ سے چھین لی اور امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کو زبردستی اپنے ساتھ لے چلے۔ اتنے میں ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے خاندان کے لوگ بنو عبدالاسد آ پہنچے۔
انہوں نے امّ سلمہ کے بچے سلمہ پر قبضہ کر لیا اور بنو مغیرہ سے کہا کہ اگر تم اپنی لڑکی کو ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہیں جانے دیتے تو ہم اپنے قبیلے کے بچے کو تمہارے پاس نہیں چھوڑیں گے اور ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے کہا ’’ تو اکیلا جہاں جی چاہے جا سکتا ہے۔‘‘ اس وقت صحابہ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا اذن مل چکا تھا، حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بیوی بچے کے بغیر ہی مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ امّ سلمہ رضی اللہ عنہا بنو مغیرہ کے پاس اور ان کا بچہ بنو عبدالاسد کے پاس تھے، گویا دین حق کی خاطر تینوں باپ، بیٹا اور بیوی جدائی کی مصیبتیں برداشت کر رہے تھے۔
حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کو شوہر اور بچے کی جدائی کا فطری طور پر بہت صدمہ تھا۔ وہ روزانہ صبح کے وقت گھر سے نکلتیں اور سارا دن ایک ٹیلے پر بیٹھ کر گریہ وزاری کرتی رہتیں، پورا ایک سال ایسے ہی گزر گیا۔
ایک دن بنو مغیرہ کے ایک صاحب اثر اور رحم دل آدمی نے انہیں اس حال میں دیکھا تو اس کا دل پسیج گیا۔ اس نے اپنے قبیلے کو اکٹھا کیا اور کہا: ’’ یہ لڑکی ہمارا خون ہے ہم کب تک اس بیکس کو اپنے شوہر اور بچے سے جدا رکھیں گے۔اے بنو مغیرہ بخدا ہمارا قبیلہ بڑا شریف اور شجاع ہے جو ظلم کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ اس نیک آدمی کی تقریر سن کر دوسرے لوگوں کو بھی رحم آگیا۔ انہوں نے امّسلمہ کو اجازت دے دی کہ وہ مدینے جا سکتی ہیں، جب بنو الاسد نے یہ واقعہ سنا تو انہیں بھی ترس آگیا اور انہوں نے سلمہ کو اپنی ماں کے پاس بھیج دیا۔
اب حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے بچے کو گود میں لیا اور اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ روانہ ہوئیں۔ راستے میں تنعیم کے مقام پر انہیں ایک شریف النّفس آدمی عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ ملے۔
انہوں نے جب حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کو تنہا بچے کے ہمراہ سفر کرتے دیکھا تو دل میں آیا ’’ اے عثمان یہ مردانگی سے بعید ہے کہ قریش کی یہ عورت تنہا سفر کرے اور تو اس کی مدد نہ کرے۔‘‘ انہوں نے امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کی نکیل پکڑی اور کشاں کشاں مدینہ کی جانب چل پڑے۔ جب کہیں پڑاؤ ہوتا تو وہ کسی درخت کی اوٹ میں ہو جاتے اور چلتے وقت اونٹ تیار کرکے لے آتے۔
غرض یونہی چلتے چلاتے وہ قبا پہنچے۔ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ یہیں مقیم تھے، عثمان بن طلحہ یہاں سے مکے واپس چلے گئے اور امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی ملاقات اپنے بچھڑے ہوئے شوہر سے ہوئی۔ وہ اپنی نیک سیرت بیوی اور بچہ کو پا کر اللہ کا شکر بجا لائے۔
حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے عثمان بن طلحہ کی نیکی کو ہمیشہ یاد رکھا۔ ان کا قول تھا:
’’ میں نے عثمان بن طلحہ سے زیادہ ساتھ دینے والا شریف آدمی کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
ہند کے والد ابو امیہ سہیل بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم تھے اور والدہ کا نام عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ جو بنو فراس سے تھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی زاد تھیں۔
وہ قریش کے خاندان بنو مخزوم سے تھیں۔ والد ابو امیہ مخزومی، مکے کے دولت مند لوگوں میں سے تھے۔جو بڑے مخیر اور فیاض تھے سفر میں جاتے تو تمام قافلہ والوں کی کفالت خود کرتے اسی لئے آپ کا لقب زاد الراکب مشہور تھا۔
آپ کا نکاح 13 سال کی عمر میں ابوسلمہ عبداللہ بن عبدالاسد مخزومی سے ہوا جو ابو سلمہ کے نام سے مشہور ہیں .
جو آپ کے پھوپھی زاد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے۔ اوائل اسلام ہی میں اپنے شوہر کے ساتھ ایمان لائیں اور ہجرت حبشہ میں ان کا ساتھ دیا۔ یہیں آپ کے پہلوٹی کے بیٹے سلمہ پیدا ہوئے ۔ کچھ عرصے بعد شوہر کے ہمراہ واپس آگئیں ۔ جب مدینے کی طرف ہجرت کا حکم ہوا تو خاندان والوں نے آپ کو شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت نہ دی اور گودی کا بچہ بھی چھین لیا۔ لیکن پھر ترس کھا کر بچہ دے دیا اور مدینے بھی جانے دیا۔ آپ پہلی مہاجر خاتون تھیں۔ ابوسلمہ غزوہ احد میں شہید ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ اور حضرت عمر رضی اللّٰہ نے باری باری آپ سے نکاح کی درخواست کی مگر آپ نے انکار کردیا۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پیغام بھیجا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ آپ کا نکاح 3ھ ( 624ء ) میں ہوا۔سنہ ۳ ہجری میں حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ جنگ اُحد میں شریک ہوئے اور نہایت پامردی سے داد شجاعت دی۔ ان کا ایک بازو ایک زہریلے تیر سے زخمی ہو گیا۔ علاج سے وقتی طور پر صحتیاب ہو گئے لیکن چند ماہ بعد یہ زخم پھر ہرا ہو گیا اور اسی تکلیف سے واصل بحق ہو گئے۔
حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کو ان کی وفات سے سخت صدمہ پہنچا۔ بار بار پکارتی تھیں ’’ ہائے ہائے غربت میں کیسی موت آئی ہے۔‘‘
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر ملی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے گھر تشریف لے گئے اور امّ سلمہ کو صبر کی تلقین فرمائی اور فرمایا: ’’ ابو سلمہ کی مغفرت کی دعا مانگو۔
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں وفات کے وقت کھلی رہ گئی تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے خود انکی آنکھیں بند کیں۔ ان کی نماز جنازہ پڑھتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نو تکبیریں کہیں، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ نے نو تکبیریں کیسے کہیں؟ فرمایا: ابو سلمہ ہزار تکبیروں کے مستحق تھے۔
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بڑے عظیم المرتبت صحابی تھے۔ ان کی زندگی میں ایک بار امّ سلمہ نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سےکہا ’’ میں نے سنا ہے کہ اگر کسی عورت کا شوہر اسکی زندگی میں فوت ہو جائے اور وہ عورت اسکے بعد دوسرا نکاح نے کرے تو اللہ اسے بھی جنت میں داخل کرتا ہے۔ اسی طرح کسی مرد کی زندگی میں اسکی بیوی فوت ہو جائے اور وہ مرد دوسرا نکاح نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس مرد کو بھی فردوس بریں میں جگہ دیتا ہے۔
آؤ ہم عہد کریں کہ ہم میں سے جو پہلے مرے دوسرا اسکے بعد مجرّد زندگی گزارے۔‘‘حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ کیا تم میرا کہا مانو گی؟‘‘
حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ’’ کیوں نہیں، اس سے بڑھ کر میرے لئے کیا سعادت ہو سکتی ہے۔‘‘
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ تو سنو! اگر میں پہلے مر جاؤں تو تم میرے بعد نکاح ضرور کرلینا۔‘‘
پھر ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے دعا مانگی: ’’ اے مولائے کریم اگر میں امّ سلمہ کی زندگی میں مر جاؤں تو تو اسے مجھ سے بہتر جانشین دے۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر تعزیت کیلئے حضرت امّ سلمہ کے ہاں تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت امّ سلمہ کو تلقین کی کہ اے امّ سلمہ! ابو سلمہ کے حق میں دعائے خیر مانگو اور اللہ سے التجا کرو کہ وہ تمہیں ابو سلمہ سے بہتر جانشین دے۔‘‘
حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا سوچا کرتیں کہ ابو سلمہ سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے تا آنکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آگئیں۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے کچھ عرصے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی کسمپرسی کے خیال سے انہیں نکاح کا پیغام بھئجا لیکن انہوں نے انکار کردیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت امّ سلمہ کی کسمپرسی اور بے مایگی سے بہت متاثر تھے اور ابو سلمہ نے راہ حق میں جو مصیبتیں اٹھائی تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا بے حد احساس تھا۔
چانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی معرفت امّ سلمہ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے قبول کر لیا اور شوال سنہ ۴ ہجری میں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آگئیں۔
نکاح کے بعد وہ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں لائی گئیں جو وفات پا چکی تھیں۔ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے پہلے ہی دن اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کو خرمے کی چھال سے بھرا ہوا ایک چرمی تکیہ، دو مشکیزے اور دو چکیاں عطا فرمائیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے بعد بھی انہوں نے اپنے پہلے شوہر کی اولاد کی پرورش نہایت شفقت اور توجہ سے کی۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:’’ یا رسول اللہ! کیا مجھے ان بچوں کی پرورش کا اجر ملے گا؟‘‘ فرمایا: ’’ ہاں! ملے گا۔‘‘
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے غلام تھے، انہوں نے سفینہ کو اس شرط پر آزاد کر دیا کہ وہ زندگی بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کریں گے۔
آپ رضی اللّٰہ کے پہلے شوہر ابو سلمہ عبداللہ سے آپ رضی اللّٰہ کے چار بچے پیدا ہوئے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللّٰہ نہایت عقلمند اور مدبر خاتون تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کا بہت احترام کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللّٰہ کے بعد سب سے زیادہ احادیث آپ سے مروی ہیں۔ طبری ، مسعودی ، اور واقدی کی تحقیق ہے کہ آپ رضی اللّٰہ کا انتقال 59ھ میں ہوا۔ حضرت ابوہریرہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بقیع میں دفن ہوئیں۔ لیکن مصر کے قبرستان باب الصغیر میں ایک مزار ، جس کے دروازے پر ام سلمہ کا کتبہ لگا ہے۔ یہ مزار ترکی خلیفہ سلطان عبدالحمید نے 1327ء میں بنوایا تھا۔
بعض مورخین کا کہنا ہے کہ آپ رضی اللّٰہ نے 61ھ ( 681ء ) میں انتقال فرمایا۔


^ 1.0 1.1 1.2 سیر الصحابہ ،سعید انصاری،جلد6، صفحہ 55، دارالاشاعت کراچی

مسند احمد میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا، یا رسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمارا قرآن میں ذکر نہیں؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بات سن کر منبر پر تشریف لے گئے اور یہ آیت پڑھی:

اِنَّ الْمُسْلِمِیِنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤمِنِیْنَ وَالمُؤمِنَاتِ

علامہ ابن سعد کا بیان ہے کہ سنہ ۱۱ ہجری میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم علیل ہو گئے تو حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا آپ کی خبر گیری کیلئے اکثر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں جاتی تھیں۔
ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت علیل دیکھا تو انکی چیخ نکل گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ مصیبت میں چیخنا مسلمانوں کیلئے مناسب نہیں۔
حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی نہایت زاہدانہ تھی، عبادت الٰہی سے بڑا شغف تھا۔ ہر مہینے میں تین روزے بالالتزام رکھتی تھیں۔( رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ) اوامرونواہی کی بھی بیحد پابند تھیں۔
ایک مرتبہ ایک ہار پہن لیا جس میں کچھ سونا بھی شامل تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ناپسند فرمایا تو اس کو اتار ڈالا (یا توڑ دیا)۔
مسند احمد بن حنبل میں روایت ہے کہ سنہ ۶۱ ہجری میں جس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے عظیم المرتبت رفقاء کے ساتھ دشت کربلا میں جام شہادت نوش کیا،
حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے خواب میں دیکھا کہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں، سر اور ریش مبارک غبار آلود ہیں اور بہت غمزدہ ہیں۔ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: ’’ یا رسول اللہ! کیا حال ہے؟‘‘
فرمایا: ’’ حسین کے مقتل سے آ رہا ہوں۔‘‘
حضرت امّ سلمہ کی آنکھ کھل گئی، بے اختیار رونے لگیں اور بلند آواز سے فرمایا، عراقیوں نے حسین کو قتل کیا خدا انہیں قتل کرے، انہوں نے حسین سے دغا کی، خدا ان پر لعنت کرے۔‘‘ (مسند احمد ج۶ ص۹۸)۔
حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے والدین کی مانند بیحد سخی تھیں۔ دوسروں کو بھی سخاوت کی ترغیب دیا کرتی تھیں۔ ناممکن تھا کہ کوئی سائل ان کے گھر سے خالی ہاتھ چلا جائے۔ زیادہ نہ ہوتا تو تھوڑا یا جو کچھ بھی ہوتا سائل کو دے ڈالتیں۔
ایک مرتبہ چند مساکین جن میں عورتیں بھی تھیں ان کے گھر آئے اور بڑی لجاجت سے سوال کیا۔ امّ الحسن رضی اللہ عنہا ان کے پاس بیٹھی تھیں ، انہوں نے ان کو سخت سست کہا۔ حضرت امّ سلمہ نے ان کو روکا اور فرمایا ہم کو اس کا حکم نہیں۔ پھر لونڈی کو حکم دیا کہ ان کو خالی ہاتھ نہ جانے دو اور کچھ نہ ہو تو ایک ایک چھوارا ہی ان کے ہاتھ پر رکھ دو۔
حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے ۳۷۸ احادیث مروی ہیں۔
فضل و کمال میں حضرت عائشہ کے بعد ان ہی کا درجہ مانا جاتا ہے۔ قرآن کی تلاوت نہایت عمدہ طریقے سے کرتی تھیں اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت سے مشابہت رکھتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خوبروئی، علم، ذہانت، اور اصابت رائے کی نعمتوں سے کافی حصہ دیا تھا۔
علامہ ابن قیّم کا بیان ہے کہ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے فتاویٰ سے ایک چھوٹا سا رسالہ تیار ہو سکتا ہے۔ ان کے فتاویٰ بالعموم متفق علیہ ہیں۔
حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے سنہ ۶۳ ہجری میں ۸۴ برس کی عمر میں وفات پائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ چار بچے (دو لڑکے اور دو لڑکیاں) ابو سلمہ رضی اللہ عنہا سے تھے۔ ان کے نام یہ ہیں۔
(۱) سلمہ رضی اللہ عنہ حبشہ میں پیدا ہوئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی دختر امامہ رضی اللہ کا نکاح انہی سے کیا تھا۔
(۲) عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بحرین اور فارس کے عامل تھے۔
(۴۔۳) زینب اور درّہ (بروایت دیگر رقیہ) رضی اللہ عنہما صاحبزادیاں تھیں۔
محاصرہ بنو قریظہ سن پانچ ہجری میں یہود سے گفتگو کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابولبابہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا تھا، اثنائے مشورہ میں ابولبابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ہاتھ کے اشارے سے بتلایا کہ تم لوگ قتل ہو جاؤ گے، لیکن بعد میں اسکو افشائے راز سمجھ کر اس قدر نادم ہوئےکہ مسجد کے ستون سے اپنے آپکو باندھ لیا، چند دنوں تک یہی حالت رہی پھر توبہ قبول ہوئی،
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان میں تشریف فرما تھے کہ صبح کو مسکراتے ہوئے اٹھے تو بولیں"خدا آپکو ہمیشہ ہنسائے، اس وقت ہنسنے کا کیا سبب ہے؟"فرمایا"ابولبابہ رضی اللہ تعالی عنہ کی توبہ قبول ہو گئی" عرض کی "تو کیا میں انکو یہ مژدہ سنا دوں"فرمایا"ہاں اگر چاہو"حضرت ام سلمہ اپنے حجرہ کے دروازہ پر کھڑی ہوئیں اور پکار کر کہا"ابولبابہ مبارک ہو تمھاری توبہ قبول ہو گئی،" اس آواز کا کانوں میں پڑنا تھا کہ تمام مدینہ امنڈ آیا۔
اسی سن میں آیت حجاب نازل ہوئی اس سے پیشتر ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی بعض دور کے اعزہ و اقارب کے سامنے آیا کرتی تھیں، اب خاص خاص اعزہ کے سوا سب سے پردہ کرنے کا حکم ہوا۔
حضرت ابن ام مکتوم قبیلہ قریش کے ایک معزز صحابی اور بارگاہ نبوی کے مؤذن تھے اور چونکہ نابینا تھے، اس لیے ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کے حجروں میں آیا کرتے تھے، ایکدن آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہما سے فرمایا،"ان سے فرمایا،"ان سے پردہ کرو"بولیں"وہ تو نابینا ہیں" فرمایا"تم تو نابینا نہیں ہو، تم تو انہیں دیکھتی ہو"
صلح حدیبیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں، صلح کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لوگ حدیبیہ میں قربانی کریں، لیکن لوگ اس قدر دل شکستہ تھے کہ ایک شخص بھی نہ اٹھا یہاں تک کہ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے، تین دفعہ بار بار کہنے پر بھی ایک شخص بھی آمادہ نہ ہوا، (چونکہ معاہدہ کی تمام شرطیں بظاہر مسلمانوں کے سخت خلاف تھیں اس لیے تمام لوگ رنجیدہ اور غصہ سے بیتاب تھے)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے شکایت کی، انہوں نے عرض کی"آپ کسی سے کچھ نہ فرمائیں بلکہ باہر نکل کر خود قربانی کریں اور احرام اتارنے کے لیے بال منڈوائیں"آپ نے باہر آکر قربانی کی اور بال منڈوائے اب جب لوگوں کو یقین ہو گیا کہ اس فیصلہ میں تبدیلی نہیں ہو سکتی تو سب نے قربانیاں کیں اور احرام اتارا، ہجوم کا یہ حال تھا کہ ایکدوسرے پر ٹوٹا پڑتا تھا اور عجلت اس قدر تھی کہ ہر شخص حجامت بنانے کی خدمت انجام دے رہا تھا،
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا یہ خیال علم النفس کے ایک بڑے مسئلہ کو حل کرتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہور کی فطرت شناسی میں انکو کس درجہ کمال حاصل تھا، امام الحرمین فرمایا کرتے تھے کہ صنف نازک کی پوری تاریخ اصابت رائے کی ایسی عظیم الشان مثال نہیں پیش کر سکتی۔
غزوہ خیبر میں شریک تھیں، مرحب کے دانتوں پر جب تلوار پڑی تو کرکراہٹ کی آواز انکے کانوں میں آئی تھی،
سن نو ہجری میں ایلاء کا واقعہ پیش آیا، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کو تنبیہہ کی تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس بھی آئے وہ انکی عزیز ہوتی تھیں، ان سے بھی گفتگو کی، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جواب دیا،
"عمررضی اللہ تعالی عنہ تم ہر معاملہ میں دخل دینے لگے یہاں تک کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انکی ازواج کے معاملات میں بھی دخل دیتے ہو۔"
چونکہ جواب نہایت خشک تھا، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ چپ ہو گئے اور اٹھ کر چلے آئے، رات کو یہ خبر مشہور ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کو طلاق دے دی صبح کو جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور تمام واقعہ بیان کیا جب حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا قول نقل کیا تو آپ مسکرائے،
حجة الوداع میں جو سن دس ہجری میں ہوا۔
اگرچہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا علیل تھیں، تاہم ساتھ آئیں، نبہا(غلام) اونٹ کی مہار تھامے تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب غلام کے پاس اس قدر مال موجود ہو کہ وہ اسکو ادا کر کے آزاد ہو سکتا ہو تو اس سے پردہ ضروری ہو جاتا ہے،
طواف کے متعلق فرمایا کہ جب نماز فجر ہو، تم اونٹ پر سوا ہو کر طواف کرو چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ایسا ہی کیا،
اللہ ہمیں آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ کی سیرت مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔آمین

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 900 Articles with 631836 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More