نامور ارتقائی ماہر نفسیات رابن ڈنبر کے مطابق ہنسی ان
سوالات کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے کہ ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔
زوردار قہقہ لگاتے ہوئے آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنے آپ پر کنٹرول کھو
چکے ہیں کیونکہ ایک طرح سے ایسا ہی ہوتا ہے۔
پروفیسر ڈنبر کے مطابق قہقہے کی ایک کمال کی خوبی یہ ہے کہ یہ نئے سماجی
بندھنوں کو مضبوط کرتا اور موجودہ تعلقات کو گہرا کرتا ہے۔
پروفیسر ڈنبر اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ ہمارے اور عظیم بندروں کے
درمیان ہنسنے کا یہ غیر ارادی جذبہ مشترکہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے
آبا و اجداد کے آپس میں بات کر سکنے کی صلاحیت سے پہلے یہ ایک سماجی تعلقات
کے رویے کے طور پر ابھرا تھا۔
پروفیسر ڈنبر کا خیال ہے قہقہ ارتقائی عمل سے ہم آہنگ ہوا۔ وہ بتاتے ہیں کہ
ہنسنا اینڈورفِن کو متحرک کرتا ہے جو کہ دیکھ بھال کے نتیجے میں ظاہر ہونے
والے ردعمل جیسا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانی قہقہے کا اس قدر غیر
معمولی طور پر بلند ہونا شاید اس سے بھی زیادہ اہم اشارہ رکھتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ جب ہمارے دماغ دھیرے دھیرے پیچیدہ ہوتے گئے تو وہ کہیں
زیادہ لطیف آوازیں نکالنے کے قابل ہو گئے اور یہی چیز آگے چل کی زبان کی
معاون بنی۔ لیکن زبان سے بہت پہلے ہمارے دماغوں نے ہمیں مصنوعی طور پر
سماجی بندھنوں کی تشکیل کا عمل تیز کرنے کے طریقے کے طور پر دوسروں کی ہنسی
میں شریک ہونے کی طرف دھکیلا اور اس کا براہ راست نتیجہ ایک نوع اور
انفرادی طور پر ہمارے زندہ رہنے کے امکانات میں بہتری کی صورت میں نکلا
پروفیسر ڈنبر بتاتے ہیں کہ ہنسی کی دو قسمیں ہیں۔ بے ارادہ چہرے پر پھوٹ
پڑنے والی نام نہاد ہنسی جس میں آنکھوں کے گرد جلد سکڑ جاتی ہے۔ مگر دوسری
قسم وہ شائستہ ہنسی ہے جو ہماری روزمرہ کی بات چیت میں حاوی نظر آتی ہے، جو
شعوری طور پر ہمارے اختیار میں ہوتی ہے اور اس کے بارے میں کم و بیش یقین
سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ زبان کے ساتھ ہی بہت بعد میں ابھرنا شروع ہوئی.
شائستہ ہنسی ایک ایسا معمول کا طرز عمل ہے جس کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا
ہے کہ ہم یہ کر رہے ہیں، ہماری تقریباً ہر گفتگو شائستہ ہنسی کے وقفوں سے
بھری ہوتی ہے جو بعض اوقات ہمارے صاف کہے گئے الفاظ کے مقابلے میں زیادہ
واضح مفہوم کا اظہار کرتی ہے۔ ہم یہ ظاہر کرنے کے لیے قہقہے لگاتے ہیں کہ
ہم ایک مذاق کو پہچانتے ہیں یا اتفاق یا حوصلہ افزائی ظاہر کرنے کے لیے
ہنستے ہیں۔ بعض اوقات ہم صرف یہ دکھا رہے ہوتے ہیں کہ ہم کسی کی مذاق کرنے
کی کوشش کو سراہتے ہیں۔ اگر آپ خاموشی سے اس قسم کی ہنسی کو شعوری طور پر
سنیں تو آپ کو لگے گا کہ یہ تو ہر جگہ موجود ہے۔ اتنی زیادہ کہ آپ اس کے
سماجی بندھن قائم رکھنے کی اہمیت کو صرف اس وقت سمجھتے ہیں جب یہ موجود نہ
ہو۔
یہی وجہ ہے کہ ایسی گفتگو جس میں ہنسی شامل نہ ہو وہ جاری رکھنا انتہائی
مشکل ہو جاتا ہے۔‘ یونیورسٹی آف میری لینڈ میں نیورو سائنٹسٹ اور
سائیکالوجی کے پروفیسر آنجہانی رابرٹ پرووائن سڑک کے کنارے ہونے والی
سیکڑوں گفتگوئیں ریکارڈ کیں اور اس سلسلے کو انہوں نے ’فٹ پاتھ نیورو
سائنس‘ کے طور پر بیان کیا۔ پرووائن اس نتیجے پر پہنچے کہ قہقہ بنیادی طور
پر ایک سماجی عمل ہے جس کا مقصد اپنی بات دوسروں تک پہنچانا ہے اور اکثر اس
کا مزاح سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
.9 فیصد وقت جب بھی قہقہ آیا وہ بات چیت کا بنیادی حصہ تھا اور بہت ہی کم
ہوا کہ وہ گفتگو پر اوور لیپ ہوا ہو۔ ہنسی کے یہ نام نہاد ’اوقاف کا اثر‘
ہماری تقریباً ہر عمومی گفتگو کا حصہ ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ایک
وجدانی شعور ہے کہ ہنسی ہماری روزمرہ کی بات چیت میں کہاں فٹ بیٹھتی ہے۔
“ہنسنا بنیادی طور پر ایک سماجی رویہ ہے اور شاید سب سے اہم سماجی ہنر جو
ہم سیکھتے ہیں۔“
زیادہ تر بالغ انسان ہنسی کی دونوں قسموں میں فرق کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
’جب ہم (حقیقی) ہنسی سنتے ہیں تو دماغ میں سماعت سے متعلق ایک مخصوص حصہ
واضح طور پر روشن ہوتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس جب بھی ہم (ابلاغ کرنے والی
شائستہ ہنسی) سنتے ہیں تو دماغ کا وہ حصہ جو سمجھنے یا کسی اور کی سوچ تک
پہنچنے میں مہارت رکھتا ہے وہ متحرک ہو جاتا ہے۔‘
تحقیق کے مطابق بےشک آپ دراصل خوشی محسوس نہ کر رہے ہوں لیکن مصنوعی طریقے
سے مسکرانے سے بھی آپ کا موڈ بہتر ہو سکتا ہے۔
اکثر شائستہ ہنسی اور مسکراہٹ درحقیقت ہمیں زیادہ خوشی فراہم کر سکتی ہے۔
|