مشکل وقت

مشکل وقت، یہ وہ وقت ہوتا ہے جو بظاہر گزر جاتا ہے، لیکن انسان کے اندر کچھ ایسا چھوڑ جاتا ہے جو کبھی نہیں گزرتا۔ ایک چپ، ایک خالی پن، ایک سایہ، جو ہر لمحے، ہر جگہ ساتھ رہتا ہے۔ میں بھی اب اُسی سائے کے ساتھ زندہ ہوں۔ کسی کی ان کہی، ان دیکھی محبت میں کچھ ایسا الجھ گیا ہوں کہ اب نہ وہ رہا، نہ میں، اور جو کچھ رہ گیا ہے، وہ صرف ایک یاد ہے، ایک بے رحم، بےخبر یاد، جس سے چاہ کر بھی آزاد نہیں ہو سکتا۔

میں نے خود سے وعدے کیے تھے۔ کہا تھا کہ اُس کے بغیر جی لوں گا، اُس کی باتوں کو بھلا دوں گا، اُس کے خوابوں سے دُور نکل جاؤں گا۔ ہر وہ راستہ، ہر وہ جگہ جہاں اُس کی موجودگی محسوس ہوتی تھی، وہاں سے خود کو کاٹ لیا۔ اُس کے نام سے جُڑی ہر شے سے آنکھیں پھیر لیں، اُس کے ذکر پر لب سی لیے، اُس کی آواز کو دل سے نکال پھینکنے کی کوشش کی۔ میں نے ہر دروازہ بند کر دیا جہاں سے وہ لوٹ سکتی تھی، مگر اُس کی یاد؟ وہ تو جیسے دیواروں میں سما گئی ہے۔ میں خود کو بہت بار سمجھا چکا ہوں، دل کو بھی، آنکھوں کو بھی، کہ یہ سب اب بےمعنی ہے۔ جس کے لیے دل میں اتنی تڑپ تھی، وہ کبھی لوٹے گی نہیں۔ نہ وہ لمحے لوٹیں گے، نہ وہ خاموشی جس میں اُس کی آہٹ سنی جاتی تھی۔ میں نے خود کو اُس کی ہر یاد سے کاٹنا چاہا۔ اُس کے نام کو اپنے لفظوں سے الگ کیا۔ اُس کے نقش کو خوابوں سے مٹانے کی کوشش کی۔ مگر شاید یہی میری سب سے بڑی شکست ہے کہ جتنی شدت سے مٹانا چاہا، اتنی ہی شدت سے وہ نقش گہرے ہوتے گئے۔

یادیں بڑی بےرحم ہوتی ہیں۔ نہ وہ وقت کی محتاج ہوتی ہیں، نہ فاصلے کی۔ وہ اچانک آتی ہیں، کسی معمولی سی خوشبو میں، کسی پرانی دھُن میں، کسی پرانی بات میں، کسی پرانے لفظ میں۔ اور پھر دل کو ایسے جکڑتی ہیں کہ انسان سب بھول کر پھر سے وہیں لوٹ جاتا ہے، جہاں صرف ایک شخص تھا، وہ۔ میں جانتا ہوں، اب وہ کسی اور کی دنیا میں جا چکی ہے۔ اُس کے لمحے اب کسی اور کے ساتھ جُڑے ہیں۔ وہ ہنستی ہے، جیتی ہے، آگے بڑھ چکی ہے، اور میں؟ میں اب بھی وہیں ہوں، جہاں آخری بار اُس کی پرچھائی کو جاتے دیکھا تھا۔ وہ صرف یاد نہیں، اب تو وہ عادت بن چکی ہے۔ جیسے ہر صبح اُسی کے خیال سے جاگنا، ہر رات اُسی کی پرچھائیں میں سونا۔ ہر اجنبی چہرے میں اُس کی جھلک تلاش کرنا۔ ہر بات، ہر منظر، ہر سانس میں اُس کا نام سنائی دینا۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ خود کو بچا لوں، مگر اب لگتا ہے میں خود کو کھو چکا ہوں۔ شاید مکمل طور پر۔ شاید اب کوشش کے باوجود بھی خود کو تلاش نہ کر سکوں۔

میں نے اپنے دل کو سمجھایا ہے، ہر روز، ہر رات۔ کہا ہے، اب بس، بہت ہو گیا۔ جو کبھی تھا بھی نہیں، اُسے بھول جانا چاہیے۔ لیکن دل تو دل ہے، بات مانتا ہی کب ہے؟ اُس کی یاد جیسے میرے سینے میں دھڑکن بن گئی ہے، چاہے جتنی کوشش کروں، وہ میرے وجود سے نکلتی ہی نہیں۔ میں نے چاہا کہ خود کو مصروف رکھوں، کتابوں میں، کاموں میں، ہنسی میں، شور میں، تفریح میں، مگر وہ ہر خاموشی میں میری رگ رگ سے بولتی ہے۔ میں نے کبھی کسی سے کچھ نہیں کہا، نہ شکایت کی، نہ اظہار کیا۔ بس ہر بات، ہر درد، ہر خواہش کو دل کے اندر قید کر دیا۔ اور اب وہ سب جیسے دھماکے کی صورت اندر گونجتا ہے۔ جب رات کو خاموشی پھیلتی ہے، تب دل کے شور سے نیند بھی روٹھ جاتی ہے۔ وہ ایک چھوٹا سا لمحہ، جب اُس کی یاد آتی ہے، میری پوری رات کو برباد کر دیتا ہے۔ اور میں, اندھیرے میں آنکھیں کھولے، چھت کو تکتا رہتا ہوں, بس تکتا رہتا ہوں۔

کبھی سوچتا ہوں، کیا یہ وقت واقعی مشکل ہے، یا میں ہی کمزور ہوں؟ شاید دونوں۔ کیونکہ یہ وہ وقت ہے جب دل چپ چاپ تڑپتا ہے، زبان بند رہتی ہے، آنکھیں خالی ہو جاتی ہیں، اور انسان خود سے نظریں چُرا کر جیتا ہے۔ ہر دن ایک پہاڑ کی طرح لگتا ہے، ہر رات ایک قید، اور اُس کی ایک پرانی مسکراہٹ، سینے میں چھُری کی طرح اترتی ہے۔ یہ مشکل وقت صرف وقت نہیں رہا، یہ تو جیسے ایک کیفیت ہے جو میرے وجود کا حصہ بن گئی ہے۔ ایک مسلسل لڑائی ہے، جس میں کوئی جیت نہیں، بس ہار ہے, اور تھکن ہے۔ دل کی تھکن، روح کی تھکن, جو کسی کو دکھائی نہیں دیتی، نہ سمجھائی جا سکتی ہے۔
لوگ کہتے ہیں وقت سب ٹھیک کر دیتا ہے، پر یہ وقت تو جیسے زخموں کو گہرا کرتا جا رہا ہے، جتنا آگے جاتا ہوں، اُتنا ہی پیچھے لوٹتا ہوں، وہ ایک لمحہ، وہ ایک شخص، وہ ایک احساس، جنہیں بھلا دینا میری بقا کے لیے ضروری ہے، لیکن وہی میری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ زخم وہ ناسور بن چکا ہے جسے کاٹ کر پھینکنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اگر سانس کے ڈور میں کوءی زخم ہو اور وہ ناسور بن جاے تو کیا اُسے کاٹ کر پھینکا جا سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔

میں لڑ رہا ہوں، خود سے، وقت سے، تقدیر سے، اور سب سے بڑھ کر اُس یاد سے جو ہر رات میرے تکیے پر سرہانے رکھ دیتی ہے، ایک خاموش اذیت، ایک بےآواز سوال، ایک اجنبی سا خوف، کہ میں کبھی بھی مکمل نہیں ہو سکوں گا، اور شاید کبھی واقعی زندہ نہیں ہو پاؤں گا۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے، چیخوں، چِلّاؤں، دنیا کو بتاؤں کہ میں کیا جھیل رہا ہوں۔ مگر کیا فرق پڑے گا؟ کون سمجھے گا؟ کون سنے گا؟ اور اگر سن بھی لے، تو کیا وہ واپس آ جائے گی؟ کیا میرے اندر کا خلا بھر جائے گا؟ نہیں, شاید کبھی نہیں۔

یہ مشکل وقت ہے، بہت مشکل، جہاں جینا بوجھ ہے، اور مرنا سوال، جہاں ہنسنا اداکاری ہے، اور رونا کمزوری، جہاں یاد وہ قید ہے جس کی زنجیروں کو میں خود باندھ چکا ہوں، اور اب، اُنہی زنجیروں میں جکڑا، بس چلتا جا رہا ہوں۔

ہاں، یہ مشکل وقت ہے، اور میں اُس میں تنہا ہوں، پر جی رہا ہوں، صرف اس اُمید پر کہ شاید کسی دن، یہ یاد بھی تھک جائے، اور مجھے چھوڑ دے۔ میں اب کسی سے کچھ نہیں مانگتا، نہ واپسی، نہ تسلی، نہ وفا۔ بس ایک سوال ہے جو ہر وقت دل میں رہتا ہے: آخر کب ختم ہو گا یہ مشکل وقت؟ کب وہ لمحہ آئے گا جب میں اُس کے بغیر بھی سانس لے سکوں گا، بغیر لرزے، بغیر تڑپے، بغیر ٹوٹے؟ ہاں یہ ہے کہ جب کبھی وہ خوشی خوشی کہیں ہنستی مسکراتی نظر آتی ہے، تب خود سے ایک بات کہہ لیتا ہوں: شاید میرا درد ہی اُس کی راحت بن گیا ہے، میری خاموشی اُس کا سکون ہے۔ تو اگر اُسے سکون ہے، تو میں یہ مشکل وقت سہہ لوں گا, چاہے ساری عمر ہی کیوں نہ گزر جائے۔
 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 16 Articles with 5503 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.