ایک وقت تھا جب ہنسی بے ساختہ لبوں پر آ جاتی تھی۔ دل سے
پھوٹتی تھی، آنکھوں میں روشنی بھر دیتی تھی، اور زندگی کو کسی سنہری خواب
کی طرح خوبصورت بنا دیتی تھی۔ میں ہنستا تھا تو دل بھی ساتھ ہنستا تھا۔
جیسے ہر درد، ہر دکھ کہیں بہت دور ہو، جیسے خوشی میرا مقدر ہو، جیسے محبت
میرا ہمسفر ہو۔ مگر اب، اب ہنسی بھی ایک اداکاری بن گئی ہے۔
مینیں باتوں باتوں میں محسوس کیا کہ میری ہنسی جھوٹی ہے، میرا ہنسنا
زبردستی ہے، ایک ناٹک ہے، جو میں سب کے سامنے کر رہا ہوں۔ مگر کیا کروں۔
جانے کب، کیسے، اور کیوں یہ سب بدل گیا؟ شاید اُسی دن جب میں نے خود کو اُس
کی یادوں میں دفن ہوتے پایا، جب میں نے خود سے نظریں چُرا کر جینا سیکھا۔
جب میں نے اپنی ان کہی، ان دیکھی محبت کو دل میں دفن کر کے، دنیا کے سامنے
مسکراہٹ کا مصنوعی نقاب پہن لیا۔ تب سے لے کر آج تک، ہر ہنسی ایک بوجھ بنی
ہے، ایک مجبوری۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ ہنسوں، لوگوں کے سامنے خوش نظر آؤں،
تاکہ کوئی میرے اندر جھانک کر اُس ویرانی کو نہ دیکھ لے جو میری روح میں
بسی ہے۔ پر اصل بات تو یہ ہے کہ اب ہنسی بھی سچی نہیں رہی۔
کبھی کبھی کسی محفل میں بیٹھا، بے ساختہ قہقہے لگتے سنتا ہوں تو اپنے اندر
ایک عجیب سا خلا محسوس کرتا ہوں۔ میں بھی ہنستا ہوں، جیسے سب ہنس رہے ہیں۔
مگر اندر، ایک گونجتی ہوئی خاموشی ہوتی ہے، ایک سوال، ایک خالی پن۔ میں
جانتا ہوں کہ میرا ہنسنا محض ایک عمل ہے، ایک اداکاری، ایک خود کو دھوکہ
دینے کی کوشش۔ کبھی اس میں کامیاب ہو جاتا ہوں، اور اکثر بُری طرح ناکام۔
کتنی بار ایسا ہوا کہ میں کسی ہنسی میں شریک ہوا اور دل نے چیخ کر کہا: ”یہ
تو تم نہیں ہو۔“ میرے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے، مگر آنکھوں میں نمی۔ میرے
ہونٹ ہلتے ہیں، مگر دل میں ایک خاموش ماتم برپا ہوتا ہے۔ میں نے خود کو
سمجھایا، لاکھوں بار سمجھایا کہ یہ دنیا بس دکھاوے کی ہے، یہاں سچی ہنسی کا
کوئی مول نہیں، یہاں سب اپنے اپنے زخم چھپا کر ہنستے ہیں۔ تو میں بھی
ہنسوں، مگر دل کی ضد ہے کہ وہ پرانی ہنسی مانگتا ہے، وہ بےفکری، وہ
بےساختگی، وہ روشنی جو اب کہیں کھو چکی ہے۔ اسے کیسے بتاؤں کہ وہ جس کی
خواہش کر رہا ہے، وہ نہیں ہو سکتا، وہ نہیں مل سکتی، مگر دل، دل تو بچہ ہے
جی۔
ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب میں خود سے الجھ جاتا ہوں۔ کبھی تنہائی میں
بیٹھ کر سوچتا ہوں، کیا میں واقعی اب کبھی دل سے ہنس سکوں گا؟ کیا وہ دن
لوٹیں گے جب ہنسی میرے دل کا آئینہ ہوا کرتی تھی؟ یا اب ساری عمر یوں ہی
زبردستی کی ہنسی کے پردے میں چھپ کر جینا پڑے گا؟ مجھے لگتا ہے شاید اب سب
یوں ہی رہے گا، وہ جا چکی ہے، یا جا رہی ہے، اپنے ساتھ سب کچھ لے جا رہی
ہے۔
وہ محبت، وہ یادیں، وہ تکلیف، جنہوں نے میرا سب کچھ بدل دیا، وہ اب میرے
ہنسنے کے انداز کو بھی نگل چکی ہیں۔ میں ہنستا ہوں، بس اس لیے کہ لوگ نہ
پوچھیں، ”تم اتنے خاموش کیوں ہو؟“ میں ہنستا ہوں، تاکہ خود کو یہ یقین
دلاؤں کہ شاید میں ٹھیک ہوں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ میں ٹھیک نہیں ہوں۔ میں
بہت عرصے سے ٹھیک نہیں ہوں۔ میں اندر سے ٹوٹ چکا ہوں، بکھر چکا ہوں، اور اب
صرف ہنسی کے چند زبردستی کے لمحوں میں اپنی بکھری ہوئی ذات کو چھپانے کی
کوشش کر رہا ہوں۔ اب تک تو کامیاب ہوں، مگر نہ جانے کب تک۔ شاید اسی کو
زندگی کہتے ہیں، یا شاید یہ وہ سزا ہے جو دل لگا کر یکطرفہ محبت کرنے والوں
کو دی جاتی ہے۔ جنہوں نے اپنا سب کچھ بنا مانگے دے دیا، اور بدلے میں
تنہائی، خاموشی، اور جھوٹی ہنسیوں کی پناہ ملی۔
اب جب بھی ہنستا ہوں، دل ہی دل میں ایک دعا کرتا ہوں: ”اے رب، کبھی تُو
ایسا لمحہ بھیج جب ہنسی دل سے نکلے، ایسی ہنسی جو پھیکی نہ ہو، زبردستی نہ
ہو، ایسی ہنسی جو واقعی ہنسی ہو۔“ اور پھر خاموشی سے اپنے ہونٹوں پر ایک
مصنوعی مسکراہٹ سجا کر، دنیا کے ہجوم میں خود کو گم کر دیتا ہوں، جیسے میں
نے ہنسی کا دکھ بھی ہنسی ہی میں چھپا لیا ہو۔
جب کبھی آئینے میں خود کو دیکھتا ہوں، تو لگتا ہے جیسے کوئی اور شخص ہے
سامنے۔ وہ جو ہنس رہا ہے، وہ میں نہیں ہوں۔ وہ ہنسی جو لبوں پر کھیل رہی
ہے، وہ میرے اندر کے سناٹے کی پردہ پوشی ہے۔ میں اپنی آنکھوں میں جھانکتا
ہوں تو وہاں ایک انجانی تھکن، ایک مسلسل بوجھ نظر آتا ہے، جو کسی کو دکھائی
نہیں دیتا۔ کاش کوئی میری ہنسی کے پیچھے چھپے اس بوجھ کو محسوس کر سکتا،
کاش کوئی میرے ہنستے چہرے کے پیچھے بلکتے دل کی آواز سن سکتا۔ مگر دنیا کو
فقط وہی دکھائی دیتا ہے جو میں دکھانا چاہتا ہوں۔ ہاں شاید یہی ٹھیک ہے،
کیونکہ لوگ جان جاءیں تو وہ مزاک بناءیں گے، تانے کسیں گے، عجیب عجیب سے
گمان کریں گے۔ دنیا نا ہی جانے تو اچھا ہے۔
اکثر دل چاہتا ہے کہ سب چھوڑ دوں، یہ ہنسی کی اداکاری، یہ جینے کی زبردستی،
یہ بے وجہ کی محنت، سب کچھ چھوڑ کر کہیں دور چلا جاؤں، جہاں نہ کوئی
پہچانے، نہ کوئی سوال کرے، نہ کوئی پوچھے کہ ”کیسے ہو؟“ کیونکہ اس سوال کا
کوئی سچا جواب میرے پاس نہیں بچا۔ کہوں تو کیا کہوں؟ کہوں کہ اندر سے بکھر
چکا ہوں؟ کہوں کہ ہنسی اب زخموں کی ایک مہذب سی چادر بن گئی ہے؟ کہوں کہ
زندگی کی شاید سب سے بڑی غلطی ہو گءی ہے؟ جس کی معافی مجھے کوءی نہیں دے
گا۔ کہوں کہ اب کچھ بھی نہیں بچا؟
ایسا نہیں کہ میں نے ہنسنے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے خود کو بہت بار یہ جھوٹ
سنایا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا، میں نے ہنسی کو پھر سے سچ کرنے کی لاکھوں بار
کوشش کی۔ مگر دل کا بوجھ اتنا بھاری ہے کہ ہر کوشش بے کار ہو جاتی ہے۔ ہر
قہقہہ میرے اندر اک ہوک بن کر گونجتا ہے، اور ہر مسکراہٹ ایک نیا زخم چھوڑ
جاتی ہے۔
اب تو ہنسی بھی ایک مشق بن گئی ہے، جیسے کوئی مشین ہو جو مخصوص اوقات پر
مخصوص طریقے سے مسکرائے۔ دل بےزار ہو تو بھی ہنسی، آنسو آنکھوں میں بھرے
ہوں تو بھی ہنسی، ٹوٹے خوابوں کے ملبے پر چلتے ہوئے بھی ہنسی۔
شاید میں اس عادت کا اتنا عادی ہو چکا ہوں کہ کبھی کبھی خود بھی یقین کرنے
لگتا ہوں کہ میں خوش ہوں۔ مگر جب رات کی تنہائی میں دل کی چیخیں سنائی دیتی
ہیں تو ساری حقیقت سامنے آ جاتی ہے۔ تب لگتا ہے کہ یہ ہنسی محض ایک لبادہ
ہے، ایک خوبصورت مگر بے روح لبادہ، جس کے اندر ایک شکستہ روح کراہ رہی ہے۔
اور پھر… اگلے دن، نیا چہرہ، نئی ہنسی، نئی اداکاری، اور میں پھر سے دنیا
کی نظروں میں خوش ہونے کا ناٹک شروع کر دیتا ہوں۔ دل کی گہرائیوں میں بس یہ
دعا لیے کہ شاید کبھی کوئی لمحہ ایسا بھی آئے، جب ہنسنا پڑے، نہیں، بس ہنسی
خودبخود چھلک پڑے، سچ مچ کی، دل سے نکلی ہوئی، زندگی سے بھری ہوئی ہنسی۔ تب
تک میں یوں ہی ہنستا رہوں گا، پھیکی ہنسی، زبردستی کی ہنسی، کیونکہ اس کے
سوا اب میرے پاس کوئی راستہ نہیں بچا۔
|