برصغیر میں اسلامی و اخلاقی اقدار کی آبیاری میں خانقاہ برکاتیہ کا کردار

اسلام کی راہ واضح و روشن ہے۔ جب بھی جادہ حق سے انحراف ہوااور انسانیت کی رُسوائی ہوئی تو اللہ کریم نے کسی اولوالعزم پیغمبر کو مبعوث کیا۔ ہر نبی نے اسلام ہی کی دعوت دی، سب نے اسی دین کی تعلیمات کا احیا کیا۔آخر میں رحمةللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بھیج کر انسانیت کو کامل خوش خبری سنا دی گئی، آفاقی ہدایت عطا کر دی گئی، دین کی تکمیل ہو گئی، اب ہدایت کے لیے قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت موجود ہے۔ ہاں ! جب بھی دین حق کے چہرے کو غبار آلود بنانے کی کوشش ہو گی، نائبین مصطفی امت کے علما و صوفیا اور صلحا اسی ضابطہ حیات کی تعلیم دیں گے جو قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عطا کیے۔

صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کے بعد علماو اولیائے امت نے ”شر“ کے مقابل ”خیر“ کی تعلیم دی۔ اسلام کے اشاعتی گلستاں میں انھیں کے اخلاق و کردار کی خوش بو زیادہ رچی بسی ہے۔ پورا براعظم افریقہ، ایشیا،اور اماکن یورپ صوفیا و اولیا کے اشاعتی کارواں کی سعی پیہم سے اسلام کے دامنِ رحمت میں آئے۔ برصغیر کی تاریخ مشائخ چشت کے کارہائے نمایاں اور زریں خدمات سے تاب ناک ہے۔ سلسلہ قادریہ برکاتیہ نے بھی تخم ریزی کی۔ ایمان کی کھیتی کو شاداب کیا۔ عقیدہ و عمل کی فصل کو ہرا بھرا کیا۔ خانقاہ برکاتیہ مارہرہ صدیوں سے اسلامیان برصغیر کی رہ نمائی کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ اس خانقاہ نے اسلام کے روحانی نظام کو تازگی عطا کی ہے۔

خانقاہ برکاتیہ کے اکابر میں دسویں صدی ہجری میںمیر سید عبدالواحد بلگرامی گزرے ہیںجنھوں نے اس عہد میں بدعات و منکرات اور اسلام سے جدا راہیں تراشنے والوں کی خبر لے کر اسلام کی فصیل کی حفاظت کی، اس باب میں ان کی کتاب ”سبع سنابل شریف“ آج بھی رہ بر و رہ نما کی حیثیت رکھتی ہے۔ انھیں میں میر غلام علی آزاد بلگرامی ہیں، آپ نے اپنی محدثانہ و مورخانہ خدمات سے 12ویں صدی ہجری میں عالم اسلام میں شہرت حاصل کی، آپ کی درجنوں کتابیں آج بھی بنیادی مآخذ کے طور پر محققین کی نگاہوں کا مرکز ہیں۔خانقاہ مارہرہ کے پہلے بزرگ حضرت سید میر عبدالجلیل بلگرامی ہیں جنھوں نے بلگرام سے ہجرت کر کے قصبہ مارہرہ ضلع ایٹہ یو پی میں سکونت اختیار کی، آپ کے صاحب زادے حضرت سید شاہ برکت اللہ عشقی مارہروی ہیں،جن کی ذات علوم شریعت و معرفت کا خزینہ تھی، آپ اپنے عہد کے عربی و فارسی، ہندی و برج بھاشا کے زبردست شاعر تھے، ادبی خدمات کا مرقع ”پیم پرکاش“ اور ”دیوان عشقی “ کی صورت میں موجود ہے۔کئی تصانیف عقائد و سلوک کے باب میں ہیں۔اردو کے ابتدائی دور میں آپ نے شُستہ نثر اور رواں نظم کا نمونہ پیش کیا۔

ہر دور میں خانقاہ برکاتیہ نے وہ گُہر آب دار و دُرِّتاب دار پیدا کیے جن سے اشاعت اسلام کے ساتھ ہی سلسلہ قادریہ میں توسیع ہوئی۔ وابستگان خانقاہ برکاتیہ نے ہر دور میں خلق خدا کی راہِ حق کی طرف رہ نمائی کی۔ تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ حضرت شاہ آل رسول مارہروی جن کا سلسلہ علم حدیث حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے جا ملتا ہے نے علم دین کی اشاعت کے لیے بہت ہی فعال کردار ادا کیا۔نیز شاہ ابوالحسین مارہروی کا نام بھی اس خصوص میں اہمیت رکھتا ہے ان کی تصانیف نے ایسے دور میں جب کہ ملک پر انگریز قابض تھے، اسلامی مدارس اور خانقاہیں زوال سے دوچار تھیں مسلمانوں کی حوصلہ مند قیادت کی۔ انھیں دو شخصیات کے پروردہ تھے امام احمد رضامحدث بریلوی(م1921ئ) جن کے علوم و فنون سے پورا عالم اسلام استفادہ کر رہا ہے اور جن کی تصانیف میں غزالی و سیوطی کے دقایق، اور غوث اعظم کے عرفان کی تجلیاں جلوہ ریز ہیں۔ ایسے وقت میں جب کہ امید نہیں تھی کہ کوئی یکتائے روزگار شخصیت غلام ہندوستان میںجلوہ گر ہو تی امام احمد رضا کا وجود برصغیر میں اسلام کی نشاة الثانیہ کا باعث ہوا، آپ کی کتبِ علمیہ میں اسلاف کرام بالخصوص شیخ عبدالحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ، علامہ فضل حق خیرآبادی کا رنگ تحقیق و تدقیق نظر آتا ہے۔

بعد کے ادوار میں بھی خانقاہ برکاتیہ سے رُشد و ہدایت اور تعلیماتِ تصوف کا احیا بہ حسن و خوبی ہوتا رہا۔ حضرت میر ابوالقاسم اسماعیل حسن شاہ جی میاں نے سلسلہ قادریہ برکاتیہ کو مزید عروج عطا کیا، انھوں نے اپنے مکاتیب (مفاوضات طیبہ)کے ذریعے صوفیانہ اقدار کو نئی زندگی دی، مکاتیب (مفاوضات طیبہ)میں اصلاح و فلاح کا دستورالعمل مستور ہے۔ تاج العلما سید اولاد رسول مارہروی نے سیاسی و سماجی، علمی و تصنیفی سطح پر نمایاں کام انجام دیا۔ خانقاہ برکاتیہ کی تاریخ لکھی۔مورخ کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ انگریز کے خلاف ذہنی فضا ہم وار کی۔ تعلیمات شریعت و طریقت کے فروغ میں سیدالعلما مولاناسیدآل مصطفی مارہروی، احسن العلما مولانا سید مصطفی حیدرحسن میاں مارہروی نے فعال کردار ادا کیا۔ ان بزرگوں نے شعر و ادب میں بھی اپنی نگارشات کا بڑا حصہ چھوڑا۔اور تصوف کے ساتھ ہی علم دین کی اشاعت بھی فرمائی۔

خانقاہ برکاتیہ کے موجودہ مشائخ بالخصوص ڈاکٹرسید محمد امین میاں برکاتی(شعبہ اردو،مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ) ، حضرت سید آل حسنین میاں نظمی، سید محمد اشرف برکاتی(انکم ٹیکس کمشنر دہلی)، سید محمد افضل برکاتی(آئی اے ایس، سابق رجسٹرارمسلم یونی ورسٹی علی گڑھ)، پروفیسر سیدجمال الدین اسلم مارہروی(شعبہ تاریخ، البیت یونی ورسٹی جارڈن)، سید نجیب حیدر برکاتی نوری ،شمع علم و معرفت روشن کیے ہوئے ہیں۔ ان کی خدمات کا دائرہ سمتوں میں پھیلا ہواہے، جنھیں ان جہات میں منقسم کیا جا سکتا ہے:
(۱)تعلیمی و علمی خدمات
(۲) شریعت اسلامیہ کی حفاظت و صیانت
(۳)تصنیف و تالیف نیز ادبی خدمات
(۴)اخلاق و تصوف کی آبیاری
(۵)سماجی و اصلاحی و تعمیری خدمات

راقم نے چند ماہ پیش تر شمالی ہندکا سفر کیا، اس دوران علی گڑھ کی معیاری درس گاہ ”البرکات انسٹی ٹیوشنس“(جامعہ البرکات) دیکھنے کا موقع ملا، عصری تعلیم کا پُر شکوہ مرکز جہاں ضروری دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اسے خانقاہ برکاتیہ مارہرہ نے قائم کیا ہے۔حسنِ تعمیر کا یہ مرقع اپنی فعالیت کے اعتبار سے بھی ممتاز مقام رکھتا ہے۔ قوم کی اعلیٰ تعلیمی تربیت کے ساتھ معیار علم میں اس کا اپنا مزاج ہے جس کی خدمات کا ذکر مسلم یونی ورسٹی کے کئی سینئراساتذہ نے کیا۔ ڈاکٹر مختارالدین احمد (سابق صدر شعبہ عربی مسلم یونی ورسٹی/م30جون2010ئ)سے راقم نے 17جون2009ءکو علی گڑھ میں ملاقات کی اس موقع پرانھوں نے ”جامعہ البرکات“ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خانقاہ برکاتیہ مارہرہ کے سجادہ نشین امین ملت ڈاکٹر سید امین میاں نے علی گڑھ میں بڑا شان دار ادارہ قائم کیا ہے، آپ اُسے ضرور دیکھیے۔کام کسے کہتے ہیں اس کا آسانی سے اندازہ ہوگا۔

راقم نے امین ملت ڈاکٹر سید امین میاں کے اخلاق و کردارکو قریب سے دیکھا ہے، ان کی زندگی بڑی مصروف اور قوم کے لیے وقف ہے۔ انھیں مسلمانوں کے تعلیمی عروج کی ہمہ وقت فکر رہتی ہے، وہ احقاق حق کے لیے بھی کوشاں ہیں، فکر امام احمد رضا کے اشاعتی نیٹ ورک کی نگرانی بھی کر رہے ہیں، ساری دنیا میں سرگرم درجنوں اصلاحی، دینی، تعلیمی، ادبی اداروں کی سرپرستی فرما رہے ہیں۔ مسلم یونی ورسٹی کے شعبہ اردو میں استاذ کی حیثیت سے طلبا کی رہ نمائی کے ساتھ ساتھ متعدد کتب تصوف کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے، آپ نے شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی کی شہرہ آفاق کتاب ”سراج العوارف“ اورحضرت شاہ برکت اللہ عشقی مارہروی کی ”چہار انواع“ جو معرفت و سلوک کی تعلیمات کا دستورالعمل کہی جا سکتی ہے کا سلیس اردو میں عمدہ ترجمہ کیا ہے۔

سید محمد اشرف مارہروی اردو افسانہ نگاری میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں، ان کی کئی کتابیں ادب کے دبستاں میں قبولیت کی مسند پر فائزہوئی ہیں۔ اسی طرح انگریزی لٹریچر میں اسلامیات پر حضرت نظمی میاں مارہروی نے عمدہ کام کیا ہے ، ان کی انگریزی مطبوعات درجن بھر کے قریب ہیں۔اکثر کی اشاعت ممبئی و افریقہ سے عمل میں آئی۔ساتھ ہی موجودہ عہد میں صف اول کے نعت نگار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اللہ کریم! خانقاہ برکاتیہ مارہرہ کی دینی، علمی، تصنیفی، اصلاحی خدمات کو شرف قبول عطا کرے اور قوم کی زبوں حالی کے تدارک کے لیے جس تعلیمی مشن کا اجرا اس خانقاہ نے کیا ہے اس کے منصوبوں کو عمل کے گام پر کامیابی سے سرفرازفرمائے۔
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 274105 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.