عقل و شعور

عقلی اور سائنسی تناظر

شعور
عقلی اور سائنسی تناظر
طارق ظفر کے قلم سے
شعور جو کچھ بھی ہے اور جہاں سے بھی آ یا ہے، اس نے غور وفکر کے ابتدائی دور سے ہی دنیا میں اعلیٰ دماغی صلاحیتوں کے مالکوں کو دشواری میں ڈالے رکھا ہے۔ یہ وہ جولان گاہ ہے جو آج کے دور میں سائنسدانوں، ماہرطبعیات ، ماہر حیاتیات اور ماہر اعصابیات کا میدان ہے۔ اس موضوع کو درج ذیل حصوں میں بیان کیا جا سکتا ہے:۔
مادیت کانظریہ ۔
یہ خیال کرتا ہے کہ شعور مادّے سے ظہور میں آتا ہے۔ یعنی انسانی دماغ کے اندر اربوں نیورون اور ان کے درمیان پائے جانے والے کروڑوں کنکشن کی فائرنگ سے۔اگر دماغ کو مساوات سے نکال دیا جائے تو شعور بالکل باقی نہیں رہے گا۔ روائتی طور پر سائنسدان پر عظم مادہ پرست رہے ہیں۔ مگر ایسا کرنے سے وہ بار بار مادہ پرستی کی محدودیت سے ٹکراتے ہیں۔ سائنس کے جدید نظریات اور کلاسیکی نظریات پر ہی غور کر لیں۔ جیسے موجودہ کوانٹم میکانیات اور نظریہ اضافیت کے درمیان وسیع فرق یا موج اور مادے کا نظریہ یا جراثیم کی دریافت سے پہلے طبی نظریات ۔ یا ایٹم کی دریافت سے پہلے مادے کے مسلسل ہونے کا ڈالٹن کا نظریہ۔ گویا سائنس کا کوئی بھی نظریہ صرف نظریہ ہی ہے۔
ثنویت کا نظریہ
Mind body dualism
دوسرا نظریہ ذہن اور جسم کی ثنویت کا قائل ہے۔ یہ کچھ فلسفیوں اور زیادہ تر مذہب اور روحانیت کے حلقوں میں مانا جاتا ہے۔ یہاں شعور مادّے سے علیحدہ ہے۔ یہ کسی فرد کا ایک دوسرے تناظر کا حصہ ہے۔ جسے اصطلاح کے طور پرروح کہا گیا۔ یہ روح کی عقلی تعریف تو ہو سکتی ہے لیکن اصلی نہیں کیونکہ روح اور شعور دو الگ چیزیں ہیں۔
ہمہ نفسیت کا نظریہ
ایک تیسرا خیال جو کچھ سائنسی حلقوں میں بھی جڑ پکڑ رہا ہے، وہ ہمہ نفسیت ہے۔ اس نظریے کے مطابق پوری کائنات شعور سے بسی ہوئی ہے یا با شعور ہے۔یہ اب بھی ایک بڑے بحث و مباحثہ کا معاملہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمہ نفسیت بہت حد تک ہندو اور بدھ کے براہمان کی طرح لگتا ہے، یعنی ایک بہت بڑا کائناتی دیوتا جس کا ہم سب ایک حصہ ہیں۔ یہ وحدت الوجود کے نظریے سے مماثلت رکھتا ہے جو کچھ مسلمانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر بدھ مت میں صرف شعور ہی وہ چیز ہے جو وجود رکھتی ہے۔ جیسا کہ مشہور زین کوان کا فوکس ہے کہ۔ اگر کوئی درخت جنگل میں گرتا ہے اور کوئی سننے والا آس پاس موجود نہیں ہے تو کیا درخت گرنے کی آواز پیدا کرے گا؟ آدمی کو یہ سمجھنا جانا چاہیے کہ جو کچھ ہمارے تجربے اور مشاہدے میں آتا ہے وہ ہمارے ذہنوں کی چھلنی سے گزر کر آتا ہے یعنی ذہن جو بھی اس کی تشریح کرے۔ اس کے بغیر کائنات کوئی وجود نہیں رکھتی یا کم از کم اس وقت تک کوئی وجود نہیں رکھتی جب تک کہ کوئی باشعور چیز اس کا مشاہدہ نہ کر رہی ہو۔ بدھ مت میں زین کوان وہ مقولے ہیں جو منطقی سوچ کو چیلنج کرتے ہیں۔ جن کا جواب حاصل کرنے کے لیے بن باس لے کر مراقبے وغیرہ کیے جاتے ہیں۔

شراکتی بشری اصول
Participatory anthropic principle
کچھ طبیعیات کے حلقوں میں ایک مشہور نظریہ ایک طرح کا ابتدائی شعور کے میدان کا نظریہ ہے۔
آنجہانی سائنس دان اور فلسفی، جان وہیلر ، جوبلیک ہول کی اصطلاح ایجاد کرنے کی وجہ سے مشہور ہے، کے مطابق یہ ہو سکتا ہے کہ ہر مادّے کے ٹکڑے میں کچھ نہ کچھ شعور ہوتا ہے، جسے وہ ابتدائی شعور کے میدان سے جذب کرتا ہے۔ یہ نظریہ ایسا ہی لگتا ہے جیسے مقناطیسی میدان سے تار کے لچھے میں برقی رو پیدا کی جا سکتی ہے جسے انڈکشن کہتے ہیں۔
وہ اپنے اس نظریے کو شراکتی بشری اصول کہتا ہے۔ جو یہ مانتا ہے کہ مشاہدہ کرنے والا انسان اس عمل کی بنیاد ہے یا مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ وہیلر کہتا ہے کہ کہ ہم شریک ہیں نہ صرف نزدیک بلکہ بہت دور اور بہت پہلے کو وجود میں لانے کے لیے۔۔ اس کی نظر میں، بدھ مت کی طرح، کچھ بھی موجود نہیں ہے جب تک کہ کوئی باشعور چیز اس کا ادراک کرنے کے لیے نہ موجود ہو۔ یعنی کائنات کوئی جامد اور جبری بندھنو ں میں بندھی ہوئی نہیں ہے بلکہ مشاہدہ کرنے والا اس میں حقیقت کو وجود میں لانے کے عمل میں فعال حصہ لیتا ہے۔۔۔۔۔ یہ اب تک محض ایک فلسفیانہ خیال ہے
ایلن انسٹی ٹیوٹ آف برین سائنس کے اعصابی سائنسدان کرسٹوف کوخ بھی ہمہ نفسیت کے حامی ہیں۔ کوخ کہتے ہیں کہ شعور کے بارے میں اب تک جو ایک نظریہ ہے وہ یہ ہے کہ کسی شخص اور دنیا کے بارے میں یہ آگہی کا ایک مقام ہے۔
اس نظر میں حیاتیاتی عناصر باشعور ہوتے ہیں کیونکہ جب وہ ایک نئی صورتحال پر پہنچتے ہیں تو وہ اس کا جائزہ لینے کے لیے اپنا رویہ بدل سکتے ہیں۔ ڈاکٹر کوخ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا وہ اس حیاتیاتی عنصر کے شعور کی سطح کو ناپ سکتے ہیں ؟۔۔۔۔ یہ سب بحرحال ابھی تک خیالات ہی ہیں۔
عقل نے انسان کو کچھ اور اکتسابی راستے بھی دکھائے ہیں جیسے:
باطن تک رسائی کے لئے سیر باطن کی مشقیں،، مراقبہ، صوفیانہ ریاضتیں، رہبانیت ، تپسیہ ، بن باس وغیرہ، یہ سب بھی انسانی عقل کی کارستانیاں ہیں۔ یہ بھی غیر نتیجہ خیز رہی ہیں۔


انسانی عقل خود کتنی قابل بھروسہ ہے، اس پر نظر ڈالنا بھی ضروری ہے۔
عقل کی تعریف
عقل حواس سے اطلاعات حاصل کرتی ہے لیکن وہ ان اطلاعات پر اکتفاء کرنے والی نہیں ہے۔ عقل حواس سے حاصل شدہ معلومات کا تجز یہ کرنے اور محسوسات کو معقول بنانے کے لیئے انہیں مادی محسوسییت سے آزاد کرکےکر کے ایک تصور بنانے والی قوت ہے۔ جیسے ریاضی کے کلیات ، مساوات اور گراف وغیرہ کی مدد سے محسوسات کو ایک نظریہ کی شکل دینا۔
اس کے با وجودعقل کمزور ہے یعنی عقل کو حواس کی محدود یت پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ اسے کہیں کا نہیں چھوڑتے، پھر عقل ہی حواس کی قوت آلات کے ذریعے بڑہانے کے بعد اپنی بیان کردہ پچھلی حقیقت کو خود ہی تبدیل کرتی رہتی ہے ۔ سائنس کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔اگر حواس نہ کام کریں تو عقل اندھی ہے ۔ پھر بھی عقل چاہتی ہے کہ چیزیں اپنی حقیقت اس سے اخذ کریں چاہے وہ کتنی ہی نا معقول ہوں۔ یعنی عقل خود کو نہیں پہچانتی ، اسپر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ۔
حقیقت کی تلاش
حقیقت تک پہنچنا انسان کی آرزو ہے
عقل کی مو شگافیوں کے ذریعے یا تخیل کی پرواز کے ذریعے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش فلفسہ ہے، لیکن انسانی ذہن ایک حد سے آگے تصور نہبں کر سکتا۔
مادے کے مشاہدے اور تجربے کے ذریعے حقیقت جاننے کی کوشش سا ئنس ہے، ۔اس وقت حال یہ ہے کہ جدید آلات کے ذریعے مشاہدات کا طوفان تھمنے میں نہیں آ رہا ہے چاہے وہ طبعی ہو، حیاتیاتی ہو یا اعصابی وغیرہ وغیرہ ہو ، اگر پوری دنیا کی آبادی کو سائنسداں بنا دیا جائے تب بھی ان مشاہدات کا تجزیہ کرنے کے لیے کم ہو گی اور وقت کا تو کوئی اندازہ نہیں کہ کتنے ہزار یا لاکھ سال لگ جائیں۔ کسی نتیجے تک پہنچنا تو دور کی بات ہے۔ گویا ایک انسانی زندگی میں اکتسابی علم کے ذریعے کائنات کی اصل حقیقت اور اس کے مقصد تخلیق تک پہنچنا ناممکن ہے۔
لیکن نامعلوم حقیقت کوجس کا مشاہدہ نہ ہوا ہوکسی معلوم تجربے کے ، ذریعے نہیں معلوم کیا جا سکتا ، وہ یا تو صرف اتفاق سے ہی مشاہدے میں آتی ہے یا انکشاف کے ذریعے۔ نیز اتفاق سے دریافت ہونے والی حقیقت کا مادی ہونا یعنی حواس کی گرفت میں آنا ضروری ہے، حواس سے ما وراء اشیاء کو عقل کی گرفت میں لانا محال ہے۔ مادی حقائق کو بھی عقل کی گرفت میں لانا کوئی آسان کام نہیں اس میں لاکھوں سال بھی لگ سکتے ہیں، مثال کے طور پہ تیل کا استعمال روشنی پیدا کرنے کے لیے لاکھوں سال سے ہو رہا تھا لیکن تیل کا استعمال گاڑی چلانے کے لیے صرف ڈیڑھ سو سال پہلے دریافت ہوا۔ یعنی سائنس کا راستہ دقت طلب اور طویل مدتی ہے اس کے سوالات ختم ہونے میں نہیں آتے ، سائنسی علم ہمیشہ تشنہ ہی رہتا ہے۔
تو کیا یہ کہنا کہ موجودہ سائنسی علم حتمی ہے اور اس کی بنیاد پر کائنات کے بارے میں ہر سوال کا جواب مل گیا ہے کوئی عقلی بات ہو سکتی ہے، جبکہ کائنات کی اتھاہ گہرائیوں میں چھپے بے شمار اسرار اب بھی دریافت ہونے کے منتظر ہیں۔




 

Tariq Zafar Khan
About the Author: Tariq Zafar Khan Read More Articles by Tariq Zafar Khan: 9 Articles with 7656 views A enthusiastic reader and writer. Interested in new discoveries, inventions, innovations in science and their place and effect in society and religio.. View More